Monday, 23 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Aabnaye Taiwan Mein Kasheedgi

Aabnaye Taiwan Mein Kasheedgi

امریکہ اور چین کی سرد جنگ میں تائیوان کا جزیرہ اور آبنائے تائیوان ایک بڑا فلیش پوائنٹ ہے۔ اس علاقہ میں چین اور امریکہ کی فوجی سرگرمیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ چین تائیوان پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کرلے گا کیونکہ وہ اسے اپنا باغی صوبہ سمجھتا ہے۔ جبکہ تائیوان خود کو ایک آزاد، خود مختار ملک قرار دیتا ہے گو دنیا کے صرف چودہ چھوٹے چھوٹے ممالک نے اسے الگ ملک تسلیم کیا ہُواہے۔ پاکستان سمیت دنیا کے زیادہ تر ممالک اسے چین کا حصہ سمجھتے ہیں۔ یہ اقوام متحدہ کا رُکن بھی نہیں ہے۔

عوامی جمہوریہ چین کے مشرق اور جنوب میں واقع تائیوان ایک جزیرہ ہے جو دو کروڑ پینتیس لاکھ آبادی پر مشتمل ہے۔ یہ زمینی طور پر چین سے جُڑا ہوا نہیں ہے۔ چین کے صوبہ فیوجیان کے ساحل سے تائیوان کا ساحل ڈیڑھ سو کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔ معاشی طور پر بہت ترقی یافتہ اور خوشحال ہے۔ 1971تک اقوام متحدہ میں تائیوان ہی جمہوریہ چین کی نمائندگی کرتا تھا۔ بعد میں عوامی جمہوریہ چین کو نمائندگی ملی اور تائیوان کو اقوام متحدہ سے نکال دیا گیا۔ دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں جو تائیوان کو الگ ملک تسلیم نہیں کرتے لیکن وہ اس سے غیررسمی روابط رکھتے، تجارت کرتے ہیں۔

امریکہ کی تائیوان کے بارے میں دوغلی سفارتی پالیسی ہے۔ 1979 تک امریکہ تائیوان کو چین کے طور پر تسلیم کرتا تھا۔ پھر اس نے تائیوان سے سفارتی تعلقات توڑ کر عوامی جمہوریہ چین کو تسلیم کرلیا۔ اب وہ تائیوان کو باقاعدہ طور پر الگ ملک تسلیم نہیں کرتا لیکن ایک قانون کے تحت امریکی حکومت اسے جنگی اسلحہ فراہم کرسکتی ہے۔ امریکہ تائیوان کاسب سے اہم دوست اورمحافظ ہے۔ امریکی جنرل ڈگلس میکارتھر اس جزیرہ کو کبھی نہ ڈوبنے والا بحری بیڑہ اور آبدوز قرار دیتا تھا۔ عملی طور پر اسوقت تائیوان امریکہ کی غیراعلانیہ نو آبادی ہے۔ یہ جدید بندرگاہوں اور امریکی اڈوں سے لیس ہے۔ امریکہ یہاں سے بیٹھ کربحیرہ جنوب چینی کے مشرق کا تجارتی راستہ کنٹرول کرتا ہے۔ تائیوان کے جنوب میں فلپائن ہے۔ اسکے مشرق میں جنوبی کوریا اور کچھ آگے جاپان ہے۔ تائیوان سے امریکہ یورپ اور مشرق وسطیٰ سے چین، کوریا اور جاپان کو جانے والے تجارتی راستوں کی نگرانی کرتا ہے۔ تائیوان کی موجودہ خاتون صدر سائی اِنگ وِن چین کی سخت مخالف اور امریکہ کی کٹھ پتلی ہیں۔ 2016 میں اُنکی حکومت میں آنے کے بعد چین نے تائیوان سے تمام غیررسمی تعلقات منقطع کرلیے۔ اسکے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تائیوان کو امریکہ اسلحہ کی فروخت میں زبردست اضافہ کردیا۔ امریکی سفارت کاروں نے تائیوان کے دورے کرنے شروع کردیے جو امریکہ کے سفارتی موقف کے خلاف عمل تھا۔ اس سال کے شروع میں ا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے ایک بیان میں تائیوان کو اسکے تحفظ کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ امریکہ کا تائیوان سے عہد مضبوط چٹان کی طرح ہے۔

کچھ عرصہ سے امریکہ جان بوجھ کر تائیوان کے معاملہ پر چین کو اشتعال دلانے والے اقدامات کررہا ہے۔ اس سال جنوری میں جو بائیڈن کی امریکی صدر کے طور پر تقریب ِحلف برداری میں تائیوان کے نمائندہ اورامریکہ میں اسکے غیراعلانیہ سفیر کو مدعو کیا گیا۔ بیالیس سال میں امریکہ نے پہلی بارایسا کیا ہے۔ 1972 سے2005 تک شاز و نادر ہی چین کے جنگی بحری جہاز آبنائے تائیوان سے گزرتے تھے۔ بین الاقوامی قانون کے تحت یہ راستہ سب کے لیے کھلا ہے۔ لیکن گزشتہ سولہ برسوں سے امریکہ کے جنگی بحری جہاز آبنائے سے بار بارگزرتے رہتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ انکی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ پہلے تو یہ جنگی جہاز خاموشی سے گزرجاتے تھے اب امریکہ انکا بہت چرچا بھی کرتا ہے۔ مقصد چین کو یہ جتانا ہے کہ آبنائے تائیوان صرف چین کی سمندری حدود نہیں ہے اور واشنگٹن کی حکومت تائیوان کو چین کے حملہ سے بچانے کے لیے بحری طاقت بھی استعمال کرسکتی ہے۔ گزشتہ ہفتہ ایک امریکی جنگی جہاز (ڈسٹرائیر) آبنائے تائیوان سے گزرا جس کی میڈیا میں بہت پبلسٹی کی گئی۔

چین کی حکومت کا کہنا ہے کہ امریکہ کے یہ اقدامات خطہ میں عدم استحکام کا باعث بن رہے ہیں۔ اسی روز چین نے بھی علاقہ میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا اور اسکے پندرہ جنگی ہوائی جہازوں نے تائیوان کے دفاعی زون میں پروازیں کیں جس پر امریکہ نے اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ چین کے بحری بیڑہ نے بھی تائیوان کے قریب سمندر میں جنگی مشقیں کیں۔ چین نے کہا کہ ایسی جنگی مشقیں اب ہوتی رہا کریں گی۔ اسکے جواب میں امریکی حکومت نے بیان میں کہا کہ امریکہ کے پاس اتنی صلاحیت ہے کہ وہ طاقت کے استعمال پر مبنی کسی ایسی کوشش کی مزاحمت کرے جس سے تائیوان کی سلامتی خطرہ میں پڑسکتی ہو۔ آسان لفظوں میں امریکہ تائیوان کی خاطر چین سے جنگ بھی کرسکتا ہے۔ بحرالکاہل میں امریکی بحریہ کے بڑے سابق افسر ایڈمرل فلپ ڈیوِیڈسن نے حال ہی میں پیشین گوئی کہ چین اگلے پانچ چھ برسوں میں تائیوان پر فوجی حملہ کرکے اس پر قبضہ کرلے گا۔ پینٹاگون تائیوان اور خطہ کے دوسرے ممالک جیسے جنوبی کوریا میں اِی جَس، نامی جدیدترین میزائل ڈیفنس نظام نصب کرنا چاہتا ہے لیکن یہ ممالک اجازت نہیں دے رہے کیونکہ انکے خیال میں اس عمل سے خطہ کا امن خراب ہوجائیگا۔

امریکہ کے حالیہ اقدامات سے یوں لگتا ہے کہ وہ تائیوان کے معاملہ پرچین کو بھڑکانا چاہتا ہے کہ وہ اِس پر قبضہ کے لیے جنگ شروع کردے جس سے اسکی معیشت کو سخت نقصان پہنچے گا۔ اس بات کا امکان تو کم ہے کہ چین تائیوان کے جزیرہ پر زبردستی قبضہ کرنے کے لیے فوجی حملہ کرے لیکن ڈر یہ ہے کہ اچانک کوئی ایسا حادثہ نہ ہوجائے جس سے جنگ چھڑ جائے جو بہت ہولناک ہو گی کیونکہ فریقین جدید ترین اسلحہ سے لیس ہیں۔