پاکستان ایک دورہے پر کھڑا ہے۔ چین یا امریکہ۔ کس بڑی طاقت کا اتحادی بنے۔ عالمی سیاست میں امریکہ اور چین کی مسابقت زوروں پر ہے۔ معیشت اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں چین کی ترقی سے امریکہ کے پسینے چھوٹے ہوئے ہیں۔ امریکی صدر اور وزراء دنیا بھر میں چین کے مقابلہ میں اتحاد تشکیل دینے کے لیے بھاگتے پھر رہے ہیں۔ دوسری طرف، چین کے وزیرخارجہ نے حال ہی میں ترکی، خلیج فارس اور عرب ممالک کے دورے کیے ہیں۔ چین کا مشرقِ وسطیٰ میں اثر و رسوخ بڑھتا جارہا ہے۔ چین عالمی تجار تی راستوں پر امریکی غلبہ ختم کرنے کے لیے بیلٹ ایندروڈ منصوبہ تیزی سے آگے بڑھا رہا ہے۔
چین کی پالیسی ہے کہ امریکہ سے محاذ آرائی نہ ہو لیکن امریکہ اپنے غلبہ کو قائم رکھنے کے لیے چین سے ایک نئی طرح کی سرد جنگ شروع کرچکا ہے۔ درحقیقت، امریکہ کو اپنی بقا اورخوشحالی کے لیے ایک بڑے حریف کی ضرورت رہتی ہے۔ تاکہ امریکہ کی جنگی صنعت کا کاروبار چلتا رہے۔ امریکہ دنیا کے ممالک کو اپنے حریف کو ایک برائی کے طور پر اورخود کو نجات دہندہ مسیحا کے طور پر پیش کرتا ہے۔ یُوں دنیا پر اپنی چودھراہٹ قائم رکھتا ہے۔ پہلے یہ وِلن سوویت یونین (کمیونسٹ روس) تھا۔ پھر بیس پچیس برس تک اسلامی بنیاد پرستی کو دنیا کے لیے خطرہ بنا کر پیش کیا گیا۔ اب چین سب سے بڑامدمقابل ہے۔ انیس سو نوّے کی دہائی کے شروع میں سوویت یونین میں کمیونزم کا خاتمہ ہوا۔ رُوس نے بھی مغربی جمہوری نظام اختیار کرلیا۔ کمیونسٹ روس اور امریکہ کے درمیان ستّر سال جاری رہنے والی سرد جنگ ختم ہوگئی۔ جلد ہی مغرب نے اسلامی تہذیب کو اپنا مدّمقابل قراردے دیا۔ دنیا بھر میں امریکی، مغربی میڈیا اورغیر سرکاری تنظیموں نے اسلام کی بنیادی تعلیمات سے وابستگی کو بنیاد پرستی اور ایک شدید بُری اور قابل نفرت چیز کے طور پرپیش کرنا شروع کردیا۔ مذہب ِ اسلام کو دہشت گردی سے منسلک کرکے پیش کیا جانے لگا۔ کئی مسلمان ملکوں کے خلاف جنگ شروع کردی گئی۔ لیکن گزشتہ چند سال سے دنیا میں نام نہاد اسلامی دہشت گردی کا تذکرہ بہت کم ہوگیا ہے۔ اسکی جگہ امریکی میڈیا اور دانشور چین کو وِلن کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ اچانک امریکہ اور یورپ کو مسلمانوں سے محبت ہوگئی ہے۔ چین کے صوبہ سنکیانگ میں یغور مسلمانوں کے انسانی حقوق کا معاملہ اٹھایا جارہا ہے۔ اس معاملہ پر چین پر کچھ پابندیاں بھی عائد کردی گئی ہیں۔
چین سے سرد جنگ میں امریکہ کے لیے یورپ اور مشرق وسطیٰ کی اہمیت کم ہوگئی ہے۔ اسکی نئی خارجہ پالیسی کا محور و مرکز بحرالکاہل اور بحر ہند کا خطہ ہے۔ یہ علاقہ چین کاجنوب میں قریب ترین ہمسایہ ہے اور یہاں سے ہی چین کی تمام تر تجارت ہوتی ہے۔ امریکہ دنیا میں اپنی تھانیداری قائم رکھنے کی خاطر اتحادی ممالک ڈھونڈتا ہے جیسے کمیونسٹ روس کے خلاف پاکستان اسکا اتحادی بن گیا تھا۔ چین کے خلاف انڈیا اسکا سب سے بڑا، قابل اعتماد اتحادی ملک ہے جو چین کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ امریکہ نے بحر الکاہل اور بحر ہند کے ممالک جاپان، آسٹریلیا، انڈیا پر مشتمل اتحاد کواڈ، بنالیا ہے۔ تاہم امریکہ کے دوست ملک جنوبی کوریا نے اس اتحاد میں شامل ہونے سے معذرت کرلی ہے۔ چین کے شمال میں توصرف ایک چھوٹا سا ملک منگولیا ہے جو چین کے کنٹرول سے باہر نہیں نکل سکتا۔ چین کے مغرب میں روس ہے جو امریکہ کا حاشیہ بردار نہیں بننا چاہتا۔ امریکہ نے روس کے صدر پیوٹن کو غیر مستحکم کرنے اور انہیں حکومت سے نکالنے کی بڑی کوششیں کیں لیکن اب تک کامیاب نہیں ہوا۔ وہ روس اور چین کی قربت کو بھی نہیں روک سکا۔ چین کے جنوب مشرق میں ایک اہم ہمسایہ ملک پاکستان ہے جو چین کو متبادل بحری اور زمینی تجارت کا راستہ مہیا کرسکتا ہے۔ چین کے خلاف مکمل گھیرا ڈالنے کی امریکی کوشش پاکستان کی مدد کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اسی لیے پاکستان پر امریکہ کا شدید دباؤ ہے کہ وہ چین کے ساتھ شراکت داری نہ کرے، سی پیک میں شامل نہ ہو۔ لیکن پاکستان نے اب تک اسکی بات نہیں مانی۔ اب کچھ عرب ملکوں کی مدد سے پاکستان کو سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پاکستان میں امریکی لابی خاصی مضبوط ہے اور کسی وقت پالیسی میں اچانک تبدیلی کا امکان مکمل طور پر رد نہیں کیا جاسکتا۔ چین نے قریب میں واقع ایران سے طویل مدتی جامع معاہدہ کرلیا ہے۔ چین کو ایران کے تیل کی ضرورت ہے اور ایران کو چین کی سفارتی، دفاعی اور معاشی مدد کی۔ چین اور ایران وسط ایشیا کے راستے سے منسلک بھی ہیں۔ ایران سے مشرق وسطیٰ اور یورپ تک زمینی تجارت کا راستہ بھی جاتا ہے۔ چین اس راستے کو اپنے منصوبہ بیلٹ اینڈ روڈ کا حصہ بنانا چاہتا ہے۔ اگرچین کو پاکستان سے ایران تک جانے کا زمینی راستہ مل جائے تو سونے پرسہاگہ ہوجائے گا۔ پاکستان کو بھی راہداری سے خوب آمدن ہوگی۔
بھارت اور امریکہ فطری اتحادی ہیں۔ دونوں کے مفادات مشترکہ ہیں۔ بھارت چین کا حریف ہے اور جنوبی ایشیا میں اپنی تھانیداری قائم کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ اسے اس علاقہ کا چودھری بنانے کے لیے تیار ہے اور ہر ممکن مددفراہم کررہا ہے۔ رُکاوٹ صرف پاکستا ن ہے۔ کلنٹن، بش جونئیر، باراک اوبامہ، ڈونلڈ ٹرمپ سب امریکی صدر بھاگے بھاگے انڈیا کا دورہ کرتے ہیں۔ وہ پاکستان آنا پسند نہیں کرتے۔ صدربائیڈن نے عہدہ سنبھالنے کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کو ٹیلی فون کیا لیکن پاکستان کے وزیراعظم سے بات نہیں کی۔ امریکی وزیردفاع لائیڈ آسٹن نے دہلی کا دورہ کیا، اسلام آباد نہیں آئے۔ امریکی صدر بائیڈن نے چند روز پہلے ایک ماحولیاتی کانفرنس بلائی تو بھارت کو مدعو کیا، پاکستان کی درخواست کے باوجود اُسے نہیں بلایا۔ امریکی صدر کے خصوصی نمائندہ جان کیری چند روز بعد دلی اور ڈھاکہ کے دورہ پر آئیں گے لیکن اسلام آباد نہیں۔ یُوں لگتا ہے کہ پاکستان چین اور امریکہ کے ساتھ تعلقات میں توازن رکھنا چاہتا ہے لیکن امریکہ کا پاکستان سے مطالبہ ہے کہ چین سے فاصلہ کرو تب ہمارے ساتھ شریک ہوسکتے ہو۔ جب تک پاکستان ایسا نہیں کرے گا امریکی حکمران پاکستان کے ساتھ سرد مہری برقرار رکھیں گے۔ پاکستا ن جرمنی یا جنوبی کوریا نہیں ہے جسے امریکہ نے یہ آپشن دے رکھی ہے کہ وہ اسکے اور چین کے ساتھ ایک جیسے دوستانہ تعلقات رکھ سکتا ہے۔ پاکستان کوامریکی ایک معاشی طور پر کمزور ملک سمجھتے ہیں جو اسکی مدد کا محتاج رہتا ہے۔ اسلیے وہ پاکستان سے مکمل تابعداری کا طلبگار ہے۔ فی الحال حالات ایسے ہیں کہ پاکستان چین اور امریکہ سے بیک وقت فائدہ نہیں اُٹھاسکتا۔ اُسے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔