مسلم لیگ کے رہنما پرویز رشید کے لہجے میں ملائمت ہے اور شخصیت میں بھی۔ لوگوں سے گرم جوشی کے ساتھ ملتے ہیں اور سخت بات نہیں کرتے، لہجہ بھی نرم اور دھیما ہے البتہ اپنے نظریات میں انتہا پسند ہیں اور نظریات کیا ہیں؟ انسانی حقوق کے حامی ہیں۔ جمہوریت سے وفاداری پر استواری رکھتے ہیں۔ لوگوں کی جان و مال اور عزت کی حرمت کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ معاشی انصاف کی غیر دانشمندانہ سوچ بھی ان کا طرہ امتیاز ہے۔ گویا مختصر الفاظ میں باقی سب توعلیک لیکن عقیدہ درست نہیں۔ بوجوہ درج بالا کاتبان تقدیر نے ان کے بارے میں کچھ فیصلے کر رکھے ہیں۔ چنانچہ ایک فیصلہ پچھلے ہفتے ان کے خلاف آ گیا اور دوبار آ گیا۔ فیصلے سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کسی نے غیر ملکی شہریت چھپائی اور غیر ملکی اثاثے بھی صیغہ راز میں رکھے جن کی مالیت اربوں میں ہے۔ فرق عقیدہ سے بڑا ہے۔ عقیدہ درست تو سب درست۔ دونوں فیصلوں پر فیصلہ کرنے والوں کو دلی مبارکباد۔ پرویز رشید مایوس نہ ہوں، اپنا عقیدہ درست کرلیں، اگلے الیکشن میں موقع مل جائے گا۔ لیکن یہاں ہولی کے ساتھ دھندولی کھیلی گئی۔
٭پھاگن میں دھند نہیں ہوتی۔ پیا سنگ ہولی کھیلنے کے دن ہوتے ہیں لیکن اس پھاگن کے شروع میں عجب ماجرا ہوا۔ ڈسکہ میں دھند پڑی اور عجیب تر یہ ہوا کہ سلیکٹڈ دھند تھی۔ 360 پولنگ سٹیشنوں میں سے صرف 21 سٹیشن سلیکٹڈ قرار پائے جو مشرف بہ دھند ہوئے۔ دھند ایک تو سلیکٹڈ تھی، اوپر سے کچھ سائنس فکشن والی دھند جیسی یعنی ان پولنگ سٹیشنوں کے ایجنٹ نہ صرف اس دھند سے کھو گئے بلکہ ان کے موبال فون بھی بند ہو گئے۔ صبح تک ان لاپتہ شدگان کا کچھ پتہ نہ چلا، تو الیکشن کمیشن نے وزیراعلی، ٰچیف سیکرٹری، آئی جی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ یہ حضرات اگرچہ لاپتہ تو نہیں ہوئے لیکن دھند کے طلسماتی اثرات نے ان کے موبائل فون منجمد کر دیئے ہیں۔ رات گئے تک مسلم لیگ جیت رہی تھی، ڈیڑھ بجے کے قریب دھند اپنی رٹ قائم کر چکی تھی، پھر سب رزلٹ دھند لا گئے۔ اور دھند چھٹی تو پی ٹی آئی میدان میں کھڑی نظر آئی جو اپنی جیت کا اعلان کر رہی تھی۔ یہ دھند تائید ایزدی سمجھئے جو صادق امین حضرات کی مدد کو آئی۔ اسی سے پہلے پولیس کا آپریشن وہ مطلوبہ نتائج نہ دے سکا تھا۔ پولیس پولنگ سٹیشنوں پر قابض تھی اور قیمے بھرے نان کھا کر ووٹ ڈالنے والوں کی لمبی لمبی قطاروں کو اندر آنے سے روکے ہوئے تھی۔ ان ووٹرز کے پولنگ سٹیشنوں کے اندر آمد سے حقیقی جمہوریت کا تقدس مجروح ہو چکا تھا۔ پولیس کی مدد بعض افرادبھی ادا کر رہے تھے، جنہوں نے آزادانہ فائرنگ کر کے قیمے والے نان خوروں کو بتایا کہ نان خورد، بھاگ جائو کہ جان بچانا فرض ہے۔ آپریشن دونوں ہی خوب تھے لیکن قضائے الٰہی سے دونوں کے نتائج کی لپٹا الٹی ہو گئی، امیدوں کی کھٹیا لرزہ کانپی حرکت میں آ گئی اور کھڑی ہو گئی۔
٭خبر ہے کہ لاہور اور بعض بڑے شہروں میں صارفین پر گیسولین ٹیکس لگائے جانے کی تجویز سرکار نے بڑی سرکار کو ارسال کردی ہے۔ فی لٹر یہ ٹیکس 3 روپے ہو گا۔ وزیراعظم واقعی معاشی جادوگر ہے۔ معیشت کو پٹڑی پر چڑھانے کے لیے ہر روز نئی پٹڑی بچھائی ہے اور اس پر معیشت کو چڑھاتی ہے۔ اس کے ہر دوسرے روز یہ بیان کرتا ہے کہ ہم نے معیشت کو پٹڑی پر چڑھا دیا۔ وزیراعظم کی تائید عملی کے لیے ایک تجویز حاضر ہے۔ امید ہے اس سے پٹڑی کی پیداوار میں اضافہ ہوگا۔ گیسولین ٹیکس کے بعد پٹرول ٹیکس، پھر آئل ٹیکس، پھر انرجی ٹیکس، اس کے بعد ہائیڈرو کاربن ٹیکس باری باری عائد کئے جائیں۔ امید ہے پٹڑیوں کا پورا جنکشن تیار ہو جائے گا پھر معیشت کوان پٹڑیوں پر چھوڑ دیا جائے۔
٭ایک غیررسمی اجلاس میں پنجاب کی ایک شخصیت کہتے پائی گئیں کہ پولیس رانا ثناء اللہ کو گرفتار نہیں کر سکی۔ اب کی بار سوچ سمجھ کر ایسی ایف آئی آر ان پر بنائیں گے کہ "کڑکی" میں پھنس جائیں یعنی پھر چھوٹ نہ سکیں۔ یہ پکا ہاتھ اس سے زیادہ اور کتنا پکا ہوگا جو آپ نے سال ڈیڑھ پہلے ڈالا تھا اور ان کی ڈگی سے کلو کے حساب سے ہیروئن برآمد کر ڈالی تھی۔ رانا ثنا تو اس سے بھی چھوٹ گئے اور وہ ہیروئن بھی نہ جانے کہاں گئی کہ سرکاری مال خانے میں جمع ہوئی نہ اوپن مارکیٹ میں پہنچی۔ اب کی بار تو ان پر ایٹم بم ہی ڈالے گا، شاید بات بن جائے اور ہاں جو کرنا ہے جلد کیجئے، جلدی کیجئے۔ کیونکہ "سماچار سمات" ہونے میں اب کچھ زیاہ سے بچا نہیں لگتا۔
٭وزیراعظم ایک تقریب میں بہت شاندار باتیں کر رہے تھے اور خوشخبریاں سنا رہے تھے لیکن سامعین میں سے کسی نے داد دی نہ تالیاں بجائیں۔ اس پر وزیراعظم مائنڈ کر گئے اور کہا کہ لگتا ہے کہ آپ سب کے سب سو رہے ہیں۔ اپنا اپنا خیال ہے۔ وزیراعظم کا خیال تھا کہ لوگ سو رہے ہیں۔ دوسروں کا خیال کچھ اور ہے۔ یہ کہ لوگ پہلے ضرور سو رہے ہوں گے، اب جاگ رہے ہیں۔ واللہ اعلم کس کا خیال درست ہے۔ چند روز پہلے پشاور میں بھی یہی ہوا۔ ارکان اسمبلی کا اجلاس بلایا۔ 20 تو آئے ہی نہیں، جو آئے انہوں نے چپ کا روزہ رکھ لیا۔ کسی بات پر تالی بجائی، نہ نعرہ لگایا، نہ کوئی سوال کیا نہ حرف تسلی ادا کیا۔ بس ایک ٹک نظر لگا کر ٹک ٹکٹ دیکھتے رہے، دست شبہ پتہ نہیں تھے یا نہیں، لب بستہ ضرور ہو گئے۔ استاد نوح ناروی نے ٹھیک کے ساتھ "بے" کا لفظ کیا خوب لگایا۔ مصرعہ ویسے ہی یاد آ گیا ع
زلف سیاہ ٹھیک سے بے ٹھیک ہو گئی