آزاد جموں کشمیر کے پچیس جولائی کو ہونے والے الیکشن کی مہم زوروں پر ہے۔ اس انتخابی مہم میں لگ بھگ وہ تمام عناصر موجود ہیں جو پاکستان کے عام انتخابات کا خاصہ ہیں یعنی امیدواروں کی جانب سے دولت کابے تحاشا استعمال، برادریوں کی بنیاد پر ووٹروں کی تقسیم، مقامی دھڑے بندیاں۔ آزاد کشمیر کی انتخابی مہم ایسے وقت چلائی جارہی ہے جب سینٹ کی ایک قائمہ کمیٹی پاکستان کے الیکشن قانون میں ترامیم پر غور کررہی ہے۔ اس مہم میں اُجاگر ہونے والی خامیاں کمیٹی کے ارکان کے لیے ایک یاد دہانی ہیں کہ ہمارا انتخابی نظام کن خرابیوں کا شکار ہے اور اس میں کس قسم کی بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ سینٹ کمیٹی میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان موجود ہیں۔ بظاہر کوشش کی جارہی ہے کہ تمام جماعتیں اپنے اختلافات ختم کرکے کسی متفقہ مسودہ ٔقانون پر اتفاق کرلیں جس سے الیکشن کا عمل زیادہ معتبر ہوسکے اور جمہوری عمل کو مستحکم بنانے کا موجب ہو۔ پارلیمان پردولتمند افراد، بڑے زمینداروں اورانکے لیے کام کرنے والوں کا غلبہ ہے جو اپنے مفادات کے خلاف اصلاحات کی مزاحمت کریں گے لیکن حکمران طبقہ کے آپسی اختلافات بھی ہیں جیسے شہری نودولتیہ طبقہ اور روایتی دیہی اشرافیہ کے مفادات کسی حد تک الگ الگ ہیں۔ ہوسکتا ہے اس تضاد کے نتیجہ میں کچھ بہتری کا راستہ نکل آئے۔
آزاد کشمیر کے انتخابات میں برادریوں کی بہت اہمیت ہے۔ آبادی کے اعتبار سے بڑی برادریاں گجر اور راجپوت غالب ہیں جبکہ جاٹ، مغل، سیّد برادریوں کے نمائندے بھی میدان میں ہیں۔ بالکل اسی طرز پر پاکستان بھر میں برادریوں اور قبیلوں کی بنیاد پر اچھی خاصی تعداد میں ووٹ ڈالے جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں اورقومی سیاسی لیڈروں کا اپنا ووٹ بینک موجودہے لیکن تنہا اسکی بنیاد پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا۔ قبیلہ کی مدد لینی پڑتی ہے۔ برادریوں کی بنیاد پر وابستگی کا مطلب ہے کہ لوگوں کا قومی اداروں اور قانون کی حکمرانی پر اعتماد کم ہے اور وہ اپنے مفادات کے تحفظ کیلیے نسلی گروہوں سے وابستگی کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔ ایسی سیاست میرٹ کے نظام کو پامال کرتی اور حکومتی سرپرستی کو فروغ دیتی ہے۔ ملک میں اچھی حکمرانی قائم کرنے کیلیے ضروری ہے کہ لوگ گروہی تعصب کی بجائے سیاسی جماعتوں کے نظریہ، منشور اور کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ ڈالیں۔ ایک حل یہ ہے کہ حلقوں کی بنیاد پر قائم انتخابی نظام کی بجائے متناسب نمائندگی کو کُلّی یا جزوی طور پر اختیارکیا جائے۔ دنیا کے متعدد جمہوری ممالک میں یہ نظام موجود ہے۔ قومی اسمبلی کی نشستیں ہر پارٹی کو ملنے والے فیصدووٹوں کے اعتبار سے تقسیم کردی جائیں تو ذات، برادریوں کی اہمیت کم ہو جائے گی۔ سیاسی جماعتیں اپنے اپنے اُمیدواروں کی فہرستوں کی بنیاد پر الیکشن میں حصّہ لیں گی، انفرادی طور پر کوئی اُمیدوار اپنے سرمائے، طاقت اور برادری کی بنیاد پر الیکشن نہیں لڑسکے گا۔ اس صورت میں سیاسی جماعتوں کے نظریاتی کارکنوں کیلیے پارلیمان میں پہنچنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ ہمارے ہاں تاریخی طور پر تقریباً دس فیصد لوگ مذہبی جماعتوں کے ووٹر ہیں لیکن ان جماعتوں کے قومی یا صوبائی اسمبلیوں میں ارکان کی تعداد خاصی کم ہوتی ہے۔ اسی طرح، سوشلسٹ جماعتوں کا ووٹ بینک موجودہے لیکن اُنکی پارلیمان میں نمائندگی نہیں ہوتی۔ یہ نکتہ اٹھایا جاسکتا ہے کہ حلقوں کو ختم کرکے پُورے صوبہ کو ایک حلقہ بنانے کی صورت میں لوگوں کے مقامی مسائل سے توجہ ہٹ جائے گی۔ صحیح بات یہی ہے کہ قومی اسمبلی کے ارکان کو قومی سطح کی پالیسی بنانے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ مقامی مسائل کا حل موثر بلدیاتی اداروں کا کام ہے، ارکان ِ قومی اسمبلی کا نہیں۔ ہمارے ہاں سویلین حکومتیں بلدیاتی اداروں کے الیکشن کرانے اور مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے سے گریز کرتی آئی ہیں کیونکہ ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی کا بلدیاتی نمائندوں سے ٹکراؤہوتا ہے۔ متناسب نمائندگی اختیار کرنے کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ بلدیاتی نظام کی مخالفت ختم ہوجائے گی۔ علاوہ ازیں، موجودہ حلقہ جاتی نظام میں دولت کا عنصر اتنا اہم ہوگیا ہے کہ مزدور، کسان تو دُور کی بات ہے متوسط طبقہ کے افراد بھی الیکشن لڑنے کا نہیں سوچ سکتے۔ ایسی پارلیمان کو قوم کا صحیح نمائندہ نہیں کہا جاسکتا۔ قانون میں ترمیم کرکے قومی اسمبلی میں مزدوروں، کسانوں کیلیے بیس، پچیس فیصد نشستیں مختص کی جائیں جیسے خواتین کیلیے ہیں تاکہ یہ نمائندے نچلے طبقات کے مسائل کو اجاگر کرسکیں اور پالیسی بنانے کے عمل میں ان طبقات کے مفادات کا تحفظ کرسکیں۔
انتخابی عمل کو صاف شفاف اور منصفانہ بنانے کیلیے الیکشن کمیشن کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ انتظامی معاملات کو حل کرنے میں اسکا افسر شاہی پر انحصار بالکل ختم ہونا چاہیے۔ اسکے اپنے اتنے ملازمین ہوں کہ اسے حکومتِ وقت کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑیں کہ فلاں کام کیلیے اتنے لوگ مہیا کیے جائیں۔ ظاہر ہے اس مقصد کیلیے الیکشن کمیشن کے بجٹ کو بڑھانا پڑے گا۔ معاشی تنگدستی کے حالات میں زیادہ فنڈز کی فراہمی مشکل ہوگی۔ لیکن ملک میں جمہوری عمل کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے کی خاطر یہ تکلیف برداشت کرنی چاہیے۔ یک دم نہ سہی لیکن رفتہ رفتہ الیکشن کمیشن کی انتظامی طاقت کو بڑھانا ہوگا۔ اگر ہمارے قانون ساز موجودہ حلقہ جاتی نظام انتخاب قائم رکھنے پر مصر ہیں توانہیں کم سے کم اسے بہتر بنانے کیلیے ٹھو س اقدامات کرنے چاہئیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ الیکشن کی سرگرمیوں پر بڑے پیمانے پر کیے جانے والے اخراجات میں مناسب کمی لانے کیلیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ ملک میں ایسے شہری حلقے ہیں جہاں ہر اُمیدوار انتخابی سرگرمیوں پر پچاس ساٹھ کروڑ روپے خرچ کرتے ہیں۔ انتخابی دفتر کھولنے، اس میں لوگوں کو کھانا کھلانے پر دولت لٹائی جاتی ہے۔ پوسٹر، بینرز اور اشتہارات سے گلیوں، سڑکوں اوربازاروں کو بھر دیا جاتا ہے۔ ایک بڑا خرچ ووٹنگ کے روز نجی ٹرانسپورٹ پر کیا جاتا ہے۔ الیکشن لڑنے والے بڑے اُمیدواردرجنوں بسیں، ٹرک، کاریں ووٹروں کو مہیا کرتے ہیں۔ الیکشن اخراجات کی حد مقرر ہے لیکن اسکی خلاف ورزی کرنا آسان ہے۔ امیدوار کے حامیوں کے ذریعے رقم خرچ کی جاتی ہے جس پر قانون گرفت نہیں کرسکتا۔ اس خامی کو دور کرنے کیلیے قانون میں ترمیم ہونی چاہیے۔ الیکشن کے روز نجی ٹرانسپورٹ کے استعمال پر پابندی لگانی چاہیے۔ الیکشن کمیشن کو ووٹروں کی آسانی کیلیے ہر ایک کلومیٹر کے فاصلہ پر ووٹنگ مراکز قائم کرنے چاہئیں اور جہاں ضروری ہو وہاں ووٹروں کو سرکاری ٹرانسپورٹ مہیا کی جائے۔ مثلاً بوڑھے، بیمار اور معذور افرادکو۔ اس طرح الیکشن کے عمل میں دولت کے استعمال کو محدود کیا جاسکتا ہے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگایا جاتا ہے تو متاثرہ فریق انتخابی عذر داری داخل کرتا ہے۔ الیکشن ٹریبیونل میں انتخاب کو چیلنج کرتا اور اعتراضات جمع کراتا ہے لیکن اس درخواست کا فیصلہ عرصۂ دراز تک نہیں ہوپاتا۔ بعض اوقات اتنی دیر ہوجاتی ہے کہ نئے الیکشن کا وقت آجاتا ہے۔ بعض اوقات نئے انتخابات ہوجاتے ہیں لیکن گزشتہ الیکشن کے خلاف کی گئی اپیل کا فیصلہ زیرِالتوا ہوتا ہے۔ اس خرابی کو دور کرنے کیلیے مؤثر قانون سازی کی ضرورت ہے تاکہ عذرداریوں کا جلد از جلد فیصلہ یقینی بنایا جاسکے۔