پاکستان کو صرف کرپشن ہی نے نقصان نہیں پہنچایا ہماری اشرافیہ اور سیاسی طبقہ کی ہوسِ اقتدار نے بھی اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کی ہیں۔ اسے مستحکم اور مضبوط نہیں ہونے دیا۔ کوئی سیاسی نظام بننے نہیں دیا۔ اس کھیل میں سیاستدان اور ریاستی ادارے سب برابر کے شریک رہے۔ اسوقت بھی ملک میں سیاسی محاذآرائی اور عدم استحکام ہے۔ افراتفری اور انتشار کی فضا ہے۔ بہت حد تک ہمارے ملک میں جمہوری نظام کی کمزوری کا ایک سبب یہ ہے کہ سیاسی اشرافیہ میں اقتدار کی بھوک اتنی زیادہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرسکتے۔ جب تک فوج اقتدار نہیں سنبھالتی، مخالف سیاستدان جانوروں کی طرح ایک دوسرے کو ٹکریں مارتے رہتے ہیں، ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف رہتے ہیں۔ افسر شاہی اور ریاستی ادارے سویلین حکومت کی راہ میں کانٹے بچھاتے رہتے ہیں۔ ایک جمہوری نظام کو چلانے کے لئے جس صبر وتحمل، برداشت، اور دانشمندی کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہمارے ہاں مفقودہیں۔ آج سے نہیں، جب سے قائداعظم محمد علی جناح کی رحلت ہوئی اقتدار کی خاطر مختلف گروہ ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں۔
انیس سو پچاس کی دہائی میں سول سروس کا غلبہ تھا۔ سرکاری افسر برطانوی نظام کے تربیت یافتہ تھے۔ قابل منتظم تھے، مالی طور پر دیانتدار تھے، ملکی ترقی کے لیے اچھے کام کررہے تھے لیکن اقتدار پراپنی گرفت رکھنا چاہتے تھے۔ منتخب نمائندوں کو حکومت نہیں دینا چاہتے تھے بلکہ شریک اقتدار بھی نہیں کرنا چاہتے تھے۔ دو بیوروکریٹس غلام محمد اور اسکندر مرزا نے پورے نظام کو اپنا یرغمال بنائے رکھا۔ کبھی ایک سیاستدان کو وزیراعظم بناتے کبھی دوسرے کو۔ خواجہ ناظم الدین۔ محمد علی بوگرہ۔ چودھری محمد علی۔ آئی آئی چندریگر۔ حسین شہید سہروردی۔ فیروز خان نون کو باری باری وزیراعظم بنایا گیا لیکن کسی کوجم کر کام نہیں کرنے دیا۔ ملک کا کوئی آئین اور قانون نہیں بننے دیا۔ منتخب اسمبلی کو معطل کیا۔ انیس سو چھپن کے آئین کو پامال کیا۔ اسکندر مرزا کی ریشہ دوانیوں نے جنرل ایوب خان کے مارشل لا کی راہ ہموار کی۔ جب ایوب خان نے مارشل لا نافذ کیا تو قائداعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح نے اسکا خیر مقدم کیا اور کہا کہ اچھا ہوا کہ اسکندر مرزا سے نجات ملی۔ یہی حال پنجاب میں تھا جہاں ممتاز دولتانہ نے افتخار ممدوٹ کی وزارتِ اعلی سے ہٹانے کے لئے سازشوں کا بازار گرم کیا ہوا تھا۔ ملک نیا نیا بنا تھا۔ لاکھوں مہاجرین کی آباد کاری کا مسئلہ درپیش تھا۔ معاشی بدحالی تھی۔ کشمیر میں جنگ ہورہی تھی۔ لیکن ہمارے بزرگ مسلم لیگی سیاستدان ملک کو مستحکم کرنے کی بجائے کرسی کے لالچ میں ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے۔ یہاں تک ہوا کہ خواجہ ناظم الدین کی وزارت عظمیٰ کو کمزور کرنے کے لیے پنجاب میں مذہبی فسادات کرائے گئے جس کے باعث لاہور میں امن و امان کی بحالی کے لئے پہلا جزوی مارشل لا لگایا گیا۔ لوگ کہتے ہیں پرانے سیاستدان ایماندار تھے۔ انکی ایمانداری کو چاٹنا ہے جب اقتدار کے لالچ میں وہ ملک سے کھلواڑ کرتے رہے۔
جمہوری نظام کی بقا اور تسلسل کے لیے لازمی ہے کہ انتخابات کا عمل ایسا صاف ستھرا، منصفانہ ہو جس پر سیاسی جماعتوں اور عوام کی اکثریت کو اعتماد ہو۔ پاکستان بننے کے بعد سے جب بھی انتخابات ہوئے تو ہر الیکشن میں سخت دھاندلی کا الزام لگتا رہا ماسوائے انیس سو ستر کے عام انتخابات لیکن انکے نتائج بھی تسلیم نہیں کیے گئے اور اقتدارعام انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت عوامی لیگ کو نہیں سونپا گیا۔ حتی کہ اس منتخب اسمبلی کا اجلاس تک نہیں بلایا گیا۔ آج پیپلزپارٹی جمہوریت کی بڑی چیمپئن بنی ہوئی ہے۔ اسکے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے انیس سو ستر کے الیکشن نتائج آنے کے بعد سر عام اعلان کیا تھا کہ مغربی پاکستان کا جو رُکن ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں حلف اٹھانے کیلیے گیا تو وہ اسکی ٹانگیں توڑ دیں گے۔ بھٹو پارلیمان کے اجلاس سے پہلے عوامی لیگ کے مجیب الرحمن سے شراکت اقتدار پر سودے بازی کرنا چاہتے تھے۔ جب الیکشن نتائج کو مسترد کرکے اس وقت مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدر جنرل یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی شروع کی تو بھٹو نے اسکا خیر مقدم کیا اور کہا کہ پاکستان کو بچا لیا گیا ہے۔ بھٹو کو معلوم تھا کہ اگر ملک متحد رہا تو مشرقی پاکستان کی اکثریت رہے گی اور وہ کبھی وزیراعظم نہیں بن سکیں گے۔ وہ جان بوجھ کر ڈرامہ بازی کرتے رہے تاکہ مشرقی پاکستان الگ ہوجائے اور بچے کچھے پاکستان میں انکے اقتدار کی راہ ہموار ہوجائے۔ ایسا ہی ہوا۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا اور مغربی پاکستان میں بھٹو وزیراعظم بن گئے۔ جنرل یحییٰ خان ملک ٹوٹنے کے باوجود اس بات پر مصر تھے کہ انہیں صدر کے عہدہ پر رہنے دیا جائے۔
ملک ٹوٹ گیا لیکن ہمارے سیاستدانوں اور سول و فوجی مقتدرہ کی ہوس اقتدار اور آمرانہ روّیوں میں کمی نہیں آئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے انیس سو تہتر کا آئین پارلیمان سے تقریباًمتفقہ طور پر منظور کرایا لیکن اسکے فوراًبعد اس میں یکطرفہ ترامیم کرکے اسکا حلیہ بگاڑ دیا۔ اپوزیشن لیڈروں کو جیل میں ڈال دیا۔ اپنی پارٹی کے مخلص ساتھیوں کو نظربند کردیا۔ اپوزیشن جماعتوں کے جلسوں پر حملے کروائے جن میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔ دوسری طرف، ولی خان، انکے قریبی ساتھی اور بعض بلوچ لیڈر افغانستان اور بھارت کی مدد سے پرتشدد تحریک چلاتے رہے تاکہ بچے کھچے ملک کو مزید ٹکڑے ٹکڑے کیا جائے۔ انیس سو تہتر کے الیکشن میں بھٹو حکومت نے بڑے پیمانے پر دھاندلی کی جس کے نتیجہ میں انکے خلاف ایجی ٹیشن چلا۔ چند برس تک ولی خان اور اصغر خان(ریٹائرڈ ائیر مارشل) نے جنرل ضیاالحق سے تعاون کیا۔ ولی خان بھٹو دشمنی میں تعاون کرتے رہے اور اصغر خان وزیراعظم بننے کی امید میں۔ جب بھٹو کو پھانسی ہوگئی تو ولی خان اور اصغر خان کی جماعتوں نے جمہوریت کی بحالی کے نام پر اسی پیپلزپارٹی کے ساتھ اتحاد کرلیا جس کی حکومت کو انہوں نے پُرتشدد تحریک چلا کر ختم کیا تھا۔ یہی اصغر خان بھٹو کو کوہالہ کے پُل پر پھانسی دینا چاہتے تھے اور بے نظیر کے خلاف سخت بیانات دیا کرتے تھے لیکن انیس سو ترانوے کے الیکشن میں پیپلزپارٹی کے اتحادی بن گئے۔
پیپلزپارٹی کی مدد سے لاہور میں الیکشن لڑا۔ انیس سو اٹھاسی سے انیس سو نناوے تک بے نظیر بھٹو اور نوازشریف ریاستی اداروں کے ساتھ ملکر ایک دوسرے کی حکومتیں گراتے رہے۔ اتنا سیاسی عدم استحکام رہا کہ ملک کی معیشت تباہ ہوگئی اور کرپشن کے بڑے بڑے ریکارڈز قائم ہوئے۔ جنرل پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو ان دونوں لیڈروں نے اپنے جھگڑے ختم کرکے ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کرلیا۔ ہماری سیاسی جماعتوں اور رہنماوں کا کوئی اصول ہے نہ نظریہ۔ مطمعِ نظر صرف اقتدار اور کرسی ہے۔ اب ایک بار پھر یہی کھیل جاری ہے۔ پہلے نوازشریف سے پانچ سال پورے نہیں ہوئے۔ انکے خلاف ایجی ٹیشن ہوئی۔ دھرنے دئیے گئے۔ اب نواز شریف کی پارٹی اورپیپلزپارٹی وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو اسکی پانچ سالہ معیاد سے پہلے ہٹانے کے درپے ہیں۔ یہ دائروں کا سفر ہے۔