بچوں کی نامکمل اور ناقص نشوونما پاکستان کا ایک سنگین مسئلہ ہے۔ ہمارا ملک دنیا کے ان تین ملکوں میں شامل ہے جہاں لاغرنمو والے بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اعداد و شمار دل دہلادینے والے ہیں۔ پانچ برس عمرکے چالیس فیصدبچوں کے جسم اور دماغ کی نشوونما پوری طرح نہیں ہوتی، ناقص رہ جاتی ہے۔ اسکی دو بڑی وجوہ ہیں متوازن خوراک کی کمی اور پیٹ کے کیڑے۔ غربت کے باعث اکثر ماں باپ اپنے بچوں کو اچھی غذا جیسے دودھ، پنیر، انڈہ وغیرہ مہیا نہیں کرسکتے بلکہ تین وقت پیٹ بھر کے موٹا جھوٹا کھانا بھی نہیں کھلا سکتے۔ وہ بیمار ہوں تو انکا مناسب علاج معالجہ نہیں کراسکتے۔ سرکاری اعداد و شمارکے مطابق ہمارے ملک میں تقریباً تیس فیصد چھوٹے بچے لاغر پن کی وجہ سے وزن کی کمی کا شکار ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں خوفِ خدا رکھنے والے لوگ رہتے ہوں ایسی خوفناک صورتحال نہیں ہونی چاہیے۔ کیا بحیثیت مسلمان ہمیں اپنے چاروں طرف پھیلی بھوک، بیماری کیلیے اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ نہیں ہونا ہوگا؟
وزیراعظم عمران خان کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے قوم سے اپنے پہلے ہی خطاب میں پاکستانی بچوں کی لاغر نشوونما کا ذکر کیا اور اس معاملہ کو قومی ایجنڈے پر نمایاں کیا۔ جب ملک کا وزیراعظم کسی مسئلہ کی طرف توجہ دلاتا ہے تو پوری قوم کو اسکی اہمیت کا کچھ اندازہ ہوجاتا ہے۔ گزشتہ برس وفاقی حکومت نے بچوں کی ناقص نشوونما کے معاملہ سے نپٹنے کیلیے ایک ادارہ بھی تشکیل دیا جسکا نام ہے پاکستان نیشنل نیوٹریشن کوآرڈینیشن کونسل (قومی غذائی رابطہ کونسل)۔ اسکی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کی نامکمل نشوونما کے معاملہ سے نپٹنے کیلیے طریقے تجویز کرے اور ایک حکمت عملی تشکیل دے جس پر تمام صوبے بھی عمل کرسکیں۔ تین برس پہلے ملک بھر میں غذائیت کے بارے میں ایک سروے کیا گیا تھا جس سے پتہ چلا کہ ملک میں چودہ فیصد نوجوان لڑکیاں، عورتیں بھی شدید غذائی کمی کا شکار ہیں۔ یہ عورتیں جب مائیں بنتی ہیں تو انکے ہاں کمزور بچے پیدا ہوتے ہیں جنکی نشوونما مکمل نہیں ہوتی۔ تھر میں بڑی تعداد میں کم سِن بچوں کے مرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ انہیں نحیف و نزار مائیں جنم دیتی ہیں۔ گزشتہ برس اگست وفاقی حکومت نے احساس نشوونما پروگرام شروع کیا تھا جسکے تحت پچاس مراکز قائم کیے گئے جو چودہ ضلعوں میں دودھ پلانے والی ماؤں اور دو برس تک کے بچوں کیلیے نقدمالی امداد فراہم کرتے ہیں۔ اب حکومت اس پروگرام کا دائرہ سارے ملک میں پھیلانے پر کام کررہی ہے۔
بچوں کی اَدھوری نشوونما کا معاملہ غذائی کمی کے ساتھ ساتھ پیٹ میں کیڑوں سے ہونے والی بیماری، انفیکشن سے بھی تعلق رکھتا ہے۔ اگر مناسب وقت پر اس بیماری کی تشخیص نہ کرلی جائے اور اسکا علاج نہ کیا جائے تومتاثرہ بچہ میں خون کی کمی ہوجاتی ہے۔ چونکہ غذا جزو ِبدن نہیں بنتی، متاثرہ بچہ کی نشوونماناقص رہ جاتی ہے۔ اسکا جسم اور دماغ پورے طور پر نمو نہیں پاتے۔ ظاہر ہے ایسے بچے کی تعلیم حاصل کرنے کی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے۔ جب وہ بڑا ہوتا ہے تو لاغر بدن کی وجہ سے روزگار کمانے کی استعداد کم ہوتی ہے۔ بعض لوگوں کو اس مرض سے آگاہی ہے۔ یہ لوگ اپنے طور پر اپنے بچوں کو اس انفیکشن سے محفوظ رکھنے کیلیے علاج معالجہ بھی کروالیتے ہیں لیکن یہ بیماری بڑے پیمانے پرنقصان پہنچا رہی ہے۔ اس سے نپٹنے کیلیے ویکسی نیشن کی طرح وسیع مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں پونے دو کروڑ بچے اس مرض کا شکار ہیں۔ برسوں پہلے کینیا میں بھی یہ بیماری عام تھی۔ بیس برس پہلے وہاں ماہرین نے تحقیق کی اور اس مرض کو ختم کرنے کیلیے بڑے پیمانے پر بچوں کو کیڑے ختم کرنے کی ادویات کااستعمال کروایا گیا۔ تحقیق سے پتہ چلا کہ جن بچوں کو ادویات استعمال کروائی گئیں انکی نشوونما بہت بہتر ہوئی اور صحت مند ہونے والے بچوں کی اسکولوں سے غیر حاضری بہت کم رہ گئی۔
پاکستان کو کینیا ایسے ملکوں کے تجربہ سے بہت پہلے فائدہ اُٹھانا چاہیے تھالیکن ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات الگ قسم کی ہیں۔ سیاسی ملاکھڑے، نوٹنکیاں ختم نہیں ہوپاتے جو عوام کے اصل مسائل کی جانب توجہ دی جائے۔ خیر، اللہ اللہ کرکے دو سال پہلے ہماری وفاقی حکومت کو اس مسئلہ کی سنگینی کا کچھ احساس ہوگیا۔ وفاقی حکومت نے اسلام آباد کی حدود میں بچوں کو آنتوں کی اس بیماری سے محفوظ کرنے کیلیے مفت دوا دینے کا ایک تجرباتی منصوبہ شروع کیا۔ قومی نیو ٹریشن کونسل کی ایک تجویز یہ ہے کہ اسکولوں میں پڑھنے والے چھوٹے بچوں میں آنتوں کی بیماری کی تشخیص کا نظام بنایا جائے اور اسکولوں میں ہی متاثرہ بچوں کودوا پلائی جائے۔ گزشتہ دو برسوں میں یہ مہم محدود پیمانے پر ملک کے کچھ حصوں میں چلا کر اسکولوں اور مدرسوں میں تیس لاکھ بچوں کو پیٹ کے کیڑوں کی دوا مفت پلائی گئی۔ کورونا وبا کے دوران میں اس مہم کو روکنا پڑا کیونکہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی توجہ اور بیشتر وسائل وبا کو کنٹرول کرنے پر لگ گئے۔ اب حکومت کا پروگرام ہے کہ سارے ملک میں پرائمری اسکولوں کے ڈیڑھ کروڑ بچوں کو پیٹ کے کیڑے ختم کرنے کی دوا پلائی جائے گی۔
بچوں کی نشوونما کو بہتر بنانے کیلیے حکومت کے منصوبے اپنی جگہ لیکن یہ کام صرف حکومت نہیں کرسکتی۔ نہ محض حکومت پر چھوڑنا چاہیے۔ معاشرے کے صاحبِ حیثیت افراد کا بھی فرض ہے کہ وہ اس کام میں شریک ہوں۔ اگر خوشحال، ثروت مند لوگ انفرادی طور پر اور چھوٹی چھوٹی تنظیمیں بنا کر اسکولوں کے ذریعے ضرورت مند بچوں کو ہفتہ میں ایک دو بار دودھ اورکھانا فراہم کرسکیں تو صورتحال میں بہت بہتری آسکتی ہے۔ ایک کاروباری ادارہ کسی ایک اسکو ل کی ذمہ داری سنبھال لے لاکھوں مستحق بچوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ بچوں کی جسمانی اور دماغی نشوونما کے مسائل کم ہوسکتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا تو چھوڑیے یہ ادھورے بچے تو ہنر مند مزدور بھی نہیں بن سکتے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ کوئی ایسا معاشرہ ترقی یافتہ دنیا کا کیسے مقابلہ کرسکتا ہے جہاں چالیس فیصد بچوں کی مکمل نشوونما ہی نہ ہورہی ہو۔