پاکستان کے تمام دریا آلودگی کا شکار ہیں۔ شہروں سے نکاسیٔ آب کا گندا پانی اور کارخانوں سے خارج ہونے والاکیمیکل ملا پانی دریاؤں میں شامل ہورہا ہے۔ کئی شہروں میں کچرا (سالڈ ویسٹ) بھی دریاؤں میں بہایا جارہا ہے۔ ہم اس طرزِ عمل سے چشم پوشی کیے ہوئے ہیں لیکن آنے والے وقت میں اسکے بھیانک نتائج ہوں گے۔ اِسوقت بھی بعض مقامات پر آبی آلودگی کے مضر اثرات ظاہر ہوچکے ہیں جنکا تذکرہ گزشتہ دنوں پنجاب اسمبلی میں کیا گیا۔
پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے جسکی آبادی گیارہ کروڑ سے زیادہ ہوچکی ہے۔ آبا دی میں اضافہ کی رفتار زیادہ ہے۔ شہری علاقے تیزی سے بے ہنگم پھیل رہے ہیں۔ صنعتی کارخانے کسی منصوبہ بندی کے بغیر لگائے گئے ہیں۔ بعض تو شہروں کے بیچوں بیچ واقع ہیں۔ کچھ بالکل رہائشی علاقوں کے نواح میں انکے ساتھ جُڑے ہوئے۔ شہروں کا کوڑا کرکٹ، گھروں کا گندا پانی، صنعتی کارخانوں کا آلودہ، کیمیکل ملا پانی قدرتی وسائل کی تباہی کا باعث بن رہا ہے۔ یہ غلیظ پانی صاف کیے بغیرقدرتی نالوں اور سیوریج کے ذریعے بہہ کردریاؤں میں شامل ہوجاتا ہے۔ گھروں کے گندے پانی میں خطرناک جراثیم ہوتے ہیں جبکہ کارخانوں، مِلوں کے پانی میں زہریلے کیمیائی مادے۔ یہ دونوں چیزیں انسانوں اور جانوروں کی صحت اور قدرتی ماحول کیلیے سخت نقصان دہ ہیں۔ کیمیائی مادوں کے باعث دریاؤں کے پانی میں تحلیل شدہ آکسیجن کی مقدار کم ہوجاتی ہے جس سے آبی جانوروں جیسے مچھلیوں کی زندگی کو نقصان پہنچتا ہے۔ بعض کیمیکل دھاتوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ ان سے مچھلیوں کے جسم میں یہ دھاتیں چلی جاتی ہیں۔
اگر انسان یہ مچھلیاں کھائیں تو ان کی صحت کیلیے نقصان دہ ہے۔ دوسری طرف دیہاتوں میں کاشتکار فصلوں کی پیداوار بڑھانے کی غرض سے مصنوعی، کیمیائی کھادیں استعمال کرتے ہیں اور انہیں کیڑے مکوڑوں سے محفوظ بنانے کی خاطر زہریلی دوائیں چھڑکتے ہیں۔ یہ کیمیکل بہہ کر کھالوں، نہروں میں جاتے ہیں، خاص طور سے جب بارش ہوتی ہے۔ کیمیکل زمین میں جذب ہوکر زیرِزمین پانی میں بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ گرمی کے تین چار مہینے ایسے ہوتے ہیں جب دریاؤں میں خوب پانی آتا ہے۔ اس موسم میں دریاؤں میں زیادہ گندگی جمع نہیں ہوتی کیونکہ پانی میں شامل ہونے والے مادے تیزی سے بہہ کر آگے نکل جاتے ہیں۔ البتہ سمندر اور زیرِزمین پانی کو ضرور خراب کرتے ہیں۔ دریائی پانی کے درجۂ حرارت، اس میں تحلیل شدہ آکسیجن اورمختلف دھاتوں کی مقدار سے اسکے معیار یا آلودگی کا تعین کیا جاتا ہے۔
عام مشاہدہ ہے کہ دریاؤں کے آلودہ پانی کے باعث انسانوں میں بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ زرعی رقبہ برباد ہوریا ہے۔ اگلے روز پنجاب اسمبلی میں چنیوٹ سے ایک رکنِ اسمبلی نے دریائے چناب کی آلودگی کا رونا رویا کہ فیصل آباد کے کارخانوں کا غلیظ پانی بہہ کر دریا میں شامل ہوجاتا ہے اوراسکے پانی کو برباد کررہا ہے۔ رکنِ اسمبلی نے شکایت کی کہ انکے علاقے میں آلودہ نہری پانی کی وجہ سے سینکڑوں ایکڑ زرعی رقبہ برباد ہوگیا ہے، فصلیں تباہ ہوگئی ہیں۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ محکمہ ماحولیات نے دریاؤں کی آلودگی روکنے کیلیے کیا حکمت عملی بنائی ہے اور کارخانوں کا گندا پانی نالوں میں جانے سے روکنے کے لیے محکمہ کیا اقدامات کررہا ہے۔ انہوں نے صوبائی اسمبلی میں دریائے چناب کی آلودگی سے متعلق ایک سوال جمع کرایا تھا جسکا جواب متعلقہ وزیر نے ڈیڑھ سال بعد دیا اور وہ بھی مبہم اور نامکمل۔ جب وزیر نے زیادہ تفصیل سے بات کرنا چاہی تو اسپیکر نے انہیں روک دیا۔
معاملہ صرف چنیوٹ کا نہیں ہے بلکہ سیالکوٹ سے لیکرہیڈ پنجند (ضلع مظفر گڑھ) تک دریاے چناب میں پچاس بڑے نالے (ڈرین)گرتے ہیں۔ یہ نالے شہروں کے نکاسیٔ آب کا پانی اورفیکٹریوں کا خارج کردہ پانی دریا میں ڈالتے ہیں۔ دریائے چناب میں سیالکوٹ، گجرات، منڈی بہاؤالدین، فیصل آباد، چنیوٹ، سرگودھا اور ملتان ایسے شہروں سے آنے والے نالوں کا غلیظ پانی شامل ہوتا ہے۔ راوی اور جہلم دریا بھی چناب میں ضم ہوجاتے ہیں اسلیے انکی گندگی اسے مزید آلودہ کردیتی ہے۔ لاہور کی ڈیڑھ کروڑ آبادی کے میو نسپل سیویج کے باعث دریائے راوی شہر کے قریب ایک سو میل تک انتہائی آلودہ ہوچکا ہے۔ ملتان اور جھنگ میں تو چناب کے کنارے پر شہروں سے جمع ہونے والے کچرے (سالڈ ویسٹ) کے انبار لگائے جاتے ہیں جو دریا میں تحلیل ہوتے رہتے ہیں۔
پنجاب کے کسی شہر میں یہ انتظام نہیں کہ میونسپل سیویج کو صاف(ٹریٹمنٹ) کرکے دریا میں ڈالا جائے۔ لاہور ایسے بڑے شہر میں بھی ٹریٹمنٹ پلانٹ نہیں ہے۔ یہی حال صنعتی کارخانوں کا ہے جن کیلیے قانون موجود ہے کہ وہ اپنے استعمال شدہ پانی کو ٹریٹ (صاف) کرکے اسکا نکاس کریں گے۔ وہ پیسے بچانے کیلیے یہ کام نہیں کرتے۔ محکمہ ماحولیات قانون نافذ کروانے کا ذمہ دار ہے۔ لیکن اسکے افسران، اہلکار رشوت کھا کر ان کارخانوں کو قانون شکنی کرنے دیتے ہیں۔ حکومت اتنی بے پرواہ ہے کہ دریائی آلودگی کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کرنا تو دُور کی بات ہے اسکی باقاعدہ مانیٹرنگ بھی نہیں کرواتی۔ اس مقصد کے لیے حکومت نہ تو فنڈز مختص کرتی ہے۔ نہ معیاری تجربہ گاہیں اور ماہرین کا بندوبست ہے۔ مجموعی طور پر ماحولیات کے موضوع پر بات زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھتی۔ صاف پانی کی دستیابی ہماری زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔
پانی کے بغیر زندگی کا تصور نہیں۔ ملک کے کئی علاقوں جیسے جنوبی سندھ میں دریاؤں کا پانی پینے کیلیے بھی استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ وہاں زیرِ زمین پانی انسانی استعمال کے لائق نہیں۔ ہماری آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ زیرِ زمین میٹھا پانی کم ہورہا ہے۔ آج سے پندرہ بیس برس بعد آبادی اتنی بڑھ جائے گی کہ دریاؤں کا پانی کاشتکاری کے ساتھ ساتھ پینے کیلیے بھی زیادہ مقدار میں استعمال ہوگا۔ جیسے لاہور کی بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ابھی سے دریا کے پانی کو قابلِ استعمال بنانے کا منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔ اگر ہم نے آج اپنے دریاؤں کی حفاظت نہیں کی، انکی آلودگی روکنے کا بندوبست نہیں کیا تو آنے والے وقت میں بہت دُشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔