سید علی گیلانی کی خودنوشت کا نام"روداد قفس" ہے۔ اگر کوئی اور ان کی سوانح عمری لکھتا تو نام "روداد عزیمت" رکھتا اور یہ دونوں ہی درست نام ہیں۔ ان کی تمام عمر قفس میں گزری اور انہوں نے سارے سفر اور سہولت کو ایک طرف رکھ کر عزیمت کے خارزار راستے کا چنائو کیا۔ بطور قائد بھی وہ عظیم تھے اور بطور فرد بھی اللہ کے ولی۔ موت ان کے قریب ترین پہنچ گئی تھی لیکن انہوں نے عزیمت اور استقامت کا راستہ نہیں چھوڑا۔ حالانکہ پوری گنجائش موجود تھی کہ وہ آخری چند دن سکون اور آرام سے گزار لیتے۔ جہاد کشمیر کا نام ان کے ساتھ کہ ان کا نام جہاد کشمیر کے ساتھ جڑ گیا تھا۔ علامہ اقبال اور مولانا مودودی کو انہوں نے جوانی میں مرشد مان لیا تھا اور آخری سانس تک وہ اسی راہِ راشد پر چلتے رہے۔ کشمیری عوام اور بالخصوص جوانوں میں جوان کی مقبولیت تھی وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آ سکی۔ اقبال نے فرمایا تھا، جوانوں کو پیروں کا استاد کر لیکن، کشمیری نوجوانوں نے ہمیشہ اسی پیر مرد کو اپنا استاد، اپنا رہبر مانا۔
1953ء سے جماعت اسلامی کے ساتھ تھے۔ ضیاء الحق کے دور میں کشمیر بزور شمشیر کی پالیسی نافذ ہوئی تو جماعت اسلامی نے خود کو ان سے الگ کر لیا لیکن علی گیلانی نے خود کو جماعت سے اور جماعت کو خود سے الگ ہونے نہیں دیا۔ جماعت اسلامی(ہند، مقبوضہ کشمیر) کی سوچ یہ تھی کہ جہاد کا یہ راستہ کشمیری مسلمانوں کو بالخصوص اور بھارتی مسلمانوں کو بالعموم نقصان پہنچائے گا اور جنونی ہندوئوں کے غول ان کا جینا حرام کر دیں گے۔ علی گیلانی کا موقف تھا، نتیجہ جو بھی نکلے، کشمیر پاکستان کا حصہ ہے، پاکستان میں شامل ہونا چاہیے۔ یعنی علی گیلانی اور جماعت اسلامی (ہند، کشمیر) کے درمیان سیاسی حکمت عملی کا فرق تھا، نظریے کا نہیں اور یہ فرق ہندوستان اور کشمیر کے مسلمانوں میں ہر جگہ نظر آئے گا۔ بھارتی مسلمانوں کا ایک دھڑا افغانستان میں طالبان کی فتح پر مسرور ہے اور اپنی خوشی چھپانے کی کوشش بھی نہیں کر رہا تو ایک اتنا ہی بڑا دھڑا طالبان کی فتح سے خائف ہے اور اپنا خوف ظاہر بھی کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے، طالبان کی فتح سے مشتعل ہندو اپنا غصہ بھارتی مسلمانوں پر اتاریں گے اور جو مسلمان اپنی خوشی ظاہر کرے گا، وہ ان جنونیوں کا غصہ اور بڑھائے گا۔ علی گیلانی 2019ء کے اواخر سے قدرے خاموش تھے۔
2019ء میں کیا ہوا تھا، بتانے کی ضرورت نہیں۔ حیرت کی بلکہ صدمے کی بات ہے کہ جن لوگوں نے 2019ء میں کشمیر کی حوالگی کا کارنامہ سرانجام دیا، علی گیلانی کی وفات پر وہ بھی اپنے سوگ کا بڑھ چڑھ کر اظہار کر رہے ہیں، پرچم سرنگوں کئے، علامتی جنازوں میں شرکت کی، تعزیتی پیغامات جاری کئے۔ اسے اللہ کی شان کہیے۔ ان کے غائبانہ سرکاری جنازے میں باقی سب سرکاریں تو آئیں، ایک سرکار نہیں آئی۔ کیوں؟ سرکار ہی جانے!ایک قدسی صفت روح اپنے مولا کی طرف پرواز کر گئی، اقبال ہوتے تو کیا تعزیتی الفاظ لکھتے؟ ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی سے آگے بڑھ کر ہی کچھ کہتے کہ علی گیلانی چنگاری نہیں تھے، شعلہ بھی نہیں تھے، وہ تو الائو تھے، الائو۔
٭امریکہ نے کہا کہ وہ طالبان سے مل کر داعش کے خلاف لڑنے کے لئے تیار ہے۔ اچھی نہیں، بہت اچھی بات لیکن امریکی دعوئوں اور عمل کا ریکارڈ خراب نہیں، بہت ہی خراب ہے۔ پتہ نہیں امریکہ داعش سے لڑنا چاہتا ہے یا انہیں کسی اور سے لڑانے کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ کئی دانشوروں نے تو یہ کہہ دیا ہے کہ امریکہ داعش کو نہ صرف طالبان بلکہ پاکستان کے خلاف بھی استعمال کر سکتا ہے۔ ماضی بہت ہی قریب کی واردات امریکہ نے شام میں کی۔ وہاں تحریک آزادی 90فیصد سے بھی زیادہ کامیابی حاصل کر چکی تھی اور دنیا بھر کا میڈیا اور دفاعی رپورٹر لکھ رہے تھے کہ دمشق پر قبضہ چند دنوں کی بات ہے۔ ایسا ہوتا تو کیا ہوتا؟
اسلامی تحریک آزادی کی حکومت اسرائیل کے لئے خطرہ بن سکتی تھی۔ چنانچہ امریکہ حرکت میں آیا، یعنی کہ داعش حرکت میں آئی اور جدید ترین ہتھیاروں کی بدولت شام کے ایک تہائی سے زیادہ رقبے پر قابض ہو گئی۔ اس کی جنگ بشار حکومت سے نہیں۔ اسلامی تحریک آزادی سے تھی۔ پھر امریکی جہاز آئے۔ داعش کے ٹھکانوں کے نام پر حریت لیڈروں کے ٹھکانوں پر ایسی کارپٹ بمباری کی کہ جاتی ہوئی بشار حکومت پھر سے جم گئی۔ تو حضور، افغانستان میں آپ کے "نیک"عزائم سے ڈر لگتا ہے۔ امریکی میڈیا میں جو چھپ رہا ہے، پاکستان میں نقل نہیں ہو رہا، بہرحال، آثار اچھے نہیں ہیں۔
٭ایک دفاعی تجزیہ نگار نے کہا ہے کہ امریکی فوجیوں کا پاکستان میں قیام عارضی نہیں، عارضی سے کچھ زیادہ لگتا ہے۔ جب دبائو آئے گا تو ہمارے پاس جھکنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ایک اور دفاعی خبر نگارکا کہنا ہے کہ امریکی فوجی لمبا عرصہ قیام کریں گے۔ دعا ہے کہ دونوں تجزیہ نگاروں کی بات غلط ثابت ہو لیکن دعائیں آج کل کم ہی قبول ہوا کرتی ہیں۔ چلیے، جو بھی ہو، اتنا تو ہے کہ ہم نے اڈے بہرحال نہیں دیے۔