گزشتہ دنوں پاکستان پوسٹ آفس نے پاکستان اور جرمنی کے ستّر سالہ تعلقات کی سالگرہ کے موقع پر ستّر روپے کا ایک یادگاری سکّہ جاری کیا۔ دو ملکوں کے باہمی رشتے پر خوشی کے اظہار کا یہ ایک خوبصورت طریقہ ہے۔ جرمنی معاشی اعتبار سے دنیا کا ایک بڑا ملک، سافٹ سپر پاور ہے جو ہمارے لیے ایک ماڈل بن سکتا ہے۔
جرمنی تقریباً ساڑھے آٹھ کروڑ آبادی پر مشتمل ہے۔ برلن اسکا دارالحکومت ہے۔ مجموعی داخلی پیداوار (جی ڈی پی) پونے چارہزار ارب ڈالر سے کچھ زیادہ ہے۔ امریکہ، چین، جاپان کے بعد یہ دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ہے۔ برّاعظم یورپ کا صنعتی طور پر سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک۔ فرانس اور برطانیہ بھی دولت (مجموعی داخلی پیداوار) کے پیمانہ پر جرمنی سے بہت پیچھے ہیں۔ گزشتہ برس جرمنی کی برآمدات پونے چودہ سو ارب ڈالر تھیں۔ جرمنی دنیا کو اعلیٰ معیار کی کاریں، چھوٹی بڑی مشینری، کیمیکلز، الیکٹرک سامان فروخت کرتا ہے۔ میڈیکل ٹیکنالوجی شمسی توانائی کی ٹیکنالوجی میں بھی بہت ترقی یافتہ ہے۔
جرمنی کے تعلیمی اور معاشی ماڈل میں پاکستان کیلیے کئی سبق پوشیدہ ہیں بشرطیکہ ہم سیکھنا چاہیں۔ ایک لچکدار ووکیشنل(فنی) تعلیمی نظام کامیاب جرمن معیشت کی بنیاد ہے۔ جب کوئی طالبعلم کسی فنی اسکول میں داخلہ لیتا ہے تو وہ تعلیمی ادارے کے ساتھ ساتھ کسی کمپنی میں بھی تربیت حاصل کرتا ہے۔ اپرنٹس ہوجاتا ہے۔ اسطرح اسکولوں اور کاروباری کمپنیوں کے درمیان گہرا رشتہ قائم ہے۔ حصولِ تعلیم کا یہ عملی طریقہ جرمنی کی بڑی طاقت ہے۔ اس نظام کے نتیجہ میں تیار ہونیوالے محنت کش، تعلیم یافتہ کارکنوں نے اس ملک کو دنیا کی سافٹ پاور بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اِسکی کامیاب معیشت کا راز اسکی درمیانی اور چھوٹے پیمانے کی صنعتیں اور کاروبار ہیں جنہیں عرف عام میں ایس ایم ایز کہا جاتا ہے۔
نوّے فیصد سے زیاددہ جرمن کمپنیاں درمیانے یا چھوٹے سائز کی ہیں۔ ننانوے فیصد روزگار ایس ایم ایزمہیا کرتی ہیں۔ ملک کے تقریباً تمام پیٹنٹ (اختراعی حقوق)ایس ایم ایز سے جنم لیتے ہیں۔ ملک کے اسیّ فیصد نوجوان کارکن ان چھوٹی کمپنیوں میں ابتدائی تربیت پاتے ہیں۔ بعد میں ساری دنیا میں پھیل جاتے ہیں۔ جرمنی صنعتی میدان میں تحقیق اور ایجاد پر بھاری سرمایہ کاری کرتا ہے۔ تین برس پہلے اس کے تحقیق و ترقی (آر اینڈ ڈی) کا تخمینہ دس ارب ڈالر تھا۔ تعجب نہیں کہ دنیا میں جرمنی کے برانڈز کو طلائی معیار سمجھا جاتا ہے۔ جرمن معیشت سوشل مارکیٹ کے نظریہ پر قائم کی گئی ہے۔ جسکی ابتدا 1949میں ہوئی تھی۔ اس ماڈل میں سرمایہ داری نظام اور آزاد منڈی کے ساتھ ساتھ حکومت سماجی تحفظ و بہبود کی پالیسیاں بنا کر عوام کوخدمات مہیا کرتی ہے۔ حکومت اجارہ داریاں، کارٹل بننے سے روکنے کے لئے سخت ریگولیشن نافذکرتی ہے۔ مرکزی بنک ایک آزاد اور خود مختار ادارہ کے طور پر کام کرتا ہے اور قیمتوں کو مستحکم کرنے کیلئے مالیاتی پالیسی تشکیل دیتا ہے۔
جرمنی کے عروج کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ وہ اب امریکی سامراج سے اپنی قربت قدرے کم کررہا ہے۔ وہ امریکہ کی سربراہی میں قائم نیٹو فوجی اتحاد کا رُکن تو ہے لیکن برلن نے متعدد طویل مدتی اہمیت کے فیصلے واشنگٹن کی مرضی کے برعکس، آزاد حیثیت میں کیے ہیں۔ اسکی تزویراتی خود مختاری دیکھتے ہوئے امریکہ نے اس ملک میں قائم اپنے کئی فوجی اڈے بند کردیے اور انہیں پولینڈ منتقل کردیا ہے۔ جرمن چانسلر انگلا مرکل اور سابق امریکی صدر ٹرمپ کے درمیان تعلقات خاصے تلخ تھے۔ انکے دور میں انگلا مرکل نے کیمپ ڈیوڈ(امریکہ) میں ہونے والے سات امیر ترین ملکوں (جی سیون) کے اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی۔ تاہم صدر بائیڈن جرمنی سے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ جرمن حکمرانوں نے رُوس اور پولینڈ سے ماضی کی دشمنی پس پشت ڈال کر اچھے تعلقات قائم کرنے کی پالیسی اختیار کی ہے۔
چانسلر ا نگلا مرکل کی حکومت نے امریکہ کی مخالفت کے باوجود رُوس سے قدرتی گیس حاصل کرنے کیلیے نارڈ اسٹریم(ٹُو) گیس پائپ لائن منصوبہ پر کام جاری رکھا۔ بارہ سو کلومیٹرطویل یہ پائپ لائن پولینڈ اور یوکرائن کے زمینی راستے کی بجائے بالٹک سمندر سے گزرتے ہوئے جرمنی پہنچتی ہے اور پچپن ارب کیوبک فٹ گیس یورپ کو سپلائی کرنے کی استعداد رکھتی ہے۔ اسی طرح جب رُوس نے یوکرائن کے ایک حصّہ پر قبضہ کیا توانہوں نے بات بڑھانے کی بجائے روس کے ساتھ معتدل، مفاہمتی روّیہ اختیار کیا۔ برلن نے یورپی یونین اور چین کے درمیان سرمایہ کاری کے ایک تاریخی معاہدہ کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ امریکہ نے چین کی بڑی آئی ٹی کمپنی ہوآوے پر پابندیاں لگائیں لیکن برلن نے اسے اپنے ملک میں فائیو جی نیٹ ورک مہیّا کرنے کی اجازت دی۔ چین اسوقت جرمنی کا سب سے بڑا تجارتی ساتھی، پارٹنرہے۔ بیجنگ بڑے پیمانے پرکاریں اور بھاری مشینری جرمنی سے خریدتا ہے۔ سروے بتاتے ہیں کہ جرمنوں کی اکثریت (دوتہائی) چاہتی ہے کہ انکا ملک امریکہ اور چین کے درمیا ن غیرجانبدار رہے۔
جرمنی کی بیس فیصد آبادی دیگر ممالک سے آنے والے تارکین ِوطن پر مشتمل ہے۔ یہاں پینتیس لاکھ ترک مستقل مقیم ہیں۔ پانچ، چھ برس پہلے جب شام کی خانہ جنگی کے باعث وہاں کے باشندوں نے بڑے پیمانے پر یورپ کی طرف ہجرت کی تو اکثر یورپی ملکوں نے اپنے دروازے ان پر بند کرلیے تھے لیکن جرمن چانسلر انگلا مرکل نے دس لاکھ سے زیادہ شامی مہاجرین کو اپنے ملک میں پناہ دی۔ انگلا مرکل کے پندرہ سالہ طویل اقتدار کی مدت ختم ہوگئی ہے۔
حالیہ الیکشن کے بعدچند ماہ بعد مخلوط حکومت تشکیل پائے گی جسکی ساخت اور طرزعمل سے جرمنی کے مستقبل کی پالیسی کا اندازہ ہوسکے گا۔ یہ بات بہرحال طے ہے کہ جرمنی عالمی اسٹیج پر ایک بڑا کھلاڑی ہے۔ پاکستان اپنی معاشی بحالی کیلیے جرمنی سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ ووکیشنل تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں تعاون کو فروغ دینے کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ جیسے چین کے عروج نے دنیا پر امریکی سامراج کی بالا دستی ختم کی ہے اسی طرح جرمنی کی مسلسل بڑھتی ہوئی معاشی طاقت بین الاقوامی تعلقات میں ایک نئے دور کی نوید ہے۔