بہت سے لوگ وفاقی کابینہ میں چھٹی بار اکھاڑ پچھاڑ پر لکھ رہے ہیں۔ مجھے بھی لکھنا چاہیے لیکن نہیں لکھوں گا۔ اس لئے کہ مجھے کوئی جلدی نہیں ہے، کون سا کوئی ٹرین چھوٹی جا رہی ہے۔ دو ماہ بعد جب ساتویں اکھاڑ پچھاڑ ہو گی تب لکھ ڈالوں گا۔ تب بھی نہ لکھ سکا تو مزید دو مہینے بعد آٹھویں اکھاڑ پچھاڑ پر لکھ دوں گا۔ یہ موقع تو آتے ہی رہیں گے۔ بہرحال شبلی فراز سے ہمدردی ہے کہ پیا کے من بھاون کو انہوں نے خوش زبانی کے کیسے کیسے ریکارڈ قائم کئے۔ میرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال خوش زبانی۔ ایسی ہی ہمدردی حماد اظہر سے ہے۔ معیشت کو پٹڑی پر چڑھا رکھنے کے لئے کیسے کیسے اعداد و شمار ایجاد کئے، ان کے ہر بیان میں ملک اوپر کو جاتا نظر آتا تھا۔ اب کیسے نظر آئے گا۔ شوکت ترین صاحب جو تصویر کشی معیشت کی دو تین ہفتے پہلے کر چکے، اسی پر گزارا کرنا پڑے گا۔
٭حکومت نے ایک مذہبی تنظیم کو کالعدم قرار دے دیا، اب اس کے اثاثے منجمد کرنے کی کارروائی جاری ہے اور اس کے رہنمائوں اور کارکنوں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ بھی۔ دہشت گردی کے مقدمات بھی بنیں گے۔ جن اقدامات پر اس تنظیم کو ممنوع کہا گیا ہے وہ اقدامات کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر ایک سیاسی پارٹی کئی بار کر چکی ہے۔ عمارتوں پر قبضے، توڑ پھوڑ، شاہراہوں کی بندش، شہر اور ملک جام کرنے اور پولیس افسروں کی ٹھکائی (عدیم النظیر قسم کی) وغیرہ وغیرہ۔ کالعدم شدہ تنظیم کے رہنمائوں نے تشدد پر ابھارنے والی تقریریں نہیں کیں، اس نے تو وہ بھی کیں اور خوب کیں اور بار بار کیں۔ یاد ہو گا کس نے کہا تھا، یہ پولیس والے جہاں ملیں، ان کی ٹھکائی کرو اور ایسی مار لگائو کہ نسلیں یاد کریں اور یہ کہ انہیں میں خود اپنے ہاتھ سے پھانسی دوں گا اور وہ وزیر جو ہر روز یہ اطلاع دیا کرتا ہے کہ آج سے سچ بولنے کا فیصلہ کر لیا ہے(عملدرآمد پھر بھی نہیں کیا) ہر جلسے میں یوں شعلہ فشاں ہوا کرتا تھا کہ مار دو، مر جائو، آگ لگا دو، جلا دو۔ مخالف پارٹی کے گھر گرا دو، مسمار کر دو، نذر آتش کر دو۔ اب ہم یہ کہیں کہ اس جماعت پر بھی پابندی لگا دو تو کیسا رہے گا۔ لیکن یہ مطالبہ کوئی نہیں کر سکتا۔ اس حمام میں سب سیاسی پارٹیاں ننگی ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کو سارے ملک کا خون بھی معاف ہے۔
٭نو کالعدم شدہ جماعتوں کے ردعمل پر مفروضے بناتے ہوئے، حکومت نے سوشل میڈیا جمعہ کے روز چار گھنٹے کے لئے بند کر دیا۔ بتایا گیا کہ جمعہ کے بعد ہی لوگوں نے جلوس نکالنے تھے۔ اخبار نویسوں کی اطلاع ہے کہ جلوس نکالنے کا کوئی پروگرام ہی نہیں تھا۔ ابھی تو کالعدم کی گئی جماعت کے لوگ لائحہ عمل بنانے کا محض سوچ ہی رہے ہیں۔ تو پھر یہ بندش کیسی تھی؟ شیخ صاحب اور ان کے مرشد بار بار ملک کو چین، کوریا کا ماڈل اپنانے کی تبلیغ کرتے رہتے ہیں۔ لگتا ہے کہ فی الحال ملک کو "برما" کا ماڈل بنانے کی ریہرسل کی گئی ہے۔
٭وزیر اعظم جب دل کو خوش کرنے والا ایک "مشہور زمانہ" بیان بار بار دیں تو ہمارا بھی فرض ہے کہ بار بار اس کی تعریف کریں اور اس بیان کے خفیہ لیکن جلی محاسن کو اجاگر کریں۔ سکھر میں وزیر اعظم نے یہ دل خوش کن بیان پھر دہرایا کہ ان کی حکومت نے 35ہزار ارب کے قرضے واپس کر دیے ہیں۔ خفی اور جلی محاسن اس جدول کو دیکھنے سے اجاگر ہوتے ہیں۔ ملاحظہ ہو:عمران حکومت آنے پر ملکی قرضوں کا حجم 25ہزار ارب۔ عمران حکومت نے اس میں سے ادا کئے۔ 35ہزار ارب۔ باقی واجب الادا قرضے کی رقم۔ 38ہزار ارب۔ یہ جدول ایک سطر میں بھی آ سکتی ہے۔ اس طرح کہ 25ہزار ارب قرضوں میں سے 35ہزار ارب واپس کئے تو باقی بچے 38ہزار ارب۔ آپ چاہیں تو 38ہزار ارب سے پہلے "صرف" کا لفظ بھی لکھ سکتے ہیں۔ محاسن نے اجاگر ہو کر آپ کے کتنے طبق روشن کر دئیے؟
٭وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں مروّت کا مظاہرہ کیا اور پچاس فیصد سے زیادہ رعایتی نمبر دے دیے۔ فرمایا کہ چینی سوا سال میں 26روپے مہنگی ہو گئی۔ وزیر اعظم نے ازراہ مروّت پچاس فیصد سے زیادہ کی رعایت دے دی۔ تجاھل عارفانہ نہ سہی، تساہل حافظانہ ہی سہی۔ مطلب یہ کہ وزیر اعظم نے تساہل حافظانہ سے کام لیا۔ یہ وہ خوشگوار کیفیت ہے جس میں حافظہ رضا کارانہ رخصت پر چلا جاتا ہے۔ چنانچہ فرمایا کہ کارٹل والوں نے عوام کی جیب سے 140 ارب روپے نکلوا لئے۔ تساہل حافظانہ نمبر ایک۔ 140 ارب نہیں، سات سو ارب سے زیادہ نکلوا لئے۔ تساہل حافظانہ نمبر 2 ایکسپورٹ کرنے کی اجازت خود وزیر اعظم نے دی اور انہی کی حکومت نے اس "لوٹ مار" پر قومی خزانے سے سبسڈی بھی دی۔ حافظہ بھی کیا عجب شے ہے، جب چاہا آھن بنا لیا، جب چاہا موم کر لیا اور جب چاہا کافور کر دیا۔
٭بازار میں راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ خبر ہے کہ بہت سی جگہ پر ضروری اشیا خور و نوش مل ہی نہیں رہیں۔ شہریوں کو لمبا انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔ ساتھ ہی خبر ہے کہ رمضان کے پہلے چار دنوں میں کم سے کم سولہ ضروری اشیاء کی قیمتیں بھی حسب توقع بے محابہ بڑھ گئی ہیں۔ آٹے کا تھیلا بھی "گراں قدر" سے گراں ترین قدر ہوتا جا رہا ہے۔ اسے آپ تبدیلی کا استعارہ کہہ سکتے ہیں۔ مقام شکر ہے کہ وزیر اعظم نے رمضان سے پہلے ہی اعلان کر دیا تھا کہ رمضان میں قیمتوں کی خود نگرانی کروں گا۔ نہ کرتے تو سوچئے، قیمتیں کہاں تک چڑھ جاتیں اور قطاروں میں کھڑے لوگوں کا حال کس احوال تک پہنچتا۔ خبر ہے کہ وزارت پیداوار خسرو بختیار کے پاس ہو گی۔ یعنی بازاروں میں راوی اسی طرح چین ہی چین لکھتا رہے گا۔ واللہ المستعان!