وفاقی حکومت نے اگلے مالی سال 2020-21ء کاجو بجٹ پیش کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی معاشی پالیسیوں میں کوئی جدت نہیں۔ عوام نے جن امیدوں اور توقعات کے ساتھ عمران خان کو اقتدار دلوایا تھا، بجٹ ان کا عکاس نہیں ہے۔ گزشتہ دو برسوں میں اِس حکومت نے بھی سابقہ حکومتوں کی طرح روایتی، گھسے پٹے انداز کے بجٹ پیش کیے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ کہ موجودہ حکومت نے کچھ اچھے کام بھی کیے ہیں جیسا کہ ملک کوبیرونی قرضوں کی نادہندگی سے بچا لیا، تجارتی خسارہ کم کیا، درآمدات کو کنٹرول کرلیا۔ بڑے منصوبوں میں کرپشن کا راستہ روکا۔ لیکن جہاں تک معاشی ترقی کا تعلق ہے تو موجودہ حکومت اسے مہمیز دینے کے لیے اب تک کوئی بڑا اقدام نہیں کرسکی۔ نہ ملکی معیشت کو پٹری پر چلانے کے لیے بڑے پیمانے پر اصلاحات کرسکی۔
اگر وزیر اعظم عمران خان اصلاحات کی طرف پیش قدمی کرتے تو حکومت کے اخراجات کم کرنے کی جانب کوئی بڑا قدم اُٹھاتے۔ اگلے مالی سال میں حکومت خسارہ میں چلنے والے اداروں، سرکاری ملازمین کی فوج اور سب سڈیوں پر تقریبا ً دو ہزار ارب روپے خرچ کرے گی۔ اگر ہر سال بتدریج یہ فضول خرچ کم کیا جائے تو بجٹ متوازن ہوسکتا ہے۔ حکومت کو قرض کم لینا پڑے گا، مہنگائی کم ہوگی۔ تاہم یہ اصلاحات کرنے کے لیے جس بہادری اور جرأت کی ضرورت ہے تحریک انصاف کی حکومت میں وہ نظر نہیں آرہی۔ اسی طرح آمدن بڑھانے کا معاملہ ہے۔ ملک میں کم سے کم تیس لاکھ ایسے صاحب ِحیثیت لوگ ہیں جنہیں انکم ٹیکس دینا چاہیے لیکن وہ ادا نہیں کرتے۔ اتنے ہی لوگ ہیں جو اصل کا نصف یا اس سے بھی کم انکم اور سیلزٹیکس ادا کرتے ہیں۔ عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ٹیکس وصولی دوگنا کرکے دکھائیں گے۔ حکومت سنبھالنے کے بعد اُنکے ارادے کمزور پڑ گئے۔ وہ اب تک ٹیکس جمع کرنے والے ادارے ایف بی آر کی تنظیمِ نوتک نہیں کرسکے۔ یہ ادارہ کرپشن کی آماجگاہ ہے۔ نہ وہ کوئی ایسی پالیسی نافذ کرسکے جس سے ٹیکس وصولی میں خاطر خواہ اضافہ ہوسکے۔ ماضی کی حکومتوں کی طرح اُنکی حکومت بھی قرضوں پر انحصارکررہی ہے۔
حکومت کی ترقیاتی پالیسی بھی جمود کا شکار نظر آتی ہے۔ گزشتہ مالی سال کا جو اقتصادی جائزہ جاری ہوا ہے اسکی نمایاں بات یہ ہے کہ ملکی معیشت کی ترقی کو بریکیں لگی ہوئی ہیں۔ صنعتی پیداوار بڑھنے کی بجائے کم ہوگئی ہے۔ خدمات کا شعبہ ُرو بہ زوّال ہے۔ ٹھیک ہے کہ کورونا وبا نے ترقی کو متاثر کیا ہے لیکن حکومت بھی کوئی ایسی قابل ِذکر پالیسی نہیں لاسکی جس سے ترقی کی رفتارتیز ہوجائے۔ فی الحال ہمارے محنت کش کاشتکاروں نے معیشت کی کشتی کو ڈوبنے سے بچا یا ہوا ہے۔ اسکے باوجود حکومت نے زراعت کی ترقی کے لیے صرف ایک روٹین کا بجٹ مختص کردیا ہے۔ کاشتکاروں خصوصا ّچھوٹے کسانوں کی بہتری کے لیے حکومت کئی اقدامات کرسکتی ہے مثلاً فصلوں کی انشورنس کی اسکیم کا بڑے پیمانے پر اجراء کیا جاسکتا ہے۔ کسان کی فصل موسم یا ٹڈی دل ایسی قدرتی آفت سے خراب ہوجائے تو اسکا کوئی پرسان حال نہیں۔ وہ تادیر اس نقصان کے اثرات برداشت کرتا رہتا ہے۔ اگر فصل کو حکومت انشورنس مہیا کردے تو نقصانات کی کچھ تو تلافی ہوجایا کرے۔ جیسے حکومت نے عام آدمی کو صحت کی سہولتیں دینے کی خاطر صحت انشورنس کارڈ جاری کرنے کا منصوبہ شروع کیا ہے اسی طرح کسان کارڈبھی جاری کرسکتی ہے۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عام حالات میں بھی کسان کو اپنی فصل کی مناسب قیمت نہیں ملتی۔ آڑھتی اور دکاندار دونوں ہاتھوں سے کسانوں کو لوٹ رہے ہیں۔ حکومت ایسا میکانزم بنادے کہ کسان اپنی فصل کی بہتر قیمت وصول کرسکے۔
وفاقی بجٹ میں صنعتی شعبہ کو کچھ مراعات دی گئی ہیں مثلاً کارخانوں کے خام مال پر کسٹم ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے۔ اسکے اچھے اثرات مرتب ہونگے۔ لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ ملک میں دو سال سے مندی ہے، صنعتی، تجارتی شعبے بہت دباؤمیں ہیں۔ پہلے تواسٹیٹ بنک نے شرحِ سود بہت زیادہ رکھی ہوئی تھی، پونے چودہ فیصد۔ کاروباری لوگ بینکوں کے مہنگے قرضے لینے سے گریزاں تھے۔ کوروناوبا کے بعد شرح ِسودکم ہو کر آٹھ فیصد ہوگئی ہے۔ وبا کی وجہ سے جو حالات چل رہے ہیں اس میں حکومت کو چاہیے کہ اسٹیٹ بنک کو آمادہ کرے کہ وہ شرحِ سودتین، چار فیصد تک لیکر آئے تاکہ کارخانے چلانے والے، تجارت کرنے والے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکیں۔ کاروباری سرگرمیاں تیز ہوں۔ روزگار پیدا ہو۔ صنعتی ترقی کے لیے حکومت کو معمول سے ہٹ کر بڑے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ عام استعمال کی کتنی چیزیں پاکستان باہر کے ملکوں سے درآمد کرتا ہے جو ہمارے ہاں آسانی سے بنائی جاسکتی ہیں۔ جیسے لیپ ٹاپ، اسمارٹ فون، ایل ای ڈی ٹیلی ویژن، الیکٹرانکس اور الیکٹرک کا سامان، سینیٹری کا سامان، گاڑیوں کے معیاری ٹائر۔ صنعتی زونز میں حکومت نئے سرمایہ کاروں کو مفت زمین مہیا کرے کہ آؤ، کارخانے لگاؤ۔ سرکاری اداروں کو تین سال تک نئے کارخانوں میں داخل ہونے سے منع کردیا جائے تاکہ وہ نت نئے بہانوں سے ان کے کام میں رکاوٹیں نہ ڈالیں۔ ان صنعتوں کو آسانی سے بجلی، گیس کے کنیکشن دیے جائیں۔ بجٹ میں حکومت نے اگلے سال معاشی ترقی کی شرح کا ہدف دو فیصد مقرر کیا ہے۔ یہ بہت کم ہے۔ ملک کو کم سے کم پانچ فیصد شرح سے ترقی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نوجوانوں کو روزگار ملے، حکومت کو ٹیکس۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب وزیراعظم عمران خان لگے بندھے روایتی طریقوں سے معیشت کو چلانے کی بجائے آؤٹ آف باکس حل تلاش کریں۔ ایسی معاشی پالیسی بنائیں جس سے ملک موجودہ کساد بازاری سے نکل کر آگے بڑھ سکے۔