گورننس کا مفہوم ہے کہ حکومت کے مختلف ادارے کس طرح اپنے اپنے کام انجام دے رہے ہیں، سیاسی نظام کن قواعد کے تحت چلایا جارہا ہے۔ پاکستان میں اکثر کہا جاتا ہے کہ گورننس کا حال بہت خراب ہے۔ مراد یہ ہوتی ہے کہ حکومتی معاملات میں بدانتظامی ہے، قومی امور پر غلط فیصلے لیے جاتے ہیں، قاعدہ قانون کی بجائے سفارش اور کرپشن کا دور دورہ ہے۔ میرٹ کو نظر اندازکیا جارہا ہے۔ سرکاری ادارے وہ کام انجام نہیں دے رہے جن کے لیے انہیں بنایا گیا ہے۔ حکومت عوام کووہ خدمات مہیا نہیں کرپارہی جو اسکے فرائض میں شامل ہے۔
حکومتی کارکردگی پر ایک طویل نوحہ پڑھا جاتا ہے۔ جب خراب گورننس کا شکوہ کیا جاتا ہے تو سیاستدان الزام لگاتے ہیں کہ بیوروکریسی انہیں کام نہیں کرنے دیتی۔ انکی بات نہیں مانتی۔ ہر کام میں رولز کا بہانہ کرکے روڑے اٹکاتی ہے۔ انکے بتائے ہوئے کاموں میں رکاوٹ ڈالتی ہے۔ سرکاری افسر رشوت خور ہیں، کام چور ہیں۔ اعلی سرکاری افسروں کا موقف ہے کہ ارکانِ پارلیمان کا کام صرف قانون سازی ہے، لیکن وہ انتظامی امور میں مداخلت کرتے ہیں۔ انہیں قاعدہ، قانون کے خلاف کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
یہی خرابی کی جڑ ہے۔ سیاستدان دباؤ ڈال کر اہم عہدوں پر بدعنوان افسروں کا تقرر کرواتے ہیں جس سے رشوت خوری میں اضافہ ہوتا ہے، نااہل سرکاری اہلکاربدا نتظامی کا باعث بنتے ہیں۔ لاقانونیت پھیلتی ہے۔ اچھے افسران کھڈے لائن لگے رہتے ہیں۔ جو افسرحکومت میں شامل سیاستدانوں کے جائز و ناجائز کام کرتے رہیں انہیں اچھے عہدوں پر تعینات کیا جاتا ہے۔
سرکاری کاروباری اداروں جیسے ریلوے، پی آئی اے وغیرہ میں سیاستدانوں نے ضرورت سے زیادہ اور میرٹ کے بغیر اتنے نالائق، نکمے لوگ بھرتی کیے کہ انکا بیڑہ غرق ہوگیا۔ کرپٹ سیاستدانوں اور بدعنوان سرکاری افسروں کا گٹھ جوڑہے جس نے گورننس کا ستیا ناس کردیا ہے۔
اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ جنرل ایوب خان کے زمانہ تک پاکستان میں گورننس کے حالات اتنے خراب نہیں تھے جتنے آج ہیں۔ اُس دور کو اچھے الفاظ میں یادکیا جاتا ہے۔ یہ امن و امان اور تیز معاشی ترقی کا زمانہ سمجھا جاتا ہے۔ میری رائے میں گورننس کی موجودہ اَبتر صورتحال کی ایک سے زیادہ وجوہات ہیں۔ ان میں ایک بڑی وجہ انتظامی امور میں سیاسی مداخلت کا بڑھ جانا ہے۔ ایوب خان کے دور تک اس زمانہ میں انتظامیہ میں سیاستدانوں کی مداخلت بہت کم تھی۔ ضلع کا ڈپٹی کمشنر اور سپرنٹنڈنٹ پولیس طاقتور تھے۔ عام طور سے میرٹ اور قانون کی حکمرانی تھی۔ رشوت خوری کم تھی۔ اس نظام کے بخوبی چلنے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ برطانوی عہد میں میرٹ کی بنیاد پرقائم کیے جانے والا سول سروس کا نظام کام کررہا تھا۔
مقابلہ کا امتحان پاس کرکے آنے والے سی ایس پی افسر وں کو آئینی تحفظ حاصل تھا۔ حکومت میں شامل سیاستدان یا ارکانِ پارلیمان اعلی سرکاری افسروں پر دباؤ ڈالنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ ان سی ایس پی افسران سے یہ شکایت تو ہوسکتی تھی کہ وہ عوام سے الگ تھلگ رہتے تھے لیکن وہ عام طور سے نااہل اور کرپٹ نہیں تھے۔ ان میں ایسے قابل لوگ تھے جنہوں نے نو زائیدہ پاکستان کی تعمیر کی۔ اسلام آباد اور جوہر آباد ایسے نئے شہر تعمیر کیے۔ گلبرگ لاہور اور کراچی میں متعددخوبصورت رہائشی بستیاں بنائیں۔ پانی کے بڑے ڈیم بنائے گئے۔ پاکستان انٹرنیشل ائیرلائینز بنائی جو دنیا کی بہترین کمرشل فضائیہ بنی۔ پاکستان ائیر فورس تشکیل دی گئی۔ زیرو سے شروع ہونے والے ملک میں اتنی تیز رفتار ترقی ہوئی کہ دنیا میں اسکی مثال دی جاتی تھی۔ جنوبی کوریا، سنگاپور جو اب ہم سے بہت زیادہ ترقی یافتہ ہیں اسوقت پاکستان سے بہت پیچھے اور پسماندہ تھے۔
میرٹ اوراہلیت پر مبنی پاکستان کے سول سروس کے نظام کوجنرل ایوب خان کی حکومت کے بعد مسلسل کمزور کیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سول سروس سے قانونی تحفظ چھین لیا۔ سرکاری محکموں میں سیاسی مداخلت کے دروازے کھول دیے۔ سرکاری افسر سیاسی حکمرانوں کی خواہشات کی تعمیل کے تابع ہوگئے۔ اسکے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ آج کو ئی سول ادار ہ اپنا کام ٹھیک سے کرنے کے قابل نہیں۔ پہلے جومسئلہ ڈپٹی کمشنر اور سپرنٹنڈنٹ پولیس کی سطح پر حل ہوجایا کرتا تھا اب اس کو سلجھانے کے لیے وزیراعلی، وزیراعظم اور اعلی عدالتوں کو مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ سویلین اداروں کی تباہی کا نتیجہ ہے کہ اب کچھ عرصہ سے چھوٹے چھوٹے مسائل کے حل کے لیے فوج طلب کرنا پڑتی ہے۔ کراچی میں امن بحال کرنے کے لیے فوجی جنرل کی قیادت میں رینجرز کو آپریشن کرنا پڑا۔ کراچی کے نالوں کی صفائی کے لیے بھی فوج اور رینجرزکی نگرانی میں نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور فرنٹئیر ورکس آرگنائزیشن کو کام کرنا پڑا۔ سوِل انتظامیہ کی حالت یہ ہے کہ گزشتہ دو سال میں سیاسی مصلحتوں کی خاطر پنجاب میں پانچ مرتبہ انسپکٹر جنرل آف پولیس تبدیل کیے گئے۔
جب تک سویلین اداروں کو سیاسی مداخلت سے پاک نہیں کیا جائے گا ملک میں گورننس کا حال خراب رہے گا۔ پاکستان کی گورننس کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ سول سروس کے ارکان کو وہ آئینی تحفظ دیا جائے جو اسے جنرل ایوب خان کے دور تک حاصل تھا تاکہ انتظامیہ میں بے جا سیاسی مداخلت کا راستہ بند کیا جاسکے۔ ارکان ِاسمبلی قانون بنائیں، منتخب حکومت پالیسی بنائے لیکن انتظامیہ کے کام کاج میں سیاسی مداخلت نہ کرے۔ سیاستدان سرکاری افسروں کی تعیناتی اور تبادلہ میں دخل اندازی نہ کریں۔
منتخب ارکان اسمبلی اور وزراء کے پاس اتنی طاقت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ افسروں کو زبانی احکام دیکر قاعدہ قانون کی خلاف ورزی پر مجبور کرسکیں یا اپنی پسند کے کرپٹ افسروں سے گٹھ جوڑ کرکے قومی خزانہ کی لوٹ مار کرسکیں، اربوں، کھربوں کے ٹھیکے پسند کے ٹھیکیداروں کو دے سکیں۔ سرکاری اداروں میں میرٹ اور قابلیت کی بنیاد پر بھرتیاں کرکے، اُنہیں قانون ا ور قواعد کے مطابق چلا کر قانون کی حکمرانی قائم کی جائے۔ صوبہ کے چیف سیکرٹری اور پولیس کے سربراہ انسپکٹر جنرل کے عہدوں کو آئینی عہدے بنایا جائے۔ سیاسی حکومت ایک بار جب ان عہدوں پر تقرر کردے تو تین سال تک انہیں ہٹایا نہ جاسکے۔ اگر ان پر کسی غیرقانونی کام میں ملوث ہونے کا الزام ہو تو صوبائی اسمبلی دو تہائی اکثریت سے قرارداد منظور کرکے انہیں ہٹائے۔ ہماری بقا اس میں ہے کہ جیسے پاک فوج قاعدہ، قانون اور نظم و ضبط کے تحت کام کرنے والا ایک موثر ادارہ ہے اسی طرح سول انتظامیہ کو بھی مضبوط اور مؤثر ادارہ بنایا جائے۔