Sunday, 22 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Kharja Policy Ke Challenge

Kharja Policy Ke Challenge

افغانستان میں طالبان کی حکومت آجانے کے بعد پاکستان کی معیشت تو مشکل صورتحال کا شکار تھی لیکن اب خارجہ پالیسی کے محاذ پر بھی نئے خطرات منڈلانا شروع ہوگئے ہیں۔ پاکستان نے امریکہ کو اپنی سرزمین پر فوجی اڈہ دینے سے جو انکار کیا تھا، اسکی سزا دینے کیلیے امریکی لابیاں اور قانون ساز سرگرم ہوچکے ہیں۔ اگلے روز امریکی سینٹ میں طالبان کی حمایت کرنے والے ممالک اور اداروں پر پابندیوں کا بل پیش کیا گیا ہے۔ اس مجوزہ قانون کا ایک بڑا ہدف پاکستان ہے۔ اپوزیشن جماعت سے تعلق رکھنے والے بائیس ری پبلکن سنیٹروں نے ایک بل ایوان میں پیش کیا ہے۔ اُنکے مسودہ ٔقانون میں کہا گیا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ رپورٹ پیش کریں کہ گزشتہ انیس برسوں میں طالبان کی پشت پناہی، حمایت یا کسی قسم کی مد کِن ریاستوں اور غیرریاستی عناصر نے کی اور امریکی خفیہ ادارے یہ جائزہ پیش کریں کہ کیا پاکستان حکومت نے افغان حکومت کو گرانے میں طالبان کی کسی بھی طرح سے مدد کی ہے یا پنج شیر میں طالبان کی فتح میں اسکا کوئی کردار ہے۔ بل میں کہا گیا ہے کہ ایسے تمام ممالک اور غیرریاستی اداروں کی اقتصادی، مالی اور فوجی امداد بند کردی جائے، جنہوں نے طالبان کی مدد کی۔ اس بل کو مزید کارروائی کیلیے سینٹ کمیٹی کو بھیج دیا گیا ہے۔ کمیٹی اس مسودۂ قانون پرغور کرے گی۔ ہوسکتا ہے کہ امریکی اپوزیشن جماعت ری پبلکن پارٹی کے پیش کیے گئے اس مسودہ کو کمیٹی منظور نہ کرے اور یہ قانون نہ بن سکے لیکن سفارتی محاذ پر پاکستان کے سر پر ایک تلوار لٹکادی گئی ہے۔ پاکستان کے خلاف ایک مہم شروع کردی گئی ہے جسکا ایک مقصد ہمیں دباؤ میں لاکر اپنے مطالبات منوانا ہے۔

جُوں ہی افغانستان سے امریکی انخلا مکمل ہوا اور افغان طالبان نے اقتدار سنبھالا بھارتی، امریکی میڈیا میں بعض صحافیوں، دانشوروں نے پاکستان پرالزام تراشی شروع کردی تھی کہ طالبان کی فتح کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے۔ امریکہ میں ایک بڑی بھارتی لابی ہے جس پر بھارتی ریاست ہر سال کروڑوں ڈالر خرچ کرتی ہے۔ اسکا بیانیہ ہے کہ انکل سام پاکستان کے سلامتی کے ادارہ اور انٹیلی جنس ایجنسی کے افسران پر اسمارٹ پابندیاں، عائد کرے۔ اِس کے نتیجہ میں یہ لوگ بین الاقوامی سفر نہیں کرسکیں گے اوردیگربین الاقوامی سہولتوں جیسے بینکنگ وغیرہ سے فائدہ نہیں اُٹھاسکیں گے۔ ایسی پابندیاں ایران اور شمالی کوریا کے ریاستی عہدیداروں پر پہلے سے عائد ہیں۔ اگر ان پابندیوں کا دائرہ مزید وسیع کیا جائے تو ملکی معیشت ان سے شدید متاثر ہوتی ہے، جیسے ایران کے ساتھ ہورہا ہے یا کسی حد تک رُوس کے ساتھ۔ دنیا کے مالیاتی، معاشی نظام پر امریکہ کا غلبہ ہے۔ امریکی سامراج کی یہ حکمت عملی رہی ہے کہ جن ملکوں پر وہ فوجی حملہ نہیں کرسکتا انکو جھکانے کیلیے وہ ان پر اقتصادی پابندیاں عائد کرتا ہے جنکے باعث اس ملک کی برآمدات کم ہوجاتی ہیں۔ ملک زر مبادلہ کی قلت کا شکار ہوجاتا ہے۔ اسکی کرنسی کی قدر گر جاتی ہے۔ متاثرہ ملک معاشی بدحالی سے کراہنے لگتا ہے۔ عالمی بینک اور آئی ایم ایف ایسے ادارے امریکہ کے ماتحت ہیں وہ بھی ا یسے ملک کو قرض دینا بندکردیتے ہیں۔

ایران اسکی بڑی مثال ہے جو تیل کی دولت سے مالا مال ہونے کے با وجود امریکی پابندیوں کے باعث شدید معاشی تنگدستی سے دوچار ہے۔ حتی کہ ایران کے قریبی ساتھی انڈیا نے اس سے پیٹرول خریدنا بند کردیا ہے۔ پاکستان کے پاس تو پیٹرولیم بھی نہیں۔ اس کی معیشت بیرونی قرضوں کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے۔ چھ دہائیوں سے ہمارے حکمران طبقہ نے امریکہ اور مغربی ممالک کی مالی امداد پر عیاشیاں کی ہیں۔ ملک کا بال بال قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ اگرامریکہ پاکستان پر معاشی پابندیاں عائد کرتا ہے تو پاکستان کی دنیا بھر میں ہونے والی برآمدات کو شدید نقصان پہنچے گا۔ بیرونی قرضے ملنا بند ہوجائیں گے۔ باہر سے درآمد ہونے والی اشیا کی قلت ہوجائے گی۔ پاکستان کے دشمنوں خصوصاً انڈیا کی یہی خواہش ہے کہ پاکستان کا معاشی دیوالیہ نکلے اور ملک افراتفری میں مبتلا ہوجائے۔ پہلے ہی ہم پر امریکہ اور انڈیا نے ایف اے ٹی ایف کی صورت میں ایک تلوار لٹکائی ہوئی ہے جس کے نتیجہ میں بیرونی سرمایہ کاری کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ اب اگر امریکہ پاکستان کے ساتھ مزید سختی سے کام لیتا ہے تو معاشی بدحالی ملک میں افراتفری اور انتشار کی صورتحال پیدا کرسکتی ہے۔ تاہم یہ وہ منظر نامہ ہے جب امریکہ ہمارے خلاف کوئی انتہائی اقدام کرے۔ امید نہیں کی فی الحال صدر بائیڈن اس حد تک جائیں گے گو خطرہ موجود رہے گا۔

مسٔلہ صرف افغانستان نہیں بلکہ پاکستان کی مجموعی خارجہ پالیسی کا ہے۔ امریکہ کا سب سے بڑا ہدف چین ہے جسکی بڑھتی ہوئی طاقت سے واشنگٹن کے حکمران خائف ہے۔ امریکہ کامقصود چین کی طاقت کو محدود کرنا اور اسکے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ کو ناکام بنانا یا تاخیر کا شکار کروانا ہے تاکہ بین الاقوامی تجارتی راستوں پر اسکی تھانیداری قائم رہے۔ اعلیٰ امریکی عہدیدار کئی سال سے کھُل کر پاکستان سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ چین کے سی پیک منصوبہ سے علیحدگی اختیار کرکے امریکہ کے اتحاد میں شامل ہوجائے لیکن پاکستان نے یہ مطالبہ نہیں مانا۔ افغانستان سے نکلنے کے بعد امریکہ کی کوشش تھی کہ پاکستان اسے اپنی سرزمین پر ایک فضائی اڈّہ بنانے کی اجازت دے تاکہ وہاں سے بیٹھ کر وہ افغانستان کے ساتھ ساتھ چین، رُوس پر نظر رکھ سکے۔ پاکستان سے انکار پر امریکی سامراجی تلملاہٹ کا شکار ہیں۔ پاکستان کے اندر بھی امریکی لابی اپنے ریاستی داروں کے خلاف زہر اگل رہی ہے۔ ہمارے نام نہاد صحافی، لبرل دانشور پاک فوج اور قوم پرست رہنماؤں پر حملہ آور ہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ، لبرل طبقہ بھارت نوز اور امریکہ کا حامی ہے۔ اسکی خواہش ہے کہ پاکستان بھارت کی ایک طفیلی ریاست بن جائے۔

ہماری ایک بڑی سیاسی جماعت کے قائد ان دنوں بار بار واشنگٹن کے دورے کررہے ہیں۔ پس ِپردہ وعدے وعید کیے جارہے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی اشرافیہ میں امریکی سامراج اور برطانیہ کے پٹھوؤں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کے سیاستدان اپنے اقتدار کے لالچ میں شیطان سے بھی اتحاد کرنے کیلیے تیار ہوجاتے ہیں۔ ماضی میں انہوں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی قبول کرلی لیکن کرسی کی ہوس نہیں چھوڑی۔ اس موقع پر قوم پرست سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کو ایک مضبوط موقف اختیار کرنا چاہیے۔ قوم کومشکل صورتحال سے نبردآزما ہونے کیلیے متبادل حل پیش کرنا چاہیے۔ چین ہو یا دوست عرب ممالک سب اپنے مفادات کے تابع ہیں۔ پاکستان کسی پر مکمل انحصار نہیں کرسکتا۔ اگر پاکستان امریکی دباؤ میں آیا تو دیگر ممالک بھی ہماری کمزوری کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ وہ ہم سے زیادہ سے زیادہ شرائط منوانے کیلیے زورلگائیں گے۔ بین الاقوامی تعلقات میں کوئی کسی پر ترس نہیں کھاتا۔ سامراج کا مقابلہ کرنے کیلیے پاکستانی قوم کو متحد ہونا ہوگا۔