گنتی کے حساب سے مرغیوں کے بعد سب سے زیادہ مظلوم جانور سوّر ہے۔ امریکہ، یورپ، آسٹریلیا، روس، چین وغیرہ بہت سے ممالک میں سوّر پروری کے کارخانے ہیں یعنی بریڈنگ سنٹر، پیدائش کے بعد سے انہیں دو فٹ چوڑے، چار فٹ لمبے پنجرے میں بند کر دیتے ہیں۔ وہ اپنی مقررہ عمر تک انہی پنجروں میں بند رہتے ہیں، سر تک نہیں گھما سکتے یہاں تک کہ وزن پورا ہو جانے کے بعد انہیں موت کے گھاٹ اتار کر بھوکے، جنم جنم کے بھوکے پیٹوں کا ایندھن بنا دیا جاتا ہے۔ سوّر کے جو بچے میڈیکل معائنے میں زیادہ صحت مند نظر نہیں آتے انہیں بھاری بوٹ پہنے ہوئے کارکنوں کی جانب سے سر کچل کر یا دیوار سے مار کر ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال اربوں سور قتل کیے جاتے ہیں 80کروڑ صرف چین میں اس سے کچھ کم امریکہ میں برازیل میں، پھر باقی ملکوں میں۔ ہر سال 70 ارب زمینی جانوروں (گائے بھینس بکری سوّر اونٹ وغیرہ) کو انسانی خوراک کے طور پر سب سے زیادہ چین میں ذبح کیا جاتا اور اربوں نر چوزے چکیوں میں زندہ پیس دیے جاتے ہیں۔ مرغیاں اپنی عمر طبعی کے چند ہفتے یا(انڈے دینے والی مرغیوں کی صورت میں) چند ماہ کی عمر ایک فٹ کے پنجروں میں گزارتی ہیں۔ اسی طرح کے کارخانے بھیڑ بکریوں کے ہیں۔ ہر سال 50 ارب بکریاں پیدا کی جاتی اور پھر ہلاک کر دی جاتی ہیں۔ نجی طور پر پرورش کی جانے والی کروڑوں بکریاں ان سے الگ ہیں)۔ افریقہ میں لاکھوں گدھے چین بھیجے جاتے ہیں جہاں ان کی زندہ ہی کھال کھینچ لی جاتی ہے۔ زندہ جانور کی کھال کھینچنے کا فلسفہ خدا جانے کس چینی فلسفی نے ایجاد کیا تھا۔
٭جانوروں کے بارے میں عوامی تصور یہ ہے کہ یہ بے حس اور بے عقل ہوتے ہیں۔ جو سائنسی طور پر قطعی غلط ہے۔ جانوروں میں اتنی ہی عقل ہوتی ہے جتنی کہ انسان میں۔ فرق ذہانت کا ہے۔ ہمارے ہاں گائے کو بے حس جانور مانا جاتا ہے۔ کسی کو بدّھو کہنا ہو تو کہاوت کے مطابق اسے آدمی کے بجائے گائے قرار دیا جاتاہے۔ لیکن گائے بھی حساس اور ذہین ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں تو گائے پالنے کا تصوّر ہی نہیں ہے بلکہ کچھ عرصہ پہلے تک دنیا میں کہیں بھی نہیں تھا لیکن اب یورپ اور امریکہ میں بعض لوگوں نے گائے کو پالنا شروع کیا ہے۔ (واضح رہے کہ دودھ کے حصول کے لئے گائے باندھنے کو پالنا نہیں کہتے، اسے قید کرنا کہا جانا چاہیے) ایک خاتون نے گائے پالی اور اب وہ اس کے مکان کے بڑے سے صحن میں اس کے ساتھ کبھی فٹ بال تو کبھی والی بال کھیلتی ہے۔ اس گائے کی شوخیاں دیکھ کر ہمارے ہاں اور دنیا بھر کی باقی جگہ پر گائے کی مظلومیت واضح ہوتی ہے۔ بڑے بڑے کارخانوں میں گائیوں کو مسلسل قتل کیا جاتا ہے۔ دو گائیں ذبح ہونے کے لئے قطار میں کھڑی تھیں اور ایک دوسرے سے گلے مل کر رو رہی تھیں اور صاف پتہ چلتا تھا کہ ایک دوسرے کو پرسہ دے رہی تھیں۔ اس کی ویڈیو نیٹ پر موجود ہے۔ انہیں کارخانے کی فضا دیکھ کر اندازہ ہو جاتا ہے کہ اب ہم ذبح ہونے والی ہیں۔
٭مظلوم جانوروں میں گھوڑے بھی شامل ہیں۔ تانگے اور بگھیوں کے علاوہ انہیں سرکسوں اور ریس کے میدان میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جب بڈھے اور بیمار ہو جائیں تو ظالمانہ طریقے سے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ لیکن گھوڑا وفاداری اور ذہانت میں بے مثال ہے۔ ایک زندہ دل امریکی نے گھوڑا پال رکھا ہے۔ اس کا الگ کمرہ ہے جس میں اس کا فوم کا بستر ہے۔ بستر کے کنارے کمبل رکھا ہے۔ ویڈیو یوں ہے کہ گھوڑا کھیل کود کر سونے کے لئے اپنے بیڈ روم میں آتا ہے۔ خود کو فوم کے گدّے پر لٹا دیتا ہے اور پھر ٹانگوں کی مدد سے کمبل کو اوپر کھینچتا ہے۔ شروع میں لگتا ہے کہ یہ کمبل کو سیدھا نہیں کر سکتا لیکن آدھے منٹ کے اندر اندر وہ اسے کھول لیتا ہے اور پھر منہ کی مدد سے، بالکل انسانوں کی طرح اوڑھ کر سو جاتا ہے۔
٭پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے جانوروں کے قتل عام میں انسانی آبادی کے اضافہ کے حساب سے تین گنا زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی جانوروں کے شوقیہ قتل کی وارداتیں اور ان کی ویڈیو بنانے کا رواج بھی چل پڑا ہے۔ چند تازہ ویڈیوز آئی ہیں۔ ایک تیونس کی ہے۔ بلّی کے ایک دو ہفتے کے بچے کو کسی نے ماں سے جدا کر کے گلی میں چھوڑ دیا۔ وہ ماں کو چلّا چلّا کے پکار رہا تھا کہ چند لوگ آئے، اس پر مٹی کا تیل چھڑکا اور آگ لگا دی۔ مراکش میں کتے کے ایک پلّے کو اسی طرح زندہ جلایا گیا۔ چین میں ایک لڑکی نے ایک مہینے کے بلّی کے بچے کو سینڈل سے کچل دیا۔ اس طرح کے ہزاروں واقعات ہر ماہ نیٹ پر ڈالے جاتے ہیں۔ ایک چینی نے قینچی سے بلّی کے ہاتھ پائوں کاٹے پھر اسی قینچی سے اس کی گردن کاٹ دی۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ جو بچے جانوروں کو ہلاک کرتے یا انہیں اذیّت دیتے ہیں، وہ بڑے ہو کر سیریل کلر Serial Killer بنتے ہیں۔ بہرحال، پوری دنیا میں جانوروں پر مظالم کے خلاف انجمنیں بن رہی ہیں حتیٰ کہ چین میں بھی جہاں اس کی توقع ہی نہیں تھی۔ یہ انجمنیں مظاہرے کرتی ہیں، لٹریچر چھاپتی ہیں اور جانوروں کو "ریسکیو" کر کے انہیں پناہ گاہوں میں لے جاتی ہیں۔ کراچی کی ایک نیک دل خاتون نے اسی طرح کی پناہ گاہ "اے سی ایف" کے نام سے قائم کر رکھی ہے۔ یہ فرشتے ہیں لیکن کیا کیجیے، فرشتے بدستور چھوٹی سی اقلّیت ہیں۔ (ختم شد)