اس وقت چاروں طرف مہنگائی کا شور مچا ہے جو سو فیصد سچ ہے۔ وجوہات جو بھی ہوں لیکن مہنگائی اپنی جگہ موجودہے۔ عوام اس میں پِس رہے ہیں۔ کم آمدن والے محنت کش طبقہ اور متوسط آمدن والوں کی مشکلات بہت زیادہ ہو گئی ہیں۔ موجودہ حکومت کے گزشتہ تین برسوں میں عوام کی قوّتِ خرید تقریباً نصف رہ گئی ہے۔ تاہم آج کا معاشی بحران کوئی نئی بات نہیں۔ پاکستان کی معیشت سدا کی مریض ہے۔ ہمیں آج جس صورتحال کا سامنا ہے وہ گزشتہ تیس پینتیس برسوں کی معاشی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ یہ صرف گزشتہ دو تین برسوں کی کارگزاری نہیں۔
اُنیس سو ساٹھ کی دہائی ایک سنہری دور تھا جب امریکی امداد ہم پر بارش کی طرح برس رہی تھی۔ یہ قرضے نہیں تھے بلکہ اربوں ڈالر کے عطیات تھے۔ اسکی مدد سے ملک کی پسماندہ ترین زراعت کو جدید بنایا گیا۔ سبز انقلاب شروع ہوا۔ پیداواربڑھ گئی۔ آبپاشی کے بڑے بڑے منصوبے، ڈیم اور پن بجلی گھر بنائے گئے۔ حکومت نے سرکاری شعبہ میں صنعتیں قائم کرکے انہیں آسان شرائط پر نجی شعبہ کے حوالہ کیا۔ پاکستان کی معاشی ترقی قابلِ رشک تھی۔ لیکن یہ خوشحالی قوم کو ہضم نہیں ہوسکی۔ عوام شورش و فساد، سستی نعرے بازی کا شکار ہوگئے۔ ملک ہیجانی کیفیت میں مبتلا اوردو لخت ہوگیا۔ حکومت نے اکثر صنعتوں کو قومی ملکیت میں لیا۔ صنعت کاری کا عمل رُک گیا۔ اس وقت سے آج تک ہم ٹھوس معاشی ترقی کا راستہ اختیار نہیں کرسکے۔ ہر حکومت سویلین ہو یا فوجی ایڈہاک ازم کی بنیاد پر معیشت کو چلاتی رہی۔
سرمایہ کاری اور صنعتی ترقی کی بجائے اخراجات میں اضافہ کرکے صارف کلچر کو فروغ دیا گیا۔ کوشش رہی کہ لوگ سڑکوں پر نہ آئیں۔ اُنہیں وقتی طور پر مطمئن رکھنے کی خاطرحکمران ملکی اور غیرملکی قرضوں پر انحصار بڑھاتے گئے۔ درآمدات میں اضافہ کو ترقی بنا کر پیش کیا گیا۔ نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ ملک ہیروئن کی طرح قرضوں کا عادی ہوچکا۔ اس نشہ سے جان چھڑوانے کی غرض سے کم سے کم دس سے پندرہ برس کی متبادل معاشی پالیسی پر عمل درکار ہے۔ لیکن ہر حکومت آسان، شارٹ ٹرم حل تلاش کرتی ہے۔ البتہ شکر ہے کہ ہمارا حال لبنان، وینزویلا یا سوڈان جیسا نہیں ہُوا جہاں افراطِ زر کی شرح سینکڑوں فیصد میں ہے۔ ہماری زراعت میں اتنی جا ن ہے کہ وہ ہمیں پوری طرح ڈوبنے نہیں دیتی۔ کھانے پینے کا سامان ملک میں اتنا موجود رہتا ہے کہ عام آدمی کی زندگی جیسی تیسی چلتی رہتی ہے۔
معاشی تباہی کا بڑاسبب یہ ہے کہ گزشتہ تیس پینتیس برسوں میں ہمارے حکمرانوں نے چمک دمک والے غیر پیداواری منصوبوں کو ترجیح دی۔ ان پر کھربوں روپے صرف کردیے۔ اگر ان کی بجائے زراعت، آبپاشی اور صنعتی کارخانوں کی ترقی کو ترجیح دی ہوتی تو عام آدمی کی زندگی نسبتاً بہتر ہوتی۔ ڈیم، نہریں اور جدید آبپاشی کے منصوبے بنا کر ہم زیادہ سے زیادہ بنجر رقبہ کو قابل کاشت بناتے، زرعی پیداوار بڑھاتے تو آج آبادی کاایک بڑا طبقہ خوشحال ہوتا۔ ہمیں گندم، چینی، کپاس اور کھانے کا تیل بیرونی ممالک سے درآمد نہ کرنے پڑتے۔ عالمی مہنگائی کے مضر اثرات سے بچے رہتے۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کو نئے نئے ائیرپورٹ ٹرمینل، موٹرویز بنانے کا شوق تھا اور اب بھی ہے۔
یہ ایسے ہے جیسے کوئی شخص قرض لیکر کاروبار کرنے کی بجائے مہنگی کار خرید کر اِترانے لگے۔ ہمارا متوسط طبقہ ظاہری شان و شوکت کا شوقین ہے خواہ اس طرزِ عمل کا معیشت کو کتنا ہی نقصان پہنچے۔ اس پالیسی کے نتائج قوم بھگت رہی ہے۔ ہم اتنے کوتاہ اندیش ہیں کہ کپاس ایسی اہم فصل کا بیج برسوں خود تیار نہیں کیا بلکہ کسی دوسرے ملک سے بیج منگوا کر اُسکی نقل بنا تے رہے۔ کپاس کی پیداوار روزبروز کم ہوتی گئی جس سے ہماری سب سے بڑی صنعت ٹیکسٹائل شدید متاثر ہوئی لیکن ہمارے حکمرانوں کے کان پر جُوں نہیں رینگی۔ ہم زرعی ملک ہونے کے باوجود دالیں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے درآمد کررہے ہیں۔ ہر برس کھربوں روپے زراعت کے وفاقی اور صوبائی محکموں پر خرچ کیے جاتے ہیں لیکن یہ دالوں کی کاشت بڑھانے کابندوبست نہیں کرسکے۔
کھانے کا تیل ملائشیا سے آتا ہے۔ حالانکہ ہمارے ملک میں سویا بین، کینولا اور سُورج مکھی کی کاشت میں اضافہ کرکے اس مسئلہ کو حل کیا جاسکتا ہے۔ کاشتکار یہ فصلیں اس لیے نہیں اُگاتے کہ آڑھتی ان سے خریدتے نہیں یا بہت کم نرخ دیتے ہیں۔ حکومت ان کی خریداری کا طریق کار متعین کرے تو ملک ان اشیا کی پیداوار میں خود کفیل ہوجائے۔ حکومت خسارے میں چلنے والے اداروں پر ہر سال سینکڑوں ارب روپے لُٹاتی ہے لیکن زراعت کو جدید تر بنانے کیلیے کافی فنڈز خرچ نہیں کرتی۔ کتنے ہی سرکاری ادارے رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں جُتے ہوئے ہیں۔ اگر یہی محنت اور توانائی الیکٹرانکس، الیکٹرک، کیمیکل کے شعبوں میں صنعتی کارخانے لگانے میں صرف کی جاتی تو ہمیں درآمدات پرکم انحصار کرنا پڑتا۔ زرِ مبادلہ کی قلت نہ ہوتی۔ اسکے لیے بھیک نہ مانگنی پڑتی۔ دہائیوں کی غلط ترجیحات نے معیشت کا ستیا ناس کیا ہے۔ اپوزیشن کے جو سیاستدان موجودہ حکومت پر تنقید کررہے ہیں وہ اپنے گریبانوں میں جھانکیں۔
اسی طرح تعلیم کے شعبہ کو نظر انداز کرنے سے ہماری معیشت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ جدید دور میں زراعت، صنعت، تجارت اور خدمات کے شعبوں میں ان پڑھ، ناخواندہ لیبر کی گنجائش نہیں۔ ابتدائی تعلیم اور ہنر مند افرادی قوت کے بغیر کام نہیں چل سکتا۔ مشرقی ایشیا کے متعدد ممالک کی حکومتوں نے تعلیم کے شعبہ میں بھاری سرمایہ کاری کی جس کے باعث انکی معیشت نے تیز رفتاری سے ترقی کی۔ غربت کم ہوئی۔ جنوبی کوریا، سنگا پور، تھائی لینڈ، ملائیشیا اس کی مثالیں ہیں۔ ویتنام تیس سال پہلے تک ہم سے کہیں پسماندہ، غریب ملک تھا۔ اس نے اپنی مجموعی داخلی پیداوار کا سوا چار فیصد ابتدائی اور فنی تعلیم پر خرچ کرنا شروع کیا۔
آج ویتنام ہم سے تین گنا زیادہ امیر ملک ہے۔ دنیا کا تیز ترین ترقی کرنے والا ملک۔ اس کے مقابلہ میں پاکستان تعلیم کے شعبہ پر دو سوا دو فیصد خرچ کرتا ہے۔ یہ سوچنا بے وقوفی ہوگی کہ ہم ناخواندہ، نیم پڑھے لکھے اور غیرہنر مند افراد کے ساتھ ترقی کرسکتے ہیں یا غربت کم کرسکتے ہیں۔ گزشتہ تین چار دہائیوں میں ہم نے جو بویا ہے وہی آج کاٹ رہے ہیں۔ سارا حکمران طبقہ اس جرم میں شریک ہے۔ سیاستدان ہوں، ریاستی ادارے یا سول سوسائٹی۔ سب نے اپنے اپنے مفاد کو سامنے رکھا، قوم کے طویل مدتی مفاد کو نظر انداز کیا۔ معاشی بدحالی سے نکلنے کا کوئی فوری حل نہیں ہے۔ اس مقصد کے لیے درست پالیسی بنا کر کم سے کم پندرہ بیس برس کی مسلسل محنت درکار ہے۔