سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کورونا کے پھیلائو کی شرح سب سے زیادہ ایبٹ آباد میں ہے۔ پھر راولپنڈی، اس کے بعد کراچی اور حیدر آباد میں اس کی شرح سب سے زیادہ ہے اور سب سے کم شرح گوجوانوالہ میں یعنی 0.5فیصد۔ گوجرانوالہ میں گزرے مہینے اپوزیشن نے بہت بڑا جلسہ کیا تھا اور لوگ کہتے ہیں گوجرانوالہ میں ایسا بڑا جلسہ پہلے نہیں ہوا تھا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ جلسوں سے کورونا پھیلتا ہے لیکن گوجرانوالہ میں تو ایسا کچھ نہیں ہوا۔ تو پھر حکومت کا دعویٰ درست مان لیجیے۔ اس نے صاف کہا تھا کہ صاف کہہ رہی ہے کہ اپوزیشن کے جلسوں سے کچھ نہیں ہو گا۔ واقعی، گوجرانوالہ میں تو کچھ بھی نہیں ہوا۔
ایبٹ آباد میں اور راولپنڈی میں تو اپوزیشن نے جلسے کئے بھی نہیں اور وہاں کورونا سب سے زیادہ ہے۔ شاید اس لئے کہ وہاں جلسہ ابھی ہوا ہی نہیں۔ ایبٹ آبادمیں تو کوئی جلسہ ہونے کا پروگرام بھی نہیں ہے، ہاں راولپنڈی میں اگلے کچھ ہفتوں میں کچھ نہ کچھ ہونے کا پروگرام ہے۔ جلسہ نہ سہی، دھرنا ہی سہی، دھرنا نہ سہی کچھ اور سہی۔ سنا ہے ملک بھر سے قافلے آئیں گے اور اگر حکومت کا دعویٰ درست ہے کہ اپوزیشن کے جلسے جلوسوں سے (جنہیں وہ جلسیاں اور جلوسیاں کہتی ہے) کچھ نہیں ہو گا تو پھر راولپنڈی کی کورونا پوزیشن برقرار رہے گی اور کیا پتہ شرح کم ہو جائے۔ اپوزیشن نے ملتان اور کوئٹہ میں بھی بڑے بڑے جلسے کئے تھے، وہ بھی کورونا کی ٹاپ لسٹ میں شامل نہیں ہوئے۔ حکومت واقعی سچ ہی کہتی ہے۔
صوبائی مشیرہ نے جو پہلے وفاقی مشیرہ ہوا کرتی تھیں، پھر صوبائی ہو گئیں، فرمایا ہے کہ ہم نہیں، ہماری کاکردگی بولے گی۔ یہ "گی" کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا۔ کارکردگی تو بول رہی ہے اور بائیس کروڑ عوام کے سر پر چڑھ کر بول رہی ہے۔ اس لئے عوام کے کندھے جھک کر زمین بوس کی تیاری کر رہے ہیں۔ اور کارکردگی ہی کیا، صوبائی مشیرہ خود بھی خوب در خوب بول رہی ہیں اور کمال کا "ادب" تخلیق کر رہی ہیں۔ پچھلے ہفتے نواز شریف کی والدہ مرحومہ کے تابوت کی پاکستان آمد پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ نواز شریف نے اپنی ماں کی لاش پارسل کر دی ہے۔ واللہ، حسن ادب والوں کا دل جیت لیا۔ یہ سوچ کر دل میں ہول اٹھتے ہیں۔
وزیر اعظم نے ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ مغرب میں غریبوں کو تحفظ دیا جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ شاید اس لئے کہ وہاں کبھی کوئی پی ٹی آئی نہیں بنی۔ وہاں ہمیشہ الیکشن ہوتے ہیں، بدقسمت اہل مغرب!
1990ء کی بات ہے جنگ میں ایک زندہ دل ساتھی تھے جن کا سر مکمل طور پر فارغ البال ہو چکا تھا۔ کبھی کہا کرتے، لوگ میرے "ہیئر سٹائل" سے جلتے ہیں۔ یہ واقعہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کل کا بیان پڑھ کر یاد آیا۔ فرمایا، اپوزیشن سے ہمارے دور میں ہونے والی ترقی ہضم نہیں ہو رہی۔ یعنی ہمارے"ہیئر سٹائل" سے جلتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی نے سوال کیا ہے کہ گیس کے معاملے پر نیب کیوں سو رہا ہے۔ اس معاملے میں 122ارب کا نقصان ہوا ہے، سعید غنی نے کہا کہ دراصل یہ نقصان نہیں، 122ارب کا ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ سعید غنی شکر کریں کہ ڈکیتیوں کی مالیت کا گراف گر رہا ہے اور گرتے گرتے محض سوا سو ارب روپے آ گیا ہے۔ ورنہ گزرے پنتیس برسوں میں تو جو بھی ڈاکہ پڑا، کئی کئی سو ارب کا پڑا اور کل ملا کے کوئی ہزاروں ارب کے ڈاکے پڑے۔ خلاصہ یہ نکلا کہ ڈاکوئوں کی شرح کم ہو رہی ہے جو اچھی بات ہے اور بڑھتی شرح کی طرح کم ہوتی شرح کا کریڈٹ بھی حکومت کو جاتا ہے۔ جہاں تک نیب کے سونے کا شکوہ ہے تو وہ غلط ہے۔ نیب سر سے پائوں تک جاگ رہا ہے۔ ڈیڑھ آنکھ مسلم لیگ ن کی طرف ہے، آدھی پیپلز پارٹی کی طرف۔ باقیوں کی طرف نگاہ اس لئے نہیں ہے کہ اس کے لئے تیسری آنکھ چاہیے اور یہ سہولت فی الحال دستیاب نہیں ہے۔
کچھ ہفتے پہلے کی بات ہے، قومی اسمبلی کے سابق سپیکر ایاز صادق نے ایوان میں کہا کہ بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی گرفتاری کے بعد حکومت کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں اور نہایت ڈر اور خوف کے عالم میں اسے رہا کیا گیا۔ اس پر ہر محب وطن کی طرح مجھے بھی سخت اشتعال آیا۔ یہ تو کھلی غداری ہے اور مودی سے یاری ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے محبان وطن نے اس کا نوٹس لیا، ایاز صادق کو مستند غدار کی لغت سے نوازا اور ایاز صادق کی کماحقہ درگت بنائی۔ میرے جذبہ حب الوطنی نے بھی تسکین پائی۔ ایاز صادق کو سزا تو بہت سخت ملنی چاہیے تھی لیکن چلیے، فی الوقت اتنا ہی کافی ہے۔
حکومت نے نیا قانون لانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت غلط کار افسران کا تبادلہ نہیں کیا جائے گا بلکہ برطرف کیا جائے گا۔ غلط کاری کی تعریف کیا ہو گی؟ جو تعمیل ارشاد سے انکار کرے گا، غلط کار مانا جائے گا؟ سیدھی سی بات ہے۔ لاڑکانہ چلو ورنہ تھانے چلو یعنی خیریت تعمیل ارشاد میں ہے۔