ایک خبر بظاہر انوکھی دراصل شرمناک تھی۔ یہ کہ کراچی میں ان دو کتوں کو زہرکا ٹیکا لگا کر قتل کردیا گیا جنہوں نے دس بارہ دن پہلے ایک وکیل پر حملہ کر کے زخمی کردیا تھا۔ کتے ایک شہری ہمایوں خان کے تھے اور وکیل کا نام مرزا اختر علی تھا۔ وکیل کی بچت ہو گئی، کوئی سنگین زخم نہیں آئے لیکن معاملہ سنگین تھا۔ صلح صفائی یوں ہوئی کہ کتوں کے مالک نے وکیل کو ہرجانہ دیا اور صلح کی یہ شرط مان لی کہ کتے قتل کردیئے جائیں۔ کتوں کا قصور کیا تھا؟ انہیں مالک نے ٹریننگ دی تھی کہ مشکوک آدمی گھر میں داخل ہونے کی کوشش کرے تو حملہ کردو۔ وقوعہ کے وقت سڑک سنسان تھی (سڑک تو شاید نہیں، گلی تھی) اور مالک نے کتوں کو کھلا چھوڑا ہوا تھا۔ انہوں نے اکیلے آدمی کو آتے دیکھا تو تربیت کے مطابق حملہ کردیا۔ قصور مالک کا تھا، کتوں کا نہیں اور پھر یہ کیسی صلح تھی جس میں دو قتل کر کے قصاص لیا گیا اور دیت بھی۔ ایسا کبھی امریکہ میں ہوتا تھا۔ حملہ آور جانور کو سزائے موت دی جاتی تھی لیکن یہ دو صدی پہلے کا امریکہ تھا۔ پاکستان بھی دو صدی بعد آج کا امریکہ بن جائے گا، اگر مثبت سوچ کے تحت تبصرہ کیا جائے تو یہ بات کہی جا سکتی ہے۔
٭کراچی اور اسلام آباد میں پچھلے دنوں کتا مار مہم چلائی گئی۔ راہ چلتے کتوں کو ایک گولی مانے کے بعد اہلکار آگے بڑھ جاتے۔ اپنے ہی خون کے تالاب میں کتا گھنٹوں تڑپ تڑپ کر مرتا۔ انوکھی تہذیب کا انوکھا مظاہرہ۔ آوارہ کتوں کا علاج انہیں قتل کرنا نہیں، Spax کرنا ہے لیکن اذیت رساں افسروں کو اس سے کیا غرض۔ بہرحال، غنیمت ہے کہ ہمارے افسر الجزائر کے نہیں ہیں۔ الجزائر میں ان دنوں ایک بہت چھوٹی سی غیر اہم سی مہم چل رہی ہے۔ گالوفا کے خلاف۔ گالوفا رومن الفاظ Galoufa کی اردو شکل ہے۔ اصل لفظ عربی میں ہے، پتہ نہیں کیا شکل ہوگی۔ گالوفا کیا ہے؟ یہ کتا مار مہم کا نام ہے جس میں بلیاں بھی مار دی جاتی ہیں۔ سڑکوں اور گلیوں سے ہزاروں کتے اور بلیاں پکڑی جاتی ہیں۔ پھر بڑے بڑے ڈرموں میں ڈال کر اوپر سے ردی کاغذ، پرانے کپڑے ٹھونس کر آگ لگا دی جاتی ہے۔ تحریک چلانے والوں کا کہنا ہے کہ جانور سلگ جاتے ہیں اور ایک گھنٹہ تک تڑپنے کے بعد مرتے ہیں۔ گالوفا کا دوسرا طریقہ ایک بڑی مشین ہے۔ ٹھپے لگانے والی لیتھ مشین کی طرح۔ ایک بڑے بکس میں درجنوں کتے اور بلیاں بند کردی جاتی ہیں، اوپر سے متحرک چھت نیچے آتی ہے اور سب کو کچل پیس کر رکھ دیا جاتا ہے۔ الجزائر میں مخالفوں کو قتل کرنے کے لیے بھی دنیا بھر سے انوکھے طریقے ہیں جن کی پوری صدیوں پر مشتمل تاریخ ہے۔ یہاں آدھی آبادی بربروں کی ہے اور اسی سے لفظ بربریت Barbarianism نکلا ہے۔
٭جانوروں پر مظالم کے خلاف ایک چھوٹی سی ایسی ہی تحریک انڈونیشیا میں بھی چل رہی ہے۔ یہ گائے کو قتل کرنے کے طریقے کے خلاف ہے۔ گائے کو ذبح کرنے کے بجائے ہاتھ پائوں باندھ کر سڑک پر ڈال دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد دو آدمی اس کی کھال اتارتے ہیں۔ کھال صحیح ثابت اترے، اس کے لیے وقت کی بھی ضرورت ہے احتیاط کی بھی۔ چنانچہ ایک گائے کی کھال اتارنے میں آدھا گھنٹہ لگتا ہے۔ اس کے بعد گائے کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ایک گھنٹہ بعد وہ بھی اسی طرح بندھی بندھی مر جاتی ہے اور اس کا گوشت کاٹنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ عید قربان آنے والی ہے، لاکھوں گائیں ذبح کی جائیں گی۔ تحریک چلانے والوں کا مطالبہ ہے کہ اتنی اذیت د یکر انہیں نہ مارا جائے۔
٭انڈونیشیا زرد قوموں کے ملکوں میں شامل ہے۔ الجزائر عرب اور بربر قوم کا ملک ہے۔ کتوں اور بلیوں کو زندہ بھون کر کھانے کی رسم زرد قوموں میں سب سے زیادہ ہے لیکن افریقہ بھی پیچھے نہیں۔ گھانا اور مسلم اکثریتی نائجیریا سمیت 21 ممالک افریقہ کے ایسے ہیں جہاں کتوں اور بلیوں کو گھولتے پانی میں زندہ ابالا جاتا ہے۔ نائجیریا میں کتے کو ہلاک کرنے کا ایک اور طریقہ بھی ہے۔ کتے کو دونوں طرف سے باندھ کر دو درختوں یا ڈنڈوں کے درمیان لٹکا دیا جاتا ہے، پھر کلہاڑے کا وار کر کے دو ٹکڑے کر دیا جاتا ہے۔ سر والا حصہ دیر تک زندہ رہتا ہے، اس دوران دعوت میں شریک حضرات خوشی سے رقص کرتے ہیں۔
٭21 ممالک میں مصر شامل نہیں، مصر اپنے ذمے کوئی گناہ نہیں لینا چاہتا چنانچہ ہر سال ملینز کے حساب سے کتے اور بلیاں پکڑ کر چین اور دوسری زرد قوموں کو بھیج دیتا ہے۔ وہ جانیں اور زرد قومیں جانیں۔ ہم نے تو کسی جانور پر ظلم نہیں کیا۔ چین اور اٹلی میں کتے کی کھال سے بنائے جانے والے جوتوں کے بڑے بڑے کارخانے ہیں۔ ان کارخانوں میں کیا ہوتا ہے۔ تصور کی آنکھ گھمائیں، جو کچھ نظر آئے، کم ہے۔
٭کتا انسان سے ٹوٹ کر پیار کرنے والا جانور ہے اور ذہین و حساس بھی۔ سائنس دانوں کے مطابق چمپنزی (اور دیگر بندر) دوسرے نمبر پر کتا، تیسرے پر سوّر اور چوتھے پر ہاتھی آتے ہیں، یعنی ذہین اور حساس ہونے میں نئی فہرست کے مطابق کاکاٹو طوطے ان سب سے زیادہ ذہین ہیں۔ ہاتھیوں پر ظلم میں چین اور زرد فام دوسرے ملکوں کے بعد بھارت کا نمبر ہے جہاں سرکسوں اور مندروں میں ان پر مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ چین کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔ افریقہ میں چھ سال ہزاروں ہاتھی، دسیوں ہزار گینڈے چین کے تاجروں کی فرمائش پر بے رحمی سے قتل کئے جاتے ہیں۔ ان کے دانت، سینگ، چمڑا، ہڈی، گوشت سب چینیوں کے کام کی چیزیں ہیں۔ دوائیں بھی بنتی ہیں اور مشروبات و مقویات بھی۔ (جاری)