پاکستانی سیاست ایسے ہے جیسے کوئی ورزشی مشین ٹریڈ مِل پر دوڑ رہا ہو۔ آدمی دوڑتا رہتا ہے لیکن اُسی جگہ پر، آگے نہیں بڑھتا۔ ہماری سیاست میں بھی ہر وقت سرگرمی، شورش برپا رہتی ہے لیکن اسکا ارتقاء نہیں ہوتا۔ ریاستی، جمہوری ادارے مضبوط نہیں ہوتے۔ ہم گول گول گھومتے رہتے ہیں۔ دائرہ میں سفر کرتے رہتے ہیں۔ اب پھر سیاسی جماعتوں میں محاذ آرائی زوروں پر ہے۔ الیکشن ہوئے دو سال ہوئے ہیں لیکن اپوزیشن منتخب حکومت کو رخصت کرنا چاہتی ہے۔ اسمبلیوں سے استعفے دیکر سیاسی بحران پیدا کرنا چاہتی ہے یا اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرکے سڑکوں پر احتجاج کے ذریعے حکومت کو مفلوج کرنا چاہتی ہے۔ پاکستان کی کوئی اپوزیشن ایسی نہیں رہی جس نے صبر و تحمل کے ساتھ حکومت کوپانچ سال کی آئینی مدت پورے کرنے دی ہو۔
دو ہزار اٹھارہ میں جب عمران خان نے وزارتِ عظمی کا منصب سنبھالا تو ملک معاشی طور پر دیوالیہ اور نادہندہ ہونے کے دہانہ پر تھا۔ زرمبادلہ کا شدید بحران تھا۔ مسلم لیگ(ن) کی حکومت اپنے پانچ سالہ دور میں اتنے زیادہ قرضے لیکر اور درآمدات کو اتنا بڑھا کر گئی تھی کہ بیرونی قرضوں کی بروقت ادائیگیوں اورضروری اشیاء کی درآمد کے لیے قومی خزانہ میں ڈالرز نہیں تھے۔ اگر ملک نادہندہ ہوجاتا تو پاکستانی روپیہ کاغذ کا پرزہ بن جاتا، اسکی قدر ایک چوتھائی بھی نہ رہتی۔ مہنگائی کا بڑا طوفان آتا۔ عمران خان نے اس بحران پر کامیابی سے قابو پایا۔ ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا۔ ماضی کے قرضے چکانے کے لیے دوست ملکوں سے آسان شرائط پر زرمبادلہ کا بندوبست کیا۔ عالمی مالیاتی فنڈز (آئی ایم ایف) سے معاہدہ کیا۔ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے بین الاقوامی اداروں کی تجاویز پر عمل کیا۔ درآمدات کو گھٹایا۔ پاکستانی روپے کو اسکی مارکیٹ ویلیو کے مطابق نیچے لائے۔ معاشی طور پر یہ مشکل ترین ترین سال تھا۔ ظاہر ہے اسکے منفی سیاسی اثرات بھی مرتب ہوئے۔ کڑوی دوا کسے پسند آتی ہے؟ نواز شریف کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ جب انکو حکومت ملتی ہے تو وہ ملکی وسائل سے بڑھ چڑھ کر کئی گنا زیادہ اخراجات کردیتے ہیں جس سے ایک جعلی اور ناپائیدار معاشی ترقی کا تاثر پیدا ہوتا ہے اور عوام میں انکی مقبولیت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ لیکن درآمدات بہت زیادہ بڑھا کر اور ملکی اثاثے گروی رکھ کر کتنے سال گزارے جاسکتے ہیں؟ آنے والی حکومت کو خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔
عمران خان کی حکومت ابھی اسی معاشی گرداب سے نکلنے کے جتن کررہی تھی کہ پاکستان سمیت پوری دنیا کورونا وباکی لپیٹ میں آگئی۔ دنیا میں جن چند ملکوں نے بہت کامیابی سے اس وبا کا مقابلہ کیا ہے ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ ہمارے ہمسائے میں ایران اور بھارت کا اس وبا سے بہت برا حال ہوا لیکن پاکستان کو اتنا نقصان نہیں اُٹھانا پڑا۔ اسکا کریڈٹ عمران خان کی حکومت کو جاتا ہے کہ اس نے وبا کو پھیلنے سے بھی روکا اور ملکی معیشت کو اتنا نقصان نہیں پہنچنے دیا جتنا دوسرے ملکوں کوپہنچا جیسے بھارت کو۔ تاہم بد ترین وبا سے معاشی ترقی کا عمل کچھ نہ کچھ تو متاثر ہونا ہی تھا۔ معاشی بحالی کا عمل اس طریقہ سے نہیں ہوسکا جسکا وبا سے پہلے اندازہ تھا۔ عمران خان کی حکومت کے پہلے دو برسوں میں پاکستان دو بدترین بحرانوں سے کامیابی سے نپٹ گیا۔ پہلے برس زرمبادلہ کی قلت، نادہندگی کا بحران اور دوسرے سال کورونا وبا۔ اب معاشی ترقی کے منصوبے شروع کیے جارہے ہیں۔ چین کے تعاون سے کراچی سے پشاور تک نئی ریلوے لائن سات ارب ڈالرسے بچھائی جارہی ہے جو ایک تاریخ ساز، انقلابی منصوبہ ہے۔ سکھر سے حیدرآباد تک موٹر وے کی تعمیر پر کام شروع ہوچکا ہے۔ پانی کے تین بڑے ڈیم بنائے جارہے ہیں، بھاشا، مہمند اور داسو۔ بجلی بنانے اور اسکی ترسیل بہتر کرنے کے دیگر منصوبوں پر بھی کام ہورہا ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں بڑی شاہراہیں تعمیر کی جارہی ہیں۔ فیصل آباد اور رشکئی میں صنعتی زون زیر تکمیل ہیں۔ کئی شہروں میں بڑے بڑے نئے ہسپتال تعمیر کیے جارہے ہیں۔ غرض ملک معاشی مندی سے نکل کر ترقی کی طرف سفر شروع کرچکا ہے۔ چند ماہ بعد پنجاب میں بلدیاتی الیکشن کرانے کا اعلان کیا جاچکا ہے۔ دنیا میں کوئی سیاستدان مسیحا نہیں ہوتا کہ پلک جھپکنے میں سارے مسائل حل کردے۔ یوں بھی پاکستانی قوم کا مزاج انقلابی نہیں ہے، ارتقائی ہے۔ یہ بتدریج آگے بڑھ سکتی ہے۔ یہاں یک دم بڑی تبدیلی نہیں آسکتی۔ لوگ روایت پسند ہیں۔ معاشرہ کی ساخت، مزاج قبائلی، جاگیردارانہ ہے۔ منتخب حکومت ہو یا فوجی حکومت کوئی ریڈیکل تبدیلی نہیں لاسکتی۔ اس ماحول میں ملک کی ہر خرابی کا الزام موجودہ حکومت کو دینا سخت ناانصافی ہے۔ البتہ جب یہ حکومت پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرلے تو اسکا حساب کتاب ہونا چاہیے کہ اسکی پالیسیوں سے ملک کوکیا فائدہ یا نقصان پہنچا۔
سیاسی عدم استحکام ہمیشہ سے پاکستان کا بڑا مسئلہ رہا ہے۔ شائد اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک نیا ملک ہے۔ یہاں کے سیاستدان اور حکمران طبقہ ناتجربہ کار ہیں۔ ان میں وہ سیاسی فہم و فراست نہیں جو قدیم ریاستوں کے حکمران طبقہ میں ہوتی ہے۔ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کی وجہ سے اس ملک کو ماضی میں شدید نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ افرا تفری اور غیریقینی ماحول میں معاشی ترقی بھی متاثر ہوتی ہے اور ریاستی اداروں میں اصلاحات کرنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ مثلاً جب سیاسی ہنگامہ آرائی کا ماحول ہو تو کوئی حکومت سوِل سروس یا پولیس میں اصلاحات کیسے کرسکتی ہے؟ وہ تو اپنی بقا کے لیے ان اداروں کو استعمال کرے گی۔ اگر اپوزیشن کامیاب ایجی ٹیشن کرلے اورموجودہ حکومت کو مفلوج کردے توبہت مشکل ہے کہ جمہوری، آئینی سفر جاری رہے۔ انقلاب تو آئے گا نہیں کیونکہ کوئی نظریاتی، انقلابی جماعت موجود نہیں، نہ انقلابی ورکرز ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ موجودہ آئینی نظام جیسا بھی ہے اسے چلنے دیا جائے، اس میں بتدریج بہتری کی کوششیں کی جائیں۔ خرابیاں تو اس میں بہت ہیں لیکن وہ نظام سے زیادہ ہمارے کلچر کی کمزوریاں ہیں۔ بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ موجودہ سسٹم لپیٹ دیا جائے توایک دم بہت بہتری آجائے گی۔ پارلیمانی طرز ِحکومت ہو یا صدارتی یا مارشل لاء اُسے چلانا تو اِنہی لوگوں نے ہے۔ نئے نظام کو چلانے کے لیے فرشتے تو نازل نہیں ہونگے۔ ایک جاگیردارانہ، قبائلی معاشرت میں رچے بسے لوگوں کے ہاتھ میں جو بھی سسٹم دے دیں وہ اسکا یہی حال کریں گے جو اس وقت ہے۔ موجودہ آئینی بندوبست جاری رہنے سے کم سے کم ایک تسلسل تو قائم ہے۔ عالمی برادری بھی قدرے مطمئن ہے۔