فارن فنڈنگ کیس کے بارے میں ابھی دس بارہ دن پہلے خان صاحب نے یہ دبنگ اعلان کرکے گویا میدان ہی مار لیا تھا کہ سماعت کھلے عام کی جائے تاکہ سب کو پتہ چلے کہ کون کہاں سے فنڈ لیتا رہا ہے جبکہ ہمارا دامن تو بالکل صاف ہے۔ کیس اس کے چند روز بعد ہی عدالت میں پی ٹی آئی نے خانقاہی یعنی اصل پارٹی موقف پیش کردیا کہ کھلی سماعت قابل قبول نہیں، معاملہ رواداری کا ہے اور پردے کو اٹھنا نہیں چاہیے کہ بھید کھل جائے گا۔ خان صاحب کے دبنگ اعلان پر خوش ہونے والے نیاز مندوں کو حیرت ہوئی اور افسوس بھی اور وہ رمز سمجھ نہ پائے۔ اجی حضرات رمز یہ ہے کہ وہ محاورہ تو سنا ہو گا کہ:"تبدیلی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور"اصل مؤقف خان صاحب کا دبنگ اعلان نہیں، وہ خانقاہی اعلان ہے جو الیکشن کمیشن کی عدالت میں کیاگیا۔ فارن فنڈنگ کیس وہ طلسمی ڈبیہ ہے کہ کھل گئی تو طلسم کدہ کے سارے برج دھڑام کر کے زمین بوس ہو جائیں گے۔
٭نیاز مندوں کو خوش ہونا چاہیے ہی نہیں تھا۔ تبدیلی کے جو دانت انہوں نے اڑھائی سال پہلے دیکھے، وہ دکھانے کے تھے۔ کھانے کے دانت حکومت میں آنے کے بعد بھی دکھائی د یے اور ان دانتوں نے سب کی خوشیاں چبا ڈالیں اور یہ دانت سال کے بارہ مہینے اور مہینے کے تیس دنوں کے حساب سے دکھائے گئے، خوش ہونے والے کیسے انہیں بھول گئے۔ ملاحظہ فرمائیے، دکھانے کے دانت یہ تھے کہ پچاس لاکھ مکان بنائیں گے اورکھانے کے یہ کہ آتے ہی ہزاروں مکان گرا دیئے۔ سیمنٹ، سریا اتنا مہنگا کر دیا کہ کوئی جمع پونجی لگا کر بھی مکان بنانے کے قابل ہی نہ رہا، صرف بلڈر اور قبضہ مافیا کے وارے نیارے ہوئے۔ دکھانے کے دانت یہ کہ ایک کروڑ نوکریاں دیں گے، کھانے کے یہ کہ اس گنتی سے زیادہ لوگوں سے روزگار چھین لیا۔ دکھانے کے یہ کہ قرضے نہیں لیں گے، خودکشی کرلیں گے۔ کھانے کے یہ کہ ہم تو دنیا جہان سے قرضہ لیں گے، خودکشی تم نے کرنا ہے تو کرلو۔ دکھانے کے یہ کہ پروٹوکول ختم کردیں گے، کھانے کے یہ کہ ایک ایک وزیر کو چھ چھ لگژری گاڑیاں دیں گے۔ دکھانے کو یہ کہ ایک ارب درخت لگادیئے، کھانے کو یہ کہ کہیں کوئی شجر سایہ دار رہا ہی نہیں اور دکھانے کو دانت یہ تھے کہ? چلیے چھوڑیئے، لمبی کہانی ہے، ویسے بھی اب تو ہر ایک کو ساری کہانی ازبر تو ہو ہی چکی۔
٭ہائبرڈ جمہوریت کی تعریف جریدے اکانومسٹ نے خود ہی کر دی ہے۔ اچھی خاصی لمبی تعریف ہے لیکن خلاصہ یہ ہے کہ ہائبرڈ جمہوریت والے ملک میں شہری آزادیاں کم ہوتی ہیں، انتخابی نظام کمزور اور سیاسی کلچر ناتواں ہوتا ہے۔ سول سوسائٹی مجبور، صحافت دبائو میں اور عدلیہ آزاد نہیں ہوتی نیز ان ملکوں میں الیکشن صاف شفاف نہیں ہوتے۔ تعریف کے ہر نکتے کو امتحانی سوال سمجھ لیا جائے تو جناب ہم ہر سوال میں سو بٹہ سو نمبر لے کر پاس ہوتے ہیں، ایکسی لینٹ بلکہ سپر ڈی لکس ہائبرڈ جمہوریت اور یہ سارا سفر ہم نے اڑھائی سال کی قلیل مدت میں طے کیا۔
٭ہائبرڈ جمہوریت میں آزادی صحافت مفقود ہوتی ہے، اس کی جگہ مثبت رپورٹنگ کی جاتی ہے۔ آزادی صحافت کا ذکر ایوان انصاف میں بھی چند روز پہلے ہوا۔ ایک کیس کی سماعت کے دوران فاضل منصف نے کہا کہ میڈیا آزاد نہیں۔ فاضل منصف نے کمرہ انصاف میں موجود اخبار نویسوں سے کہا کہ جو یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان میں صحافت پر پابندی نہیں ہے وہ ہاتھ کھڑا کرے لیکن کسی نے ہاتھ کھڑا نہیں کیا۔ پھر پوچھا گیا کہ جو سمجھتا ہے کہ صحافت آزاد نہیں ہے وہ اپنا ہاتھ اٹھائے تو سب نے ہاتھ کھڑے کر دیئے۔ یہاں تک کہ ہاتھ اٹھانے والوں میں وہ صحافی بھی شامل تھے جن کو تبدیلی زدہ کہا جاتا ہے۔ عدالتی کارروائی پر تبصرے کے طور پر تو کچھ بھی نہیں لکھا جانا چاہیے لیکن صحافیوں نے جو ہاتھ کھڑے کئے اس پر تبصرہ ہو سکتا ہے۔ یہ کہ اس سانحے کو اتنے دن ہو گئے، ابھی تک نہ کسی صحافی کو نیب نے پکڑا نہ کسی کے گھر ایف آئی اے کا چھاپہ پڑا، کسی کو سوات کاغان کی سیر کے لیے روانہ کیا گیا اور نہ کسی کا گھر، تجاوزات، قرار دے کر گرایا گیا۔ صحافیوں کو کم از کم ہاتھ کھڑا کرنے کی آزادی ہے۔ اس پر کوئی سزا نہیں۔
٭یاد ہو گا، سواتی صاحب نے چند روز پہلے ہی یہ خوشخبری دی تھی کہ ریلوے کو ٹھیک کر کے دکھائوں گا۔ یوٹرن لے لیا، قائد کی پیروی میں تو کوئی برج نہیں لیکن اتنی جلدریلوے کی تباہ کاری کے معمار اول ضیاء الحق تھے، معمار دوئم پرویز مشرف، معمار دوئم نے ریلوے کی تباہی کا مقدس مشن شیخ جی کے سپرد کیا۔ خاص حد تک کام مکمل ہو چکا تھا کہ 2007ء میں جمہوریت بحال ہو گئی، مشن ادھورا رہ گیا۔ ستم یہ ہوا کہ اگلے الیکشن کے بعد مسلم لیگ کی حکومت بنی تو سعد رفیق کو ریلوے کی وزارت ملی۔ انہوں نے آتے ہی شیخ جی کے کئے کرائے پر پانی پھیرنا شروع کردیا۔ ریلوے کی حالت اچھی ہونے لگی۔ یہ توقع تو خیر کسی کو نہیں تھی کہ ریلوے ضیاء الحق کے گیارہ سالہ ادوار میں بند ہو گئی تھی پھر بھی بھلے کی امید بندھ گئی۔ شاید اسی جرم پر ڈیم والے جگت چاچا پنجابی محاورے کے مطابق خواجہ سعد کے دوالے ہو گئے تھے۔ پھر 2017ء میں آسمانی مدد آئی اور شیخ جی کو ادورا مشن مکمل کرنے کا سنہری موقع مل گیا اور انہوں نے اس بار مشن پورا کر دکھایا۔ یہ الگ بات ہے کہ مشن کی تکمیل کا سہرا اعظم سواتی کے سر بندھے گا۔ مستقبل میں شاید وزارت ریلوے نہ رہے، اس کی جگہ وزارت اول فول بن جائے۔