عرب دنیا میں فلسطینی مزید تنہا اور بے یار و مددگار ہوگئے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے بعد بحرین نے بھی گزشتہ جمعہ کے روز صیہونی ریاست اسرائیل کو تسلیم کرکے اس سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کا باقاعدہ اعلان کردیا۔ بحرین اور اسرائیل کے درمیان انیس سو نوے کی دہائی سے خفیہ تعلقات قائم تھے۔ گزشتہ چند برسوں میں ان میں خاصی گرمجوشی آگئی تھی۔ اب انہیں باقاعدہ رسمی شکل دے گئی ہے۔ اردن، مصر، متحدہ عرب امارات کے بعد بحرین چوتھا عرب ملک بن گیاہے۔ جس نے اسرائیل کے ساتھ ناطہ جوڑ ا ہے۔ سولہ لاکھ آبادی پر مشتمل ننھا منھا سا ملک بحرین خلیج فارس کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ یہ ملک ایک بڑے جزیرہ بحرین اورتیس چھوٹے چھوٹے جزیروں پر مشتمل ہے۔ شمال میں واقع مناما شہر اسکا دارالحکومت ہے۔ اسکے مغرب میں سعودی عرب اور مشرق میں قطر واقع ہے۔ نصف آبادی عرب ہے جبکہ باقی لوگ ایران، بھارت، پاکستان وغیرہ سے آئے ہوئے غیرملکی ہیں۔
بحرین میں تیل کی پیداوار دیگر عرب ملکوں کی نسبت کم ہے لیکن یہاں پیٹرولیم کی ریفائنریاں ہیں جن میں ہمسایہ ممالک کا تیل صاف کیا جاتا ہے۔ یہ مالی، تجارتی سرگرمیوں اور سیاحت کا مرکز ہے۔ بحرین امریکہ کا قریب ترین اتحادی اور فوجی اڈّہ ہے۔ اس ملک میں امریکہ کا پانچواں بحری بیڑا مقیم رہتا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی بحری برتری کو قائم رکھنے کی خاطر بحرین امریکہ کیلئے بہت اہمیت کا حامل جزیرہ ہے۔ عرب ممالک کے تازہ فیصلوں سے یہ واضح ہوتا جارہا ہے کہ فلسطینی ریاست کے لیے انکی حمایت اورخطہ میں انکی خارجہ پالیسی اب الگ الگ معاملات ہیں۔ عرب ممالک فلسطین اور کشمیر دونوں تنازعات پر اپنی عملی، سفارتی، اخلاقی حمیت سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ گزشتہ ہفتہ عرب ممالک کی تنظیم عرب لیگ کا اجلاس ہوا تھا، جس میں فلسطین کے رہنما محمود عباس نے اس سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ متحدہ عرب امارات کے اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کی مذمت کرے لیکن عرب لیگ نے ایسا کرنے سے انکار کردیا تھا بلکہ فلسطینی وفد کو کھری کھری سنا دی کہ یہ تنظیم ایک خودمختار ممبر ملک کی خارجہ پالیسی کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرسکتی۔
عرب لیگ کے رویّہ سے ظاہر تھا کہ عرب ممالک اب فلسطین کے ساتھ اُس شدت سے سفارتی حمایت کرنے کے لیے تیار نہیں جیسا کہ وہ ماضی میں کیا کرتے تھے۔ اس اجلاس کے فوراً بعد ہی بحرین نے اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کا اعلان کردیا۔ گزشتہ ماہ امریکی وزیرخارجہ مائک پومپیو نے بحرین کا دورہ کیا تھا تاکہ اسکے اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کو حتمی شکل دے دی جائے۔ بحرین نے اسرائیل کے جہازوں کو متحدہ عرب امارات جانے کے لیے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت گزشتہ ماہ دے دی تھی۔ عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کیلیے قطار میں لگے ہوئے ہیں۔ مسلمانو ں کے قبلہ اوّل کو پنجۂ یہود سے چھڑوانے والی بات قصہ ٔپارینہ ہوچکی ہے۔ اسرائیل کا صابرہ شتیلہ میں قتل عام بھلا دیا گیا ہے۔ فلسطین کی آزاد ریاست کے قیام کی شرط عملاً اٹھا لی گئی ہے۔ عمان بھی اسرائیل سے قریب ہوچکا ہے اورجلد ہی کسی وقت باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا اعلان کرسکتا ہے۔
عمان کے بادشاہ سلطان حیثم بن طارق نے کھل کر متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی حمایت کی ہے اور فلسطینیوں کی مذمت کو مسترد کیا ہے۔ اسرائیل کے وزیراعظم بینیامن نیتن یاہوعمّان کا دورہ کرچکے ہیں جو باقاعدہ باہمی سفارتی تعلقات کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ افریقی، عرب ملک سوڈان کی رائے عامہ کی بڑی تعداد اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے حق میں ہے۔ سوڈان میں ایک فوجی کونسل حکومت چلا رہی ہے۔ اسکے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عبدل فتح البرہان اسرائیل سے سفارتی تعلق قائم کرنے کے حامی سمجھے جاتے ہیں۔ بحرین کے اقدام کی بڑی اہمیت یہ ہے کہ چھوٹے سے جزیرہ پر مشتمل یہ ملک خارجہ پالیسی میں کوئی بڑا فیصلہ سعودی عرب کی مرضی کے بغیر نہیں کرسکتا۔ سعودی عرب اسکا سرپرست ملک ہے جو اسے مالی امداد او ر شاہی خاندان کو عوامی احتجاجی مظاہروں کودبانے کی غرض سے اپنے فوجی مہیا کرتا ہے۔ دو ہزار اٹھارہ میں بحرین مالی بحران کا شکار ہوا تھا تو سعودی عرب، متحدہ وعرب امارات اور کویت نے اسے دس ارب ڈالر کی امداد دی تھی۔ بحرین نے اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے کا اعلان بھی سعودی عرب کی اجازت سے ہی کیا ہے۔
خود سعودی عرب نے فی الحال اسرائیل کو تسلیم کرنے سے بظاہر انکار کیا ہے۔ وہ یہ دیکھ رہا ہے کہ متحدہ عرب امارات اور دیگر چھوٹے عرب ممالک کے اسرائیل سے تعلقات قائم ہونے پرعرب عوام کا ردِّعمل کیا ہوتا ہے۔ تاہم سعودی عرب اور اسرائیل میں اچھے خاصے خفیہ رابطے ہیں جنکا ذکر عالمی میڈیا میں ہوتا رہتا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کے لیے عرب ممالک کا اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم کرنا ایک بڑی سیاسی کامیابی ہے۔ دو ماہ بعد نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں وہ خود کوامریکی عوام کے سامنے ایسے رہنما کے طور پر پیش کررہے ہیں جس نے مشرق وسطیٰ میں امن لانے کیلئے اہم کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ ابھی سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ ٹرمپ امن کے نوبیل انعام کے حقدار ہیں۔ صدر ٹرمپ کے داماد جیئرڈ کُشنر بہت عرصہ سے اسرائیل اور عرب ممالک کے چکر لگارہے تھے اور ان کے درمیان امن معاہدوں اور سفارتی تعلقات کے قیام کے لیے کام کررہے تھے۔ دو ہزار انیس میں بحرین میں صدر ٹرمپ نے اسرائیل فلسطین تنازعہ پر ایک کانفرنس کا انعقاد کیا تھا جس میں اسرائیلی وفد نے بھی شرکت کی تھی۔ بحرین اور اسرائیل کے باقاعدہ تعلقات سے مشرق وسطیٰ کی علاقائی سیاست میں اہم اثرات مرتب ہوں گے۔ دنیا ایک نئی کروٹ لے رہی ہے۔
عرب ملکوں نے امریکہ اور چین کے درمیان شروع ہونے والی کشمکش میں امریکہ اور اسرائیل کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال دیا ہے۔ خطہ میں اسرائیل کا اثر و نفوذ بڑھ گیا ہے۔ اسرائیلی انٹیلی جنس ان ملکوں میں اپنے کارندے بھرتی کرسکے گی۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین میں پاکستانی اور ایرانی بھی کام کرتے ہیں۔ اسرائیل کی رسائی ان ملکوں کے باشندوں تک بڑھ جائے گی۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے راستے موساد پاکستان میں بھی داخل ہوگی۔ ایران کے قرب میں اسرائیل کی موجودگی سے اسکے گرد گھیرا مزید تنگ ہوگیا ہے۔ وہ اپنے تحفظ اور مفادات کی خاطر چین سے مزید قریب ہوگا۔ ان تمام معاملات کے پاکستان کی داخلی سیاست اور خارجہ پالیسی پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔