امریکہ کی جانب سے ایران کو دیوار سے لگانے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایران نے روس اور چین کے ساتھ قریبی تزویراتی (اسٹریٹجک) تعلقات قائم کرلیے ہیں۔ امریکی پابندیوں کے باعث ایران کو وقتی طور پر معاشی مشکلات کا سامنا تو کرنا پڑا لیکن اس نے انکل سام کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے بلکہ اپنی خود مختاری کو قائم رکھتے ہوئے اپنے لیے نئے اتحادی منتخب کرلیے۔ طویل مدت میں نقصان امریکہ کو ہُوا ہے جو مشرق وسطیٰ میں اپنے غلبہ سے محروم ہوتا جارہا ہے۔ اسکی ایک تازہ مثال گزشتہ دنوں دیکھنے میں آئی جب ایران اور روس کی بحریہ نے شمالی بحر ہند (بحیرہ عرب) میں مشترکہ فوجی مشقیں کیں۔ دسمبر 2019 میں بھی ایران نے روس اور چین کے ساتھ ملکربحر ہند میں مشترکہ مشقیں کی تھیں۔
امریکی صدر باراک اوبامہ نے ایران کی خلیج فارس اور مشرق وسطیٰ میں اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کے ایٹمی پروگرام کو محدود پیمانے پر تسلیم کرلیا تھا اور اس پر عائد سخت پابندیاں ختم کردی تھیں۔ 2015 میں امریکہ نے روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے ساتھ مل کر ایران کے ساتھ اسکے ایٹمی پروگرام پر ایک معاہدہ کرلیا تھا جسے عرف عام میں جے سی اوپی، کہا جاتا ہے۔ اس معاہدہ کے تحت ایران کو بہت کم سطح پر یورینیم افزودہ کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی اور اسے بھی عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سخت معائنہ سے مشروط کردیا گیا تھا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس عہد نامہ کی توثیق کی تھی۔ تاہم جب ڈونلڈ ٹرمپ صدر بنے تو انہوں نے اسرائیلی لابی کے زیراثر ایران سے کیے گئے کثیرملکی معاہدہ سے یکطرفہ علیحدگی اختیار کرلی۔ انہوں نے ایران پر دوبارہ سخت اقتصادی اور دیگر پابندیاں عائد کردیں جو اسکی معیشت کا گلا گھوٹنے کے مترادف تھیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں ایران کے قریب جنگی بحری بیڑہ، جدید ترین میزائیل، بہت بلندی سے بمباری کرنے والے بی 52طیارے اور اضافی فوجی تعینات کردیے تھے۔ اس بات کا قوی امکان تھا کہ اگر ٹرمپ الیکشن میں فتح یاب ہوجاتے تو امریکہ اور اسرائیل ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کردیتے۔ جوبائیڈن کی کامیابی سے یہ خطرہ ٹل گیا۔ اسوقت امریکہ اور ایران کے درمیان بالواسطہ مذاکرات ہورہے ہیں کہ امریکہ دوبارہ کثیرملکی معاہدہ میں دوبارہ شامل ہوکر ایران پر سے پابندیاں ہٹا لے۔ قطر، روس اور چین پس پردہ رابطہ کاری کررہے ہیں۔
یُوں تو امریکہ کے ساتھ ایران کے تعلقات امام خمینی کے انقلاب کے بعد سے خراب چلے آرہے ہیں لیکن صدر اوبامہ نے ان تعلقات میں بہتری کا راستہ نکالا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ امریکہ کو فکر لاحق تھی کہ چین کی معاشی ترقی کے نتیجہ میں اسکا مشرق ِوسطیٰ میں عمل دخل ہوجائے گا۔ اس لیے امریکہ کو اس خطہ میں چین کو محدود کرنے کی غرض سے صرف عرب ممالک ہی نہیں بلکہ ایران کے ساتھ بھی بہتر تعلقات بنانا ہوں گے۔ تاہم امریکہ کے قریب ترین اتحادی اسرائیل کو اس پالیسی سے اتفاق نہیں تھا۔ صدر ٹرمپ نے آکر ایران کے ساتھ سخت گیر حکمت عملی اور اقدامات لینے شروع کیے۔ اسرائیل تو راضی ہوگیا لیکن خلیج فارس میں امریکی پالیسی کو شدید نقصان پہنچا۔ ایران کا چین اور روس سے تعاون اور اشتراک بہت بڑھ گیا۔ جنوری 2016 میں چین کے صدر شی جن پنگ نے تہران کا دورہ کیا۔ دونوں ملکوں نے پچیس برس پر محیط جامع تزویراتی شراکت کے سمجھوتہ پر دستخط کیے۔ اسکے تحت چین کی ایران میں سرمایہ کاری چار سو ارب ڈالر تک جا پہنچے گی۔ چینی سرمایہ سے ایک سو سے زیادہ منصوبے مکمل کیے جائیں گے۔ بدلہ میں ایران بتیس فیصد رعایتی نرخوں پر چین کو پیٹرولیم فراہم کرے گا۔ ڈیڑھ سو ارب آبادی پر مشتمل چین کے لیے پیٹرولیم اور قدرتی گیس کی مسلسل فراہمی ایک بڑی اہم ضرورت ہے۔ ایران سے طویل مدتی اتحاد اس مسئلہ کو حل کردے گی۔ ایران آبنائے ہرمز کے قریب اپنے ایک جزیرہ پر چین کو بندرگاہ کی سہولت مہیا کرے گا۔ چین اپنے منصوبوں کی حفاظت کی خاطر اپنے پانچ ہزار فوجی ایران میں تعینات کرے گا۔ ایران کے وزیرخارجہ جواد ظریف نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ اس معاہدہ کو جلد ہی رسمی طور پر باقاعدہ شکل دے دی جائے گی۔ ایران کے اسپیکر باقر غالیباف نے اگلے روز بیان دیا کہ چین سے قریبی تعلقات کو ایران کی پوری پارلیمان کی حمایت حاصل ہے۔ یعنی پارلیمان کا معتدل مزاج گروپ ہو یا سخت گیر اسلامی گروہ۔ ایران سے تزویراتی اتحاد کے ذریعے چین کو مشرقِ وسطیٰ کی علاقائی سیاست میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا موقع مل جائے گا جو امریکہ کے لیے بڑا دھچکا ہے۔
دوسری طرف، ایران کے روس سے بڑھتے تعلقات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف گزشتہ چار برسوں میں ماسکو کے اٹھائیس دورے کرچکے ہیں۔ روس نے کئی بار امریکہ کی ایران کے خلاف سلامتی کونسل میں لائی گئی قراردادوں کو ویٹو کیا ہے تاکہ اسے مزید مشکلات سے بچایا جاسکے۔ جب ایران کے ساتھ کثیر ملکی ایٹمی معاہدہ ہورہا تھا تو امریکہ کی کوشش تھی کہ اس میں ایران کے میزائل پروگرام پر بھی پابندیاں عائد کی جائیں لیکن روس نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ اسکا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایران نے اپنے میزائل پروگرام کو بہت ترقی دی۔ پانچ برس پہلے ایران اور رُوس نے داعش، القاعدہ ایسی شدت پسند تنظیموں اور دہشت گردی سے مقابلہ کرنے کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کا معاہدہ کیا۔ روس نے ایران کو شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل کرنے کی حمایت کی۔ چار برس پہلے روس نے ایران کو جدید میزائل ڈیفنس نظام ایس 300 فراہم کردیا۔ اب زیادہ ترقی یافتہ ایس 400 میزائیل ڈیفنس نظام فراہم کرنے پر بات چیت کررہا ہے۔ دونوں ممالک ایسے باہمی معاہدہ پر کام کررہے ہیں جسکے تحت وہ ایک دوسرے سے امریکی ڈالر کی بجائے اپنی اپنی کرنسیوں میں تجارت کرسکیں گے۔ اکتوبر 2019 میں ایران یوریشین معاشی یونین کا رکن بن گیا تھا۔ اس تنظیم کا روح رواں رُوس ہے۔ یہ تنظیم رکن ممالک کے درمیان ٹیکس فری آزادانہ تجارت کا معاہدہ ہے۔ ایران، رُوس اور چین کا اتحاد و اشتراک بحیرۂ روم سے شام، وسطی ایشیا، کیسپین سمندر اور خلیج فارس تک کے علاقہ پر محیط ہے۔ اس صف بندی سے مشرق وسطیٰ کی سیاست میں امریکہ کا غلبہ ختم نہیں تو بہت کم ضرور ہوجائے گا۔