دلوں پر اثر کرنے والے پروپیگنڈے کی پہلی لہر کرپشن کے نام سے اٹھائی گئی اور خوب اٹھی یہاں تک اپنی عمر طبعی پوری کرنے اور پوری طرح بے کشش ہو چکنے کے بعد اللہ کو پیاری ہو گئی۔ دوسری لہر بھارت کا ایجنٹ اور غدار کے نام سے اٹھی لیکن ایسی بے دم کہ اڑنے سے پہلے ہی میرا رنگ زرد تھا کی تصویر بن گئی۔ دریائے شوور میں اب تیسری لہر"مثبت اشاریے" کے نام سے اٹھائی جا رہی ہے۔ خود وزیر اعظم نے اس لہر کا ڈول ڈالا اور گنتی میں غلطی نہیں لگ رہی تو ہفتے بھر کے دوران تین بار معیشت اوپر اٹھ رہی ہے۔ ملک اوپر اٹھ رہا ہے، معیشت درست کر دی ہے یا کرنے والے ہیں اور تمام اقتصادی اشاریے مثبت جا رہے ہیں کی خوشخبریوں پر مشتمل تقاریر فرما چکے ہیں۔ وزیر اعظم کے بعد متعدد وزیر مشیر ترجمان وغیرہ اس قسم کی پریس کانفرنسیں کر چکے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ ہر طرف سے اچھی اچھی خبریں آ رہی ہیں۔ وزیر اعظم نے تو ایک خطاب میں یہ بھی فرما دیا کہ مہنگائی مزید کم کریں گے۔ عوام حیران پریشان ٹک ٹک دیدم ہیں کہ یہ اشاریے کہاں پائے جاتے ہیں جو مثبت اشارے کر رہے ہیں۔ وہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ مہنگائی کے مزید کم کرنے کے انتباہ، پر البتہ اپنی سی عرض تو گزاری ہی جا سکتی ہے کہ ظل الٰہی، مہنگائی میں جتنی کمی کر دی، وہی کافی ہے مزید کمی کی زحمت خدارا مت فرمائیے گا۔ ایک مثبت اشارہ شاعر نے اس شعر میں بھی پنہاں کر رکھا ہے ملاحظہ فرمائیے اور اشارہ ڈھونڈیے:
اچھے میاں کا عقد ہوا ہے بہار میں
کہہ دو کسی سے پھول بچھا دے مزار میں
وزیر اعظم نے تربت کو اپنی زیارت سے مشرف کیا اور حیرت آمیز مسرت کے ساتھ انہوں نے بتایا کہ جب ان کا جہاز یہاں پہنچا تو انہوں نے اوپر سے ریگستان میں صحرا کو دیکھا۔ سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں نے اس پر خواہ مخواہ چیں بچیں ہونے کا مظاہرہ کیا، اعتراض ان کا یہ تھا کہ ریگستان میں صحرا نظر آنے کے کیا معنے۔ نیز یہ کہ تربت تو جنوب مغربی بلوچستان کے پتھریلے علاقے کا شہر ہے، سنگستان میں ریگستان والی بات بھی سمجھ میں نہیں آئی۔ عرض ہے کہ یہ تو قدرت کا کرشمہ ہے۔ وہ چاہے تو سنگستان کو ریگستان کیا، نخلستان میں بدل ڈالے اور ریگستان میں صحرا کا نظر آنا بھی کچھ باعث تعیب نہیں۔ کبھی بہاولپور یا تھر کے علاقے میں جا کر دیکھیے، دور دور تک ریگستان پھیلا نظر آئے گا اور چلتے چلتے اچانک ہی صحرا سے سامنا ہو جائے گا۔ وزیر اعظم نے یہی کرشمہ بتا دیا تو تعجب کیسا۔
ویسے بھی دیکھیے تو اگر سمندر میں جھیل ہو سکتی ہے تو ریگستان میں صحرا یا صحرا میں ریگستان کیوں نہیں ہو سکتا۔ سمندر میں پائی جانے والی جھیل کو لاگونLagoonکہتے ہیں۔ سمندر کے بیچوں بیچ مونگے کی چٹانوں یا ٹاپوئوں کی قطار Coral Reefہو اور یہ قطار ایک چار دیواری کی شکل اختیار کر جائے تو ان میں گھرا ہوا، ٹھہرا ہوا پانی لاگون کہلاتا ہے اور یہ سمندری جھیلیں دنیا بھر کے سمندروں میں ہر جگہ پائی جاتی ہیں۔ بس اسی طرح سے ریگستان میں صحرا کا سراغ بھی لگایا جا سکتا ہے۔
اس خطاب سے ایک دن پہلے آپ نے ایک پسندیدہ ٹی وی چینل کو انٹرویو دیا۔ مبصرین نے اسے اب تک کا شاہکار انٹرویو قرار دیا ہے، جس میں آپ نے کچھ رہنما اصول ارشاد فرمائے۔ مثلا کسی عزیز کے رقبے پر قبضہ چھڑانے کے لئے آئی جی اور سی سی پی او کو بدل دینا چاہیے اور یہ کہ وزیر اعلیٰ کے چاہنے والے اگر حسنِ طلب بلکہ حسن جھپٹ میں حد سے نکل جائیں تو وہ کرپشن نہیں ہوتی، کارکنوں کا حق ہوتا ہے۔ آپ نے اس انٹرویو میں ٹیپ کا بند یہ ارشاد فرمایا کہ نواز شریف غدار ہے اور اس کی غداری کے ثبوت موجود ہیں لیکن مقدمہ اس لئے نہیں چلا سکتا کہ یہ ثبوت عدالت میں سٹینڈ نہیں کر سکتے۔ ماہرین قانون ہی یہ عقدہ حل کر سکتے ہیں کہ جو ثبوت عدالت میں پیش نہ کئے جا سکیں انہیں کیا نام دینا چاہیے؟ صحرائی ثبوت یا ریگستانی ثبوت؟ ایک بڑی تعداد شائقین کی جو غداری کا مقدمہ چلائے جانے کی منتظر تھی۔ اس اعلان حق بیان سے مایوس ہوئی ہو گی۔ افسوس انہیں بدستور غداری کے ترانوں سے ہی دل بھلانا پڑیگا۔ بہرحال ماہرین قانون سے استدعا ہے کہ وہ اس الجھن کی سلجھن دریافت فرمائیں۔ بہتر تو یہ ہے کہ مقدمہ چلانے کے لئے ثبوت؟ اس سے جان چھڑانے کی کوئی سبیل نکالی جائے۔ پانامہ میں اقامہ والی مثال تو سیٹ ہو ہی چکی ہے۔ کیوں نہ اسی کو مستقل کر دیا جائے۔ پھر دیکھیے، ملک کیسے ترقی کرتا ہے۔ اوپر تو جا ہی چکا۔ مزید اوپر جانے کا راستہ بھی ہموار ہو جائے گا۔
ثبوت نہیں تو دعویٰ کیسا، والی بات اب دقیانوسی ہو چکی۔ کامل تین سال یہ غل مچا رہا کہ نواز شریف اربوں ڈالر چوری کر کے لے گیا۔ ثبوت کسی نے نہیں دیا۔ ایک انصاف پسند سے چند مہینے پہلے کی بات ہے۔ یہی سوال کیا تو ثبوت کہاں سے لائیں، نواز شریف اتنا چالاک مجرم تھا کہ ثبوت سارے مٹا دیے۔ عرض کیا ثبوت مٹا دیے گئے پھر آپ کی قیادت کو کیسے پتہ چلا کہ نواز شریف نے اتنے ارب ڈالر چوری کر لئے۔ فرمایا، یہ روحانی معاملہ ہے اصحاب کشف کو سب پتہ چل جاتا ہے۔ عرض کیا کشف سے مٹے ہوئے ثبوت پھر سے نہیں حاصل کئے جا سکتے۔ فرمایا نہیں، یہ بھی روحانی معاملہ ہے چٹکی بجاتے ہی ساری حیرانی دور کر دی۔ ٭٭٭٭مہنگائی پر سروے میں عوام کی بڑی تعداد نے اپنے دکھڑے بیان کئے۔ زیادہ تر لوگ موجودہ حکومت کو مہنگائی کا ذمہ دار قرار دیتے۔ افسوسناک!البتہ 15فیصد نے سابقہ حکومتوں کو ذمہ دار قرار دیا۔ یقین کیجیے، یہی 15فیصد محب وطن ہیں۔ باقی کو خدا ہدایت دے!