Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Amarat Ka Barhta Hua Kirdar

Amarat Ka Barhta Hua Kirdar

ایک کروڑ آبادی پر مشتمل اور سوا چار سو ارب ڈالرمجموعی دولت کا حامل ملک متحدہ عرب امارات مشرق وسطیٰ کی ایک تیزی سے اُبھرتی ہوئی طاقت ہے جسکا علاقائی سیاست میں کردار بڑھتا جارہا ہے۔ حالیہ برسوں میں سعودی عرب کے ساتھ ساتھ امارات کا شاہی خاندان عرب دنیا میں امریکہ کے بڑے اتحادی اور کھلاڑی کے طور پر ابھرا ہے۔ عرب عوام خواہ کچھ بھی سوچیں، فلسطینیوں کو جو بھی نقصان ہو لیکن اسرائیل کو تسلیم کرکے امارات نے امریکہ کے حکمران طبقہ خاص طور سے انتہائی دولت مند اور سیاسی طور پر طاقتور یہودی لابی میں اپنی حیثیت کو مستحکم کرلیا ہے۔ تیرہ اگست مشرقِ وسطی اور عالمی سیاست میں ایک تاریخی دن تھا جب متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان ایک معاہدہ طے پا گیا، جس کے تحت امارات نے صیہونی ریاست اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ دونوں ملکوں نے متعدد شعبوں میں ایک دوسرے سے تعاون و اشتراک کرنے کا بھی اعلان کیا۔

یہ ایک کھلا راز ہے کہ کم سے کم دو دہائیوں سے کئی عرب ممالک بشمول متحدہ عرب امارات کے اسرائیل سے غیررسمی، خفیہ تعلقات چلتے آرہے ہیں۔ دونوں ممالک فوجی، سفارتی اور انٹیلی جنس اشتراک کے معاملات پر ایک دوسرے سے تعاون کرتے رہے ہیں۔ دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملہ کے بعد ان تعلقات میں خاص طور سے اضافہ ہوا۔ جب امریکہ نے صدا م حسین کی حکومت کو گرادیا تو عراق میں اکثریتی مسلک کی آبادی کو حکومت بنانے کا موقع ملا۔ بغداد میں ایران کا اثر و رسوخ بڑھ گیا۔ لبنان میں ایران کی حمایت سے حزب اللہ تنظیم مزید مضبوط ہوگئی۔ شام میں بشار الاسد کی حکومت کے ایران کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔ ایران کے بڑھتے ہوئے علاقائی کردار سے عرب بادشاہوں کو تشویش لاحق ہوئی اور اسرائیل کو بھی۔ اس مشترکہ چیلنج کا مقابلہ کرنے کی غرض سے عرب ممالک اور اسرائیل میں قربت بڑھنے لگی۔ یمن میں ایران کے حامی حوثی قبائل کی بغاوت اور عراق سے امریکی فوجوں کے انخلا کے منصوبے عرب حکمرانوں کے لیے بڑی پریشانی کے عوامل ہیں۔

عرب حکمرانوں کے احساس عدم تحفظ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ آٹھ دس برسوں میں تیل پیدا کرنے والے عرب ملکوں کی تیل سے آمدن بھی ایک تہائی رہ گئی ہے۔ بڑھتی ہوئی نوجوان آبادی کو معاشی سہولتیں دیکر قابو میں رکھنا بادشاہوں کے لیے مشکل ہوتا جارہا ہے۔ کئی عرب ملکوں میں حکمرانوں کامذہبی مسلک کچھ اور ہے جبکہ اُنکی آبادی کا بڑا حصہ کسی اور مسلک سے تعلق رکھتا ہے جسے طاقت کے زور پر دبا کر رکھاگیا ہے۔ عرب بادشاہ اپنے ملکوں میں بڑی، مضبوط فوج بھی نہیں رکھتے کیونکہ انہیں ڈر ہوتا ہے کہ فوجی سربراہ انکا تختہ الٹ کر خود اقتدار نہ سنبھال لے۔ زیادہ تر عرب ممالک اپنی سلامتی اور دفاع کے لیے امریکہ پر انحصار کرتے ہیں جس کے بیشتر ملکوں میں فوجی اڈے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے دفاع میں طویل عرصہ تک پاکستان نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ متحدہ عرب امارات کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ اسکی اپنی مقامی آبادی مجموعی آبادی کا صرف بارہ فیصد ہے۔ باقی سب لوگ غیرملکی ہیں جو وہاں کام کاج کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ سب سے زیادہ جنوبی ایشیا سے، تقریبا ساٹھ فیصد۔ صرف بھارت سے تعلق رکھنے والے افرادآبادی کا اڑتیس فیصد ہیں۔

ایرانی انقلاب کے بعد سے عرب شاہی خاندان اسرائیل سے زیادہ ایران کو اپنے لیے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں اور اب ترکی کو بھی۔ مشرق وسطیٰ کی علاقائی سیاست میں ابوظہبی اورجدہ اتحادی ہیں جبکہ قطر کا ترکی کے ساتھ اتحاد و اشتراک ہے۔ ترکی میں کرد علیحدگی پسندوں کی ایک بڑی تحریک ہے۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل دونوں اسکی حمایت کرتے ہیں۔ ترکی کے صدر طیب اردوان اور قطر کے حکمران نظریاتی طور پر اخوان المسلمین کے حامی ہیں۔ متحدہ عرب امارات کا شاہی خاندان اس تنظیم کے سخت خلاف ہے، اسے اپنا حریف سمجھتا ہے۔ دو ہزار سترہ میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے قطر پر پابندیاں عائد کرکے اسکی ناکہ بندی کردی تھی۔ خدشہ تھا کہ قطر کے شاہی خاندان کا تختہ الٹنے کی کوشش کی جائے گی لیکن ترکی نے اپنے ہزاروں فوجی قطر بھیج کر اس امکان کو ختم کردیا۔ اسکے بدلہ میں دو ہزار اٹھارہ میں قطر نے طیب اردوان کی مدد کی۔ اس نے اردوان کو فوجی بغا ت کی سازش سے بروقت مطلع کردیا جسے ناکام بنادیا گیا۔ انقرہ سمجھتا ہے کہ اس سازش کا مرکز متحدہ عرب امارات تھا۔ سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات لیبیا میں حکومت کے باغی جنرل ہفتار کی حمایت اور مدد کررہے ہیں جبکہ ترکی اور قطر طرابلس میں قائم حکومت کی۔ جیسے ہی متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا باقاعدہ اعلان کیا، ترکی اور قطرکے وزرائے خارجہ بھاگم بھاگ طرابلس پہنچے جہاں انہوں نے لیبیا کی حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ پر دستخظ کیے جسکے تحت ترکی اور قطر لیبیا میں اپنی فوجیں تعینات کرسکیں گے۔

متحدہ عرب امارات نے امریکہ کے بغل بچہ اسرائیل کوباقاعدہ تسلیم کرکے علاقائی سیاست میں اپنی پوزیشن اور مضبوط کرلی ہے۔ اب اسے امریکہ سے جدید ترین فوجی اسلحہ ملنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ چونکہ سعودی شاہی خاندان کے اندر اقتدار کی رسہ کشی چل رہی ہے، امریکہ کوعرب دنیا میں بڑے اتحادی کے طور پرسیاسی طور پر نسبتاًایک مستحکم ملک کی ضرورت تھی، جو اسے متحدہ عرب امارات کی صورت میں مل گیا۔ ایران اور ترکی کی بڑھتی ہوئی طاقت کے سامنے بھی امریکہ بند باندھنا چاہتا ہے۔ امارات اور اسرائیل کا اتحاداس کے لیے مددگارثابت ہوگا۔ حال ہی میں چین اور ایران کے درمیان طویل مدتی تعاون کا معاہدہ سامنے آیا جسکے تحت چین ایران میں چار سو ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کرے گا۔ اس سے امریکہ کے خدشات میں اضافہ ہوگیا کہ کہیں مشرق وسطیٰ کا پورا علاقہ اسکے چنگل سے نہ نکل جائے۔ امارات اور اسرائیل کا اتحاد قائم کرکے امریکہ نے خطہ میں اپنی پوزیشن کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔ اسرائیل کی موساد اور امریکہ کی سی آئی اے ملکر علاقہ میں فائیو آئی جیساانٹیلی جنس مرکز بناسکیں گی جسکی مدد سے مشرق وسطی، ایران، پاکستان اور چین تک کے علاقہ پر نظر رکھی جاسکے گی اور ان ملکوں کی اہم معلومات اکٹھی کرنے میں مزید آسانی ہوگی۔ متحدہ عرب امارات اور ایران کو پینسٹھ میل چوڑا سمندر جدا کرتا ہے۔ یُوں اب اسرائیل کے ماہر کارندے اور جدید ترین جاسوسی الیکٹرانک آلات ایران کے سر پہ ہوں گے۔