موجودہ پارلیمانی، جمہوری نظام میں عوام کے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھ گئے ہیں۔ حکومت کی عملداری کمزور ہوچکی ہے۔ کوئی حکومتی ادارہ اپنا کا م ٹھیک طریقہ سے انجام نہیں دے رہا۔ لاقانونیت، بدانتظامی اورکرپشن کا دور دورہ ہے۔ ملک میں گورننس کا بریک ڈاؤن اس حد تک ہوگیا ہے کہ کراچی میں گندے نالے صاف کرانے کے خاطر بھی وفاقی اداروں اور فوج کی نگرانی درکار ہے۔ جس خرابی پر نظر ڈالیں اس کے پیچھے خراب گورننس کارفرما نظر آتی ہے۔ بڑا چیلنج یہ ہے کہ اس صورتحال سے باہرکیسے نکلا جائے۔
ایک نقطہ نظر ہے کہ ضلعی اور تحصیل کی سطح پر منتخب مقامی حکومتوں کو با اختیار بنایا جائے جو عوامی مسائل کو حل کریں گی اور گورننس بہتر ہوجائے گی۔ لیکن ہمارے ملک میں ماضی میں منتخب اور با اختیارمقامی حکومتوں کے نظام کا تجربہ کامیاب نہیں ہوسکا۔ سیاسی جماعتیں اور منتخب صوبائی حکومتیں انہیں برداشت نہیں کرتیں۔ صوبائی حکومت اور ضلعی حکومت کا ٹکراؤ بدنظمی اور انتشار کا باعث بنتا ہے۔ کوئی بھی وزیراعلیٰ اپنے سامنے کسی ضلع کے ناظم یا مئیر کو بااختیار اور طاقتور نہیں دیکھنا چاہتا۔
جنرل پرویز مشرف نے بااختیار مقامی حکومتوں کا نظام متعارف کرایا تھا لیکن جیسے ہی پنجاب میں مسلم لیگ (ق)کی حکومت بنی اُس نے مقامی حکومتوں کے اختیارات میں کمی کردی۔ دو ہزار تیرہ میں پیپلزپارٹی نے سندھ میں اس نظام کو بالکل ہی ختم کردیا، اسکی جگہ ایک ایسا لُولالنگڑا قانون بنایا جس میں بلدیاتی ادارے بالکل بے اختیار ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے بھی پنجاب میں بلدیاتی اداروں کا نیا قانون بناکر ان کو محض رسمی ادارے بنادیا۔ اب تحریک انصاف پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں نیا نظام لائی ہے جس میں ضلعی ناظم یا مئیر کا براہ راست الیکشن ہوگا۔ اس سے کشیدگی پیدا ہوگی۔ خاص طور سے اگر مئیر کا تعلق صوبائی حکومت کی مخالف سیاسی جماعت سے ہوا۔ وزیراعلیٰ اور اس علاقہ کے ایم پی ایز اور ایم این ایز اس مئیر یا ناظم کو اپنی اتھارٹی کے لیے خطرہ تصور کریں گے۔ ان کے مابین ایک رسہّ کشی شروع ہوجائے گی۔
انتظامی امور مزید خراب ہوجائیں گے۔ ہمارا سیاسی کلچر ابھی اتنا بالغ اور پختہ نہیں ہوا کہ تین بااختیار حکومتوں (وفاقی، صوبائی، ضلعی)کا بوجھ اُٹھا سکے۔ یہاں تو بے تحاشاصوبائی خود مختاری دینے کے باوجود وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان ہموار تعلقات قائم نہیں ہوسکے۔ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ضلعی حکومتوں کے اختیارات بڑھنے سے حکومتی نظام پر مقامی جاگیرداروں، قبائلی سرداروں کی طاقت اورحکومتی نظام پر شکنجہ مزید مضبوط ہوجائے گا۔
دیہی عوام انکے سامنے مزید بے بس ہوجائیں گے۔ شہروں میں پراپرٹی مافیا اپنی بے تحاشا دولت کے بل پر شہری حکومتوں پر قابض ہوجائے گا۔ عوام ایک نئے عذاب میں مبتلا ہوجائیں گے۔ موجودہ ریاستی ڈھانچہ میں بلدیاتی ادارے زیادہ بااختیار بنانے سے گورننس کا بحران قابو میں آنے والا نہیں بلکہ اور سنگین ہوجائے گا۔ ملک اس بات کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ بلدیاتی ادارے اتنے اختیارات کے حامل ہوں کہ اُن کا صوبائی حکومت سے مسلسل ٹکراؤ ہوتا رہے۔
اس صورتحال کا بہترمتبادل یہ ہے کہ ملک میں چودہ پندرہ انتظامی صوبے بنادیے جائیں۔ موجودہ صوبے رقبہ اور آبادی کے لحاظ سے اتنے بڑے ہیں کہ ان کا انتظام ٹھیک طریقہ سے چلانا خاصا مشکل ہوگیا ہے۔ صرف پنجاب کی آبادی گیار ہ کروڑ سے زیادہ ہے۔ نئی انتظامی اکائیاں اسطرح بنائی جائیں کہ ہرصوبہ زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ دو کروڑ آبادی پر مشتمل ہو۔
آئین میں ترمیم کرکے صوبوں کوپابند بنایا جائے کہ وہ ترقیاتی بجٹ میں ضلعوں کاسالانہ حصہ ایک فارمولہ کے مطابق مقرر کریں گی۔ لوگوں کوسرکاری محکموں سے اپنے چھوٹے چھوٹے کام کاج کے لیے دُور دراز علاقوں سے چار صوبائی دارالحکومتوں کے دھکے نہیں کھانے پڑیں گے۔ چھوٹے صوبہ کا وزیراعلیٰ زیادہ بہتر انداز میں اپنے علاقہ کے مسائل حل کرسکے گا کیونکہ اس تک لوگوں کی رسائی زیادہ ہوگی اور اسے اپنے نسبتاًمختصر علاقہ کے حالات کا اچھی طرح علم ہوگا۔ نئے صوبے بننے سے چودہ پندرہ صوبائی دارلحکومت بنیں گے جو نئے شہری مراکز کے طور پر اُبھریں گے جس سے موجود ہ چھ سات بڑے شہروں پر آبادی کا بوجھ کم ہوگا۔ جب پاکستان بنا تو یہاں کچھ ریاستیں تھیں جو داخلی معاملات میں خود مختار تھیں جیسے بہاولپوراورسوات کی ریاستیں۔ ان ریاستوں میں گورننس باقی ملک کی نسبت بہت بہتر تھی۔
بہاولپور اور سوات کے لوگ آج بھی اپنے ریاست کے نظام کو اچھے لفظوں میں یاد کرتے ہیں۔ دیگرعوامل کے علاوہ اسکی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کا حدود اربعہ محدود تھا۔ اس لیے انکے حکمران بہتر انداز میں نظم و نسق چلاسکتے تھے۔ ملک میں انتظامی بنیادوں پر چھوٹے صوبے بنانے میں ایک بڑی رکاوٹ آبادی کے اعتبار سے تین چھوٹے صوبوں سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کی سیاسی جماعتیں ہیں۔ وہ ان صوبوں کو مقدس وفاقی اکائیاں سمجھتی ہیں۔ انکی نسلی، لسانی تشخص پر مبنی سیاست کا محور ان صوبوں کے حدود کی سا لمیت ہے۔ دوسرے، یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ پنجاب کی آبادی باقی تمام صوبوں کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ ہے اس لیے نئے صوبے بننے سے وفاقی اکائیوں کے درمیان مو جودہ توازن بگڑ جائے گا اور پنجاب کی بالادستی بڑھ جائے گی۔ اندرون سندھ کے سیاستدانوں کویہ بھی خدشہ ہے کہ کراچی کے الگ صوبہ بننے سے انکی ٹیکس آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔
ان خدشات اور تحفظات کو دُور کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ سینٹ کے کردار کو وفاقی اکائیوں کے نمائندہ ادارہ کے طور پر مستحکم کردیا جائے۔ اسوقت قومی اسمبلی میں وفاقی اکائیوں کی آبادی کے لحاظ سے نمائندگی ہے جبکہ سینٹ میں سب کی برابر نمائندگی ہے۔ سینٹ کے کردار کو وفاق کے نمائندہ ادارہ کے طور پر مضبوط کرنے کے بعد موجودہ صوبوں کی حدود کوآئین میں وفاقی اکائیوں کا نام دے دیا جائے جبکہ صوبہ کا لفظ انتظامی اکائی کے لیے استعمال کیا جائے تو مسئلہ بہت حد تک حل ہو سکتا ہے۔ اس وقت بجٹ کی منظوری صرف قومی اسمبلی دیتی ہے۔
سینٹ اس پرصرف بحث کرتی ہے لیکن اسے منظور یا مسترد کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ سینٹ سے وفاقی حکومت کے بجٹ کی منظوری کو لازمی قرار دیا جائے تاکہ چھوٹی وفاقی اکائیوں کے مفادات کا زیادہ بہتر طور پر تحفظ ہوسکے۔ ٹیکسوں کی آمدن کی تقسیم کے حوالہ سے بھی آئین میں ایسی ضمانت ہونی چاہیے کہ پسماندہ علاقوں پر مشتمل جو نئے صوبے بنیں انہیں کراچی اور لاہور ایسے بڑے شہروں سے ہونے والی آمدن سے جائزحصہ ملتا رہے۔