Sunday, 22 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Gas Mansoobon Mein Takheer

Gas Mansoobon Mein Takheer

ملک میں قدرتی گیس کا بحران بڑھتا جارہا ہے جبکہ حکومت اسے حل کرنے کیلیے سست رفتاری سے کام کررہی ہے۔ چند برس پہلے تک گیس کی قلّت صرف سردیوں تک محدود تھی جب لوگ گھروں میں ہیٹر اور گیزر چلانا شروع کرتے تھے اور گیس کی طلب یکا یک بڑھ جاتی تھی۔ سردی کے مہینوں میں اکثر و بیشتر رہائشی علاقوں میں گیس کی لوڈ شیڈنگ معمول کی بات ہے۔ گیس کا پریشر اتنا کم ہوجاتا ہے کہ چولہے پر کھانا یا روٹی پکانا ممکن نہیں رہتا۔ لوگ متبادل کے طور پر گیس کے سلنڈرز استعمال کرتے ہیں۔ گیزر بجلی سے چلاتے ہیں۔ تاہم اب یہ قلّت اتنی بڑھ گئی ہے کہ سخت گرمی کے مہینے جون میں بھی صنعتی کارخانوں، سی این جی اسٹیشنوں کو گیس کی فراہمی بند کردی گئی۔ صوبہ سندھ سے گیس کی بڑی مقدار نکلتی ہے لیکن وہاں بھی گیس کی فراہمی اتنی کم ہوگئی کہ سوئی سدرن گیس کمپنی کو سی این جی اسٹیشنوں کو گیس کی فراہمی روکنا پڑی۔ ملک کے شمال میں گیس پہنچانے والی سوئی ناردرن گیس کمپنی نے پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں سی این جی اسٹیشنوں کے ساتھ ساتھ سیمنٹ کے کارخانوں اور اُن صنعتی کارخانوں کو گیس دینا بند کردی تھی جو برآمدات کیلیے مصنوعات تیار نہیں کرتے۔ اِن اقدامات سے معاشی سرگرمیوں پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔ پیداواری عمل رُک جاتا ہے۔ معاشی ترقی سست ہوجاتی ہے۔ کارخانے بند ہوتے ہیں تو مزدور بیروزگار ہوجاتے ہیں۔ ایندھن روزمرّہ زندگی کی بنیادی ضرورت ہے۔ اسکی قلّت سے زندگی مفلوج ہوجاتی ہے۔ دیہات میں لوگ لکڑیاں، گوبر وغیرہ جلا کر گزارہ کرلیتے ہیں لیکن شہروں میں انہیں مہنگے متبادل ذرائع جیسے بجلی، گیس سلنڈر اور مٹی کے تیل کے مہنگے اخراجات برداشت کرنا پڑتے ہیں۔

شہری معاشرت میں قدرتی گیس توانائی کی ضروریات پوری کرنے کا اہم وسیلہ بن چکی ہے۔ ہمارے ملک میں توانائی کی پینتالیس فیصد ضروریات گیس سے پوری کی جاتی ہیں۔ گیس کے ایک کروڑ سے زیادہ صارفین ہیں۔ یہ گھروں میں ایندھن کے طور پر ہی نہیں بلکہ ٹرانسپورٹ چلانے اور بجلی بنانے کے کام آتی ہے۔ گیس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یورپی ممالک خصوصاً جرمنی کے تعلقات رُوس سے کئی معاملات پر اَچھے نہیں لیکن پھر بھی وہ رُوس سے گیس خریدنے پر مجبور ہیں۔ رُوس سے جرمنی تک ایک بڑی گیس پائپ لائن آتی ہے جسے نارڈ اسٹریم وَن، کہا جاتا ہے۔ اب گیس کی مزید رسد کیلیے ایک دوسری پائپ لائن نارڈ اسٹریم ٹُو، بچھائی جارہی ہے۔ تعلقات کی خرابی اپنی جگہ لیکن گیس کے معاملہ پر جرمنی کوئی جھگڑا نہیں کرنا چاہتا۔ پاکستان بھی ہمسایہ ملک ایران سے پائپ لائن کے ذریعے سستے داموں گیس حاصل کرسکتا ہے۔ یہ ایل این جی کی نسبت آدھے دام میں ملے گی۔ ایران نے ہماری سرحد تک پائپ لائن بچھائی ہوئی ہے لیکن ہم نے اپنے علاقے میں پائپ لائن نہیں ڈالی۔ امریکہ اور ہمارے کچھ دوست ممالک نہیں چاہتے کہ ہماری ایران سے معاشی قربت بڑھے۔ ہم اتنے کمزور ہیں کہ اپنے مفادمیں کام کرنے کی بجائے ان ملکوں کے دباؤ کے سامنے سپر ڈال دیتے ہیں۔ سرکاری حلقے بار بار ایک کہانی سناتے ہیں کہ ترکمانستان سے افغانستان کے راستےتاپی، پائپ لائن بچھا کر گیس لائی جائے گی۔ لیکن افغانستان میں اتنی بدامنی رہتی ہے کہ اس منصوبہ پر کام شروع نہیں ہوسکا، اس وقت بھی امکان نہیں وہاں اس کھربوں روپے کے منصوبے پر سرمایہ کاری کیلیے حالات سازگار ہوسکیں۔ ہمیں ایل این جی پر ہی انحصار کرنا ہوگا۔

پاکستان میں پہلی بار 1952 میں بلوچستان کے مقام ڈیرہ بگتی کے قریب سوئی کے مقام پر قدرتی گیس کے بڑے ذخائر دریافت ہوئے تھے۔ اسکے بعد سندھ میں بھی ذخائر ملے۔ پندرہ برس پہلے تک پاکستان گیس کے معاملہ میں خود کفیل تھا۔ اسکے بعد ملک میں گیس کی پیداوارہماری ضرورتیں پوری کرنے کیلیے کافی نہیں رہی۔ ماہرین یہ بات کئی سال پہلے سے کہہ رہے تھے لیکن حکومت نے اس معاملہ پر توجہ نہیں دی۔ اسکے برعکس حکومت نے سی این جی کی صورت میں گیس کے استعمال کو بڑھا دیا۔ ٹرانسپورٹ کا شعبہ بھی پیٹرول، ڈیزل کے ساتھ ساتھ گیس پر چلنے لگا۔ ایک وجہ یہ تھی کہ ہمارے ہاں گیس کی قیمتیں بہت کم تھیں۔ پیٹرول کی نسبت گیس سے کار چلانا سستا تھا۔ دوسرا فائدہ یہ تھا کہ گیس پر چلنے والی گاڑیاں کم آلودگی پیدا کرتی ہیں۔ جب بجلی کا بحران پیدا ہوا تو حکومت نے پانی سے بجلی کے منصوبے بنانے کی بجائے گیس سے چلنے والے تھرمل منصوبے لگائے اور نجی شعبہ نے بھی۔ گیس کی تقریباً چالیس فیصد کھپت تو بجلی بنانے میں ہوتی ہے۔ ایک ماہ پہلے سندھ میں گیس کا ایک کنواں کسی فنی خرابی کی بنا پربند کرناپڑا تو ملک میں بجلی کی کمی ہوگئی تھی۔ لوڈ شیڈنگ بڑھ گئی تھی۔

ماہرین کا تخمینہ ہے کہ اگلے دس بارہ برسوں میں پاکستان کے موجودہ گیس کے ذخائر بالکل ختم ہوجائیں گے۔ گیس کے کنویں تیزی سے خشک ہورہے ہیں۔ اگر کچھ نئے کنویں دریافت ہو بھی گئے تو ہماری طلب کا بہت کم حصہ اُن سے پورا ہوسکے گا۔ فی الوقت ہمیں جتنی قدرتی گیس درکار ہے اسکا نصف ملک کے اند ر پیدا ہورہا ہے۔ ساڑھے سات ارب کیوبک فٹ مانگ ہے جبکہ ساڑھے تین ارب کیوبک فٹ گیس نکل رہی ہے۔ اسکے باوجود گیس کی رَسد اسکی مانگ سے کم ہے۔ تقریبا ًسوا اَرب کیوبک فٹ گیس مائع شکل (ایل این جی)میں بیرون ممالک سے درآمد کرنا پڑ تی ہے۔ اسکی قیمتیں عالمی منڈی میں پیٹرول کی طرح کم زیادہ ہوتی رہتی ہیں۔ ایم ایم بی ٹی یو، ایل این جی ناپنے کا ایک پیمانہ ہے۔ ایل این جی کی قیمت کبھی چار ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو تک کم ہوجاتی ہے اور کبھی بیس ڈالر تک بڑھ جاتی ہے۔ مائع صورت میں ایل این جی بحری جہازوں میں آتی ہے۔ سمندر کے کنارے پر بنے مخصوص گوداموں (ٹرمینل) میں رکھی جاتی ہے۔ وہاں اسے گیس میں تبدیل کیا جاتا ہے اور پائپ لائن میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ابھی پاکستان کے پاس پورٹ قاسم پر ایل این جی کے دو ٹرمینل ہیں جبکہ ضرورت چار ٹرمینل کی ہے۔ یہ دونوں ٹرمینل سابقہ حکومت نے بنائے تھے۔ موجوہ حکومت تین سال ہوگئے ایک بھی نیاٹرمینل نہیں بنا سکی۔ جب تک زیادہ ٹرمینل نہیں بنیں گے ایل این جی کی درآمد بڑھانا ممکن نہیں ہوگا اورگیس کی قلت برقرار رہے گی۔ نئے ٹرمینل ہی کافی نہیں ہیں۔ ٹرمینل سے گیس ملک کے دیگر حصوں تک پہنچانے کیلیے نئی بڑی پائپ لائن درکار ہے۔

رُوس ایک مشترکہ منصوبہ کے طور پر پورٹ قاسم سے لاہور تک نئی پائپ لائن بچھانا چاہتا ہے۔ حکومت اس کام کو شروع کرنے میں بھی لیت و لعل سے کام لے رہی ہے۔ مخصوص مفادات کی حامل لابیاں، اعلیٰ افسران رُوس کے ساتھ مشترکہ منصوبہ شروع کرنے میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔ ملک میں ساٹھ ستّر لاکھ گھریلو صارفین برسوں سے گیس ملنے کے منتظر ہیں۔ ایل این جی کے دو نئے ٹرمینل اور پائپ لائن ملک کی اشد، فوری ضرورت ہیں۔ انکی حکومت پہلے ہی اس کام میں خاصی تاخیر کرچکی ہے۔ اگر وزیراعظم عمران خان سمجھیں تو گیس کی قلّت ختم کرنامعیشت کے ساتھ ساتھ انکی سیاست کیلیے بھی بہت سُود مند ہوگا۔