بے نظیر بھٹو پاکستانی سیاسی تاریخ کی اہم ترین شخصیات میں سے ہیں۔ وہ دو بار ملک کی وزارت ِعظمیٰ پر فائز ہوئیں گو دونوں بار پانچ سالہ مدت پوری نہیں کرسکیں۔ سیاسی رہنما کے طور پر انکی طویل جدوجہد چالیس برسوں پر محیط تھی۔ درجنوں سیاستدان ایسے ہیں جو انکے قریبی ساتھی رہے لیکن دو تین کے سوا کسی نے اُن کے بارے میں تفصیل سے نہیں لکھا۔ پیپلزپارٹی کے جیالے کارکن بشیر ریاض کی ایک کتاب ہے بعنوان رفاقت کا سفر۔ بے نظیر یادیں،۔ بے نظیر کے دوسرے دورِ حکومت میں اسپیکر قومی اسمبلی رہنے والے یوسف رضا گیلانی نے اپنی یادداشتیں چاہ ِیوسف سے آتی ہے یہ صدا، کے عنوان سے قلمبند کی ہیں۔ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے بارے میں انگریزی زبان میں ایک کتاب اُنکے قومی سلامتی کے مشیر اقبال آخوند نے لکھی تھی۔ بعد میں اسکا ترجمہ بھی شائع ہوا۔ اب ایک اور کتاب بٹ پرائم منسٹر، (لیکن، وزیراعظم) شائع ہوئی ہے۔ انگریزی زبان میں لکھی گئی یہ ضخیم کتاب جاوید جبار کی بے نظیر بھٹوسے متعلق یادداشتوں پرمشتمل ہے۔ وہ بے نظیر بھٹو کی پہلی وزارت عظمیٰ (1988-90) میں کابینہ کے رُکن تھے۔ کچھ عرصہ وزارتِ اطلاعات و نشریات سے وابستہ رہے اور بعد میں وزارت سائنس و ٹیکنالوجی سے۔
جاوید جبار ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ تین مختلف حکومتوں میں وفاقی کابینہ کا حصہ تھے۔ چھ برس سینٹ کے رکن رہے۔ دستاویزی فلمیں بنائیں۔ ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی چلائی۔ تھر کے علاقہ میں غیر سرکاری تنظیم بنا کر عوامی فلاح کے کام کاج کیے۔ دانشور، لکھاری ہیں۔ میڈیا سے متعلق امور کے ماہر ہیں۔ چودہ پندرہ کتابوں کے مصنف ہیں۔ وہ ان چند ماڈرن، لبرل لوگوں میں سے ہیں جو پاکستانی ریاست سے گہری وابستگی رکھتے ہیں۔ بہت سے لبرل دانشوروں کے برعکس پاکستانی ریاست کے خلاف زہر نہیں اُگلتے۔ انڈیا کے گُن نہیں گاتے۔ پاکستان میں دانشورانہ مباحثہ کو فروغ دینے میں جاوید جبار کا اہم کردار، نمایاں خدمات ہیں۔ انہوں نے بے نظیر بھٹو سے متعلق اپنی اس کتاب میں ایک متوازن بیانیہ اختیار کیا ہے۔ مصنف نے بے نظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں ہونے والے مثبت کاموں کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ وہ بے نظیر کی شخصیت کی خوبیوں کا دِل کھول کر تذکرہ اور تحسین کرتے ہیں۔ دوسری طرف، وہ اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ بے نظیر کی کابینہ کے کئی ارکان خاصی بدعنوانی، کرپشن میں ملوث تھے۔ جاوید جبار آصف زرداری کے کردار کے بارے میں بھی تحفظات کا شکار نظر آتے ہیں۔
جاوید جبّار 1985 میں آزاد حیثیت میں سندھ سے سینیٹر منتخب ہوئے تھے لیکن بے نظیر بھٹو کی حکومت بننے کے بعد وہ پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے۔ کچھ عرصہ تک سینٹ میں وہ پیپلزپارٹی کے واحد نمائندہ تھے۔ کابینہ میں وزارت ِاطلاعات و نشریات کے منسٹر آف اسٹیٹ بنادیے گئے۔ انکا کہنا ہے کہ شروع کے آٹھ ماہ میں وہ خاصے بااختیار تھے اور انہوں نے وزارت میں کچھ اہم اصلاحات کیں۔ مثلاً اخبارات اور رسائل کو میرٹ پر سرکاری اشتہارات دینے کیلیے نظام وضع کیا۔ سیاسی رشوت کے طور پر اشتہارات دینے کی پالیسی کو تبدیل کیا۔ اپریل 1989تک یہ پالیسی چلائی گئی۔ بعد میں لوگ ان سے شکایتیں کرنے لگے کہ میرٹ پر ملنے والے اشتہارات کم یا ختم کردیے گئے ہیں۔ جاوید جبار نے افسروں سے پوچھ گچھ کی تو پتہ چلا کہ وزیراعظم ہاؤس سے مداخلت پر ایسا کیا جاتا تھا۔ یہ بات اُنہیں پسند نہیں آئی۔ اسی طرح پاکستان ٹیلی ویژن میں بھی وزیراعظم ہاؤس کی ہدایات کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ انہوں نے وزارت سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ وزیراعظم بے نظیربھٹونے انکو کسی اور وزارت میں کام کرنے کی پیشکش کی۔ جاوید جباروزاتِ خارجہ میں نائب وزیر بننے کے خواہاں تھے لیکن وزیرخارجہ صاحبزادہ یعقوب خان نے اس تجویز کو مسترد کردیا۔ اس پر انہوں نے اپنی پسند سے سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت حاصل کر لی۔ پیپلزپارٹی کے جو لیڈر آجکل میڈیا کی آزادی کے بڑے علمبردار بنے ہوئے ہیں وہ جاوید جبار کی کتاب کا یہ حصّہ ضرور پڑھیں تاکہ انہیں اپنی پارٹی کی زرّیں تاریخ یاد رہے۔
جاوید جبار نے پیپلزپارٹی کے اس اجلاس کا بھی ذکر کیا ہے جس میں بے نظیربھٹو کی پہلی حکومت کی رخصتی کے بعدصورتحال کا جائزہ لیا گیا تھا۔ بے نظیر بھٹو اپنی حکومت کی برطرفی کو سازش سمجھتی تھیں۔ وہ کرپشن کے الزامات کو جھوٹ سمجھتی تھیں۔ پارٹی کے سب لیڈر اُنکی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے۔ جاوید جبار نے بھی انکی باتوں سے اتفاق کیا لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بات کہہ دی کہ کرپشن کے الزامات میں کچھ صداقت ہے۔ بے نظیر بھٹو اس بات پراُن سے ناراض ہوگئیں۔ اسطرح وہ لیڈر سے دُورہوتے گئے۔ اس واقعہ سے پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے خوشامدی کلچر اور لیڈروں کے آمرانہ روّیوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ بے نظیر بھٹو نے سینٹ کے الیکشن کے موقع پر جاوید جبارکو پارٹی ٹکٹ کی پیشکش بھی نہیں کی۔ یہ وہی شخص تھے جنہیں وہ اپنی ٹیم کا اہم رُکن قرار دیتی تھیں اور ہر حال میں وفاقی کابینہ میں شامل رکھنا چاہتی تھیں۔ مصنف نے وزیر سائنس اور ٹیکنالوجی کی حیثیت سے شمالی کوریا کے سرکاری دورہ کی تفصیل بتائی ہے جہاں ملک کے سربراہ مارشل کم اِل سنگ نے انکے ساتھ غیرمعمولی طور پر بہت گرمجوشی کا مظاہرہ کیا، اُنکے گال پر بوسہ لیا۔ جاوید جبار نے کھُل کر تونہیں بتایا لیکن بین السطور ظاہر ہے کہ پاکستان اور شمالی کوریا کے درمیان سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اہم تعاون موجود تھا۔ اسوقت عالمی میڈیا میں یہ افواہیں گردش کررہی تھیں کہ پاکستان نے شمالی کوریا سے میزائیل ٹیکنالوجی حاصل کی ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جسطرح ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو ایٹمی ٹیکنالوجی میں خودکفالت دلوائی اور ایٹم بم بنانے کا راستہ ہموار کیا اسی طرح انکی بیٹی بے نظیر بھٹو نے میزائل ٹیکنالوجی حاصل کرکے ملک کے دفاع کو مستحکم بنایا۔ بے نظیر بھٹو کی حب ُالوطنی پر انگلیاں اٹھانے والے کس قدرغلط بیانی کرتے تھے اور سیاسی مقاصد کے لیے ایک قوم پرست رہنما پر تہمتیں باندھتے رہے۔