Sunday, 22 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Thana Ki Islah

Thana Ki Islah

پاکستان کی پولیس کو جو بیماری لاحق ہے ا سکا مرکز تھانہ ہے لیکن جب بھی پولیس اصلاحات کی بات ہوتی ہے تو پولیس اسٹیشن کونظر انداز کردیا جاتا ہے۔ ملک کے طول و عرض میں پھیلے تقریباًڈیڑھ ہزار تھانے وہ ستون ہیں جن پر نہ صرف پولیس اسٹبلیشمنٹ کی عمار ت کھڑی ہے بلکہ پاکستانی ریاست کی عملداری بھی اِن کے دم سے قائم ہے۔ ملک کے چاروں صوبوں، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان میں مجموعی طور پر پانچ لاکھ پولیس فورس ہے جس میں اکثریت جونئیر افسروں اور اہلکاروں کی ہے۔ عوام کا واسطہ اُنہی سے پڑتا ہے۔ اعلیٰ افسران تک تو بہت کم لوگوں کی رسائی ہوتی ہے۔ جب کوئی عام آدمی کوئی شکایت لیکر تھانہ جاتا ہے، اُسکی پہلی ملاقات پولیس اسٹیشن کے محرر سے ہوتی ہے۔ عام آدمی تو ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ڈی ایس پی)سے بھی آسانی سے نہیں مل سکتا۔ پولیس اصلاحات کا بڑا مقصد تھانہ میں بہتری لانا ہونا چاہیے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں پولیس کا نیا قانون بنایا گیا جس کے تحت تھانہ میں اصلاحات لانے کی بجائے اعلیٰ افسروں کی پوسٹیں بڑھا دی گئیں، انکے نام بدل دیے گئے، پولیس بیوروکریسی کو مضبوط بنادیا گیا۔ پولیس بیوروکریسی کے اخراجات بے تحاشا بڑھ گئے لیکن عوام کی پولیس سے بنیادی شکایات کا ازالہ نہیں ہوسکا۔

ہمارا پولیس اسٹیشن رشوت اور سفارش کی دو ٹانگوں پر کھڑا ہے۔ چوری کا پرچہ بھی درج کروانے کے لیے تگڑی سفارش درکار ہوتی ہے۔ اُوپر سے دباؤ آئے گا تب پولیس اسٹیشن آپکی ایف آئی آر درج کرے گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آپ رشوت د یکر پرچہ کٹوالیں۔ پولیس اسٹیشن میں کوئی کام رشوت یا سفارش کے بغیر نہیں ہوتا۔ پرچہ درج ہونے کے بعد تفتیش شروع نہیں ہوتی۔ جب تک آپ مال لگاتے رہیں گے تفتیش جاری رہے گی۔ جیسے ہی پیسے دینا بند کریں گے تفتیش رُک جائے گی۔ جو فریق زیادہ رقم لگائے گا یا جس فریق کی سفارش زیادہ زوردار ہوگی تفتیش اسکے حق میں مڑ جائے گی۔ ظاہر ہے اِکاّدُکّا مستثنیات بھی ہوتی ہیں۔ چیلنج یہ ہے کہ تھانہ کو کیسے میرٹ پر، قانون کے مطابق کام کرنے کا پابند بنایا جائے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ تھانہ سفارش اور رشوت کے بغیرمیرٹ پر، قانون کے مطابق کام کرے؟ عوام اور پولیس اسٹیشن کے درمیان اعتماد کا رشتہ قائم ہوجائے۔

پولیس کا سارا فیلڈ ورک تھانہ کی سطح پر ہوتا ہے۔ کانسٹیبل سے انسپکٹر تک عہدہ کے پولیس اہلکار تھانہ کا نظام چلاتے ہیں۔ اسسٹنٹ سب انسپکٹر، سب انسپکٹر اور انسپکٹر کے تین کلیدی عہدے ہیں جوایف آئی آر کا اندراج، ملزموں کی گرفتاری اور تفتیش کے مراحل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پولیس کے ادارہ میں سب سے بُرا حال تھانہ میں تعینات ہونے والے اہلکاروں کا ہے۔ تھانہ میں کام کرنے والے اہلکاروں اور جونئیر افسروں کے حالات ِکار اتنے خراب ہیں کہ وہ نارمل طریقہ سے کام کر ہی نہیں سکتے۔ پولیس اسٹیشنوں میں مناسب حالت میں واش روم تک موجود نہیں، کچن نہیں ہیں جبکہ پولیس اسٹیشن کا عملہ چوبیس گھنٹے ڈیوٹی دینے کا پابند ہے۔ انہیں اِن سہولتوں کی لازمی حاجت رہتی ہے۔ ان ملازمین کو گھڑی دو گھڑی آرام کرنے کے لیے کوئی ریٹائرنگ روم دستیاب نہیں ہوتا۔ ان جونئیر افسروں کے سر پہ پولیس کا سارا نظام کھڑا ہے۔ لیکن انکے گریڈ بہت چھوٹے اور تنخواہیں بہت کم رکھی گئی ہیں۔ کسی جونئیر افسر کی بیوی یا بچہ بیمار ہوجائے تو اسکے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ اسکا علاج کروالے۔ تھانہ کے یہ طاقتور، بااختیار افسران اپنے بچوں کواپنی جائز آمدن سے کسی درمیانہ سے پرائیویٹ اسکول میں تعلیم نہیں دلواسکتے۔ شہر میں کسی متوسط طبقہ کے علاقہ میں مکان کرائے پر نہیں لے سکتے۔ توقع یہ کی جاتی ہے کہ غیر انسانی صورتحا ل میں رہنے والے یہ اہلکار برطانیہ اور جاپان کے پولیس والوں کی طرح کام کریں گے۔ ان جونئیر اہلکاروں کے حالات کا مقابلہ آپ کسی اعلیٰ پولیس افسر کے ٹھاٹھ باٹھ سے کریں تو اندازہ ہوجائے گا کہ ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ پولیس کے اعلیٰ افسران اور تھانہ کے اہلکار دو مختلف دنیاؤں میں رہتے ہیں۔ اعلیٰ افسران کی تنخواہیں مناسب اور مراعات بہت زیادہ ہیں۔ ایک سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) کی تنخواہ اور مراعات پر بیس کانسٹیبلوں سے زیادہ اخراجات آتے ہیں۔

سب انسپکٹر اور انسپکٹر عہدہ کے ایک تفیشی افسر کے پاس پچاس سے سو مقدموں کی فائلیں ہوتی ہیں۔ کسی نارمل انسان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اتنی تعداد میں مقدمات کی تفتیش کرسکے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جس کیس پر بڑی سفارش آجائے یا زیادہ رشوت مل جائے پولیس اہلکار اس پر کام کرنے لگتا ہے، باقی مقدمات لٹکتے رہتے ہیں۔ ان تفتیشی افسروں کے پاس ملزموں سے بیان لینے اور جائے وقوعہ پر جانے کے لیے ٹرانسپورٹ تک نہیں ہوتی، پیٹرول نہیں ہوتا۔ یہ سارا خرچ مدعی مہیا کرتا ہے۔ توقع ہم یہ رکھتے ہیں کہ یہ اہلکار سائنسی انداز میں تفتیش کریں۔ تھانہ میں مسلسل چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹی پولیس ملازمین میں غیرانسانی روّیے پیدا کرتی ہے۔ وہ عام معاشرہ سے کٹ جاتے ہیں۔ ہر وقت مجرموں، جھوٹ بولنے والوں سے ڈیل کرتے رہنے کی وجہ سے وہ انسانوں کے بارے میں ایک عمومی منفی روّیہ اختیار کرلیتے ہیں۔ ایسا نظام بنانے کی ضرورت ہے کہ پولیس اسٹیشن میں کام کرنے والوں کو ہر چھ ماہ بعد جبری طور پر دس پندرہ روز کی چھٹی پر بھیجا جائے تاکہ وہ اپنے گھر والوں، دوستوں کے ساتھ میل جول کریں اور تھانہ میں رہنے کی وجہ سے جو منفی خیالات، روّیے ان کی شخصیت میں پیدا ہوتے ہیں ان سے نجات پاسکیں، ڈی ٹوکسی فائی ہوسکیں۔

اگر ہمارے حکمران پولیس کے نظام میں واقعی بہتری لانا چاہتے ہیں تو جونئیر افسروں کی تعداد میں مناسب اضافہ کریں اور انکی تنخواہیں بہتر بنائیں۔ پولیس اسٹیشن پر فوکس کیا جائے۔ جونئیر پولیس افسران کی ورکنگ کنڈیشنز بہتر بنائی جائیں۔ انہیں بچوں کی تعلیم اور اہل خانہ سمیت صحت انشورنس مہیا کی جائے۔ تھانہ کو ایک اعلیٰ معیار کی با وقار سروس بنانے کی ضرورت ہے جسے جوائن کرنا تعلیم یافتہ، باکردار افراد کے لیے فخر کا باعث ہو۔ اگرہم چاہتے ہیں کہ ایک پولیس اہلکار ہمیں تحفظ اور عزت دے تو ہمیں بھی اُسکو اور اُسکے خاندان کو تحفظ اور عزت دینی ہوگی۔ اسکے بعدہم حقدار ہونگے کہ پولیس کے کڑے احتساب کی بات کریں۔