ایران سیاسی اعتبار سے ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ انقلاب اور موجودہ نظام کو بیالیس برس گزر گئے۔ آثار یہ ہیں کہ ایران کے عوام کی ایک بڑی تعداد قُم کے تربیت یافتہ قدامت پسند علمائے کرام کے غلبہ پر مبنی موجودہ سیاسی نظام میں بنیادی تبدیلیوں کی خواہشمند ہے۔ ملک میں اعتدال پسنداور اصلاح پسند تحریکوں اوراُن سے وابستہ سیاسی شخصیات کی پذیرائی بڑھتی جارہی ہے۔ ایران کی سیاست مستقبل میں کیا رُخ اختیار کرتی ہے اس کا انحصارخاصی حد تک اٹھارہ جون کو ہونے والے صدارتی الیکشن پر ہے۔
تقریباًسوا آٹھ کروڑ آبادی پر مشتمل ایران میں ایک مخصوص، محدود قسم کا صدارتی جمہوری نظام ہے جس میں اعلی سطح کے فیصلے ایک شوریٰ نگہبان (گارجین کونسل) اور اسکے چُنے ہوئے سپریم لیڈر یا ولی فقیہہ کرتے ہیں۔ شوریٰ نگہبان بارہ افراد پر مشتمل ہوتی ہے جس میں چھ ارکان بزرگ علماء ہوتے ہیں اور دیگر چھ کا تعلق عدلیہ سے ہوتا ہے۔ شوریٰ نگہبان اور ولی فقیہہ کے ذریعے ایران کے علماء سیاسی نظام کو کنٹرول کرتے ہیں۔ تاہم ملک کا چیف ایگزیکٹو صدر ہوتا ہے جسکا ہر چار سال بعد بالغ رائے دہی کی بنیاد پر الیکشن ہوتا ہے۔ جیتنے والے امیدوار کیلیے ڈالے گئے کُل ووٹوں کا اکیاون فیصد حاصل کرنا لازمی ہے۔ اگر کوئی امیدوار اتنے ووٹ نہ لے سکے تو رَن آف الیکشن ہوتا ہے جس میں پہلے دو نمبروں پر آنے والے امیدواروں میں مقابلہ کیلیے دو بارہ ووٹنگ ہوتی ہے۔ کون شخص صدر کا الیکشن لڑسکتا ہے اسکا فیصلہ شوریٰ نگہبان کرتی ہے جس میں سخت گیر قدامت پسند افرادکا غلبہ ہے۔ آنے والے الیکشن کیلیے چھ سو افراد امیدوار تھے۔ جانچ پڑتال کے ابتدائی مرحلہ میں صرف چالیس افراد بنیادی معیار پر پورا اُترے۔
شوریٰ نگہبان نے ان میں سے سات افراد کو الیکشن لڑنے کیلیے اہل قرار دیا، باقی سب کو نااہل قرار دے دیا۔ جو لوگ نااہل قرار دیے گئے اُن میں بعض نمایا ں شخصیات جیسے سابق صدر احمدی نژاد، سابق اسپیکر پارلیمنٹ علی لاریجانی اورملک کے اوّل نائب صدراسحاق جہانگیری شامل ہیں۔ جن امیدواروں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی ہے ان میں سب سے نمایاں ملک کے چیف جسٹس ابراہیم رئیسی ہیں جو سپریم لیڈر (ولی فقیہہ) کے بہت قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔ باقی چھ افراد میں ملک کے مرکزی بنک کے سربراہ عبدالناصر محنتی شامل ہیں جنہیں اب بینک کی سربراہی سے ہٹا دیا گیا ہے۔ اگر سابق اسپیکر علی لاریجانی کو نااہل قرار نہ دیا جاتا تو وہ مضبوط امیدوار تھے اور سخت مقابلہ ہوتا کیونکہ لاریجانی قدامت پسند اور اعتدال پسند دونوں گروہوں کے لیے قابل قبول ہوسکتے تھے۔ وہ موجودہ صدر حسن روحانی کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اب جو تھوڑا بہت مقابلہ ہے وہ قدامت پسند، سخت گیر ابرہیم رئیسی اور اعتدال پسند عبدالناصر محنتی کے درمیان ہوگا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جن امیدواروں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی ہے اسکا مقصد محض یہ ہے کہ دنیا کو دکھایا جائے کہ الیکشن کا عمل ہوا تھا اور ووٹنگ کی شرح قدرے زیادہ ہوجائے۔ شوریٰ نگہبان نے علی لاریجانی کو صدارتی الیکشن کیلیے نااہل قرار دیکرسخت گیر چیف جسٹس ابراہیم رئیسی کے انتخاب کی راہ خاصی حد تک ہموار کردی ہے لیکن اس فعل سے ایران میں جمہوریت کی ساکھ مجروح ہوئی ہے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ سخت گیر قدامت پسند گروہ اپنی مرضی کا صدر چاہتا ہے اور اس ضمن میں کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتا۔ بڑے پیمانہ پر اچھے امیدواروں کی نااہلی سے خدشہ ہے کہ ایران کے عوام اٹھارہ جون کی ووٹنگ میں جوش وخروش سے حصہ نہ لیں۔ ووٹ ڈالنے والوں کی شرح بہت کم رہے۔ صرف قدامت پسند ووٹر ہی ووٹ ڈالنے کیلیے گھروں سے نکلیں گے۔ بعض سروے بتارہے ہیں کہ اس دفعہ ووٹنگ کی شرح گزشتہ انتخابات سے کم ہوگی۔ پینتیس چھتیس فیصد۔ موجودہ نظام کے مخالفین سوشل میڈیا پر انتخابات کے بائیکاٹ کی مہم چلارہے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ جب سارے اہم فیصلے سپریم لیڈر نے کرنا ہوتے ہیں تو وو ٹ ڈالنے کا کیا فائدہ؟ یہ مہم اتنی مقبول ہوگئی کہ سپریم لیڈر خامنائی کو بیان جاری کرنا پڑا کہ لوگ ووٹ ضرور ڈالیں اور بائیکاٹ کی باتوں پر کان نہ دھریں کیونکہ ووٹ تو ایک دن ڈالنا ہوتا ہے جبکہ اسکے اثرات برسوں تک رہتے ہیں۔ جب اس بیان کا بھی خاطر خواہ اثر نہیں ہوا تو گزشتہ جمعہ کے روزخامنائی نے شوریٰ نگہبان کے فیصلہ پر تنقید کی کہ اس نے بہت زیادہ امیدواروں کو نااہل کردیا ہے اور یہ کہ شوریٰ کو اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ اب یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ شائد علی لاریجانی کو الیکشن لڑنے کیلیے اہل قرار دے دیا جائے۔ درحقیقت سپریم لیڈرخامنائی کو یہ خطرہ نظر آرہا تھا کہ ووٹنگ کی شرح بہت کم ہونے سے پورا نظام ہی ہل کر رہ جائے گا اور عوامی تائید سے محروم ہوجائے گا۔
اگراب بھی علی لاریجانی کوصدارتی الیکشن لڑنے کی اجازت نہ ملی تو اعتدال پسند اور اصلاح پسند ووٹرز عبدالناصرمحنتی کے پیچھے متحد ہو کر پانسہ پلٹ سکتے ہیں لیکن اسکا امکان کم نظر آتا ہے۔ سارے اہم، مضبوط اُمیدواروں کو نااہل قراردیکر بھی قدامت پسند گروہ محنتی جیسے بظاہر کمزورامیدوار سے خوفزدہ ہے کہ کہیں وہ انکا کھیل نہ بگاڑ دیں۔ چند روز پہلے شوریٰ نگہبان نے محنتی کو تنبیہہ کی کہ اگر انہوں نے سرخ لکیر عبور کی تو انہیں صدارتی الیکشن کے لیے اب بھی نااہل کیا جاسکتا ہے کیونکہ محنتی نے ایک انٹرویو میں کہہ دیا تھا کہ جو عورتیں حجاب نہیں پہنتیں ان پر سختی نہیں کرنی چاہیے۔ محنتی کو ریاستی ٹیلی ویژن پر رئیسی کے برابر وقت بھی نہیں دیا جا رہا جو کہ ماضی کی روایات سے انحراف ہے۔ ایران میں کوئی نجی ٹیلی ویژن اسٹیشن نہیں ہے۔ البتہ سو شل میڈیا کی آزادی ہے۔ اسوقت ایران میں سب سے اہم معاملہ ایٹمی پروگرام کا ہے۔ سخت گیر، قدامت پسند گروہ یہ چاہتا ہے کہ امریکہ سے ایٹمی پروگرام پر کیے گئے معاہدہ کو بحال نہ کیا جائے خواہ امریکہ کی لگائی گئی اقتصادی پابندیوں سے جتنا بھی نقصان ہوجائے۔ اسرائیل اور مشرق وسطیٰ میں ایران کے حامیوں کی بھرپور مدد کرنا چاہتا ہے۔ شریعت کا سخت نفاذ چاہتا ہے۔ اعتدال پسند گروہ یہ چاہتا ہے کہ امریکہ سے ایٹمی معاہدہ بحال کیا جائے تاکہ ملک کے معاشی حالات سدھر سکے اور لوگوں کی تکالیف کم ہوں۔ ایک تیسرا گروہ اصلاح پسندوں کا ہے جوایران کے آئین میں بنیادی تبدیلیاں چاہتا ہے تاکہ شوریٰ نگہبان اور سپریم لیڈر کے اختیارات کم کیے جائیں اور منتخب صدر اور پارلیمنٹ کو زیادہ بااختیار بنایا جائے۔ ایٹمی پروگرام پر عالمی برادری سے سمجھوتہ کیا جائے۔ اٹھارہ جون کو ہونے والے صدارتی الیکشن کی کامیابی کا انحصار ووٹنگ ٹرن آؤٹ پر ہے۔ اگر چالیس فیصد سے کم ووٹ پڑے تو ایران کے موجودہ نظام کی بنیاد کمزورہوجائے گی۔ سیاسی خلفشار بڑھے گا۔ لیکن اگر علی لاریجانی کو انتخاب لڑنے کی اجازت مل گئی تو ووٹنگ کی شرح بڑھے گی۔ انکا رئیسی سے سخت مقابلہ ہوگا۔