ملکی معیشت کے کچھ مثبت اشاریے ہیں اور کچھ منفی۔ ملکی گاڑی درمیانی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے۔ البتہ عوام کو مہنگائی کے سخت جھٹکے برداشت کرنے پڑ رہے ہیں جو اب خاصے تکلیف دہ ہوچکے ہیں۔ بین الاقوامی ادارے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے گزشتہ ماہ اعتراف کیا کہ پاکستان کی معاشی شرحِ ترقی اسکے اندازوں سے زیادہ رہی ہے۔ اس سال تیس جون کو ختم ہونے والے مالی سال میں پاکستان نے اپنی معیشت کی نمو تقریباً چار فیصد بتائی جبکہ آئی ایم ایف نے ڈیڑھ فیصدترقی کی پیشین گوئی کی تھی۔ ہمارے ملک میں ایسے ماہرین معیشت موجود ہیں جو ہرحکومت سے یہ توقع کرتے ہیں کہ انہیں کسی اعلیٰ عہدے پر تعینات کیا جائے۔ جب حکومت ان ماہرین کی خواہش پوری نہیں کرتی تویہ معیشت کے منفی پہلوؤں کو اجاگر کرنے لگتے ہیں اور یہ تاثر دیتے ہیں کہ معاشی صورتحال بہت خراب ہے، کشتی ڈوب رہی ہے۔ آجکل بھی کچھ ایسا ہورہا ہے۔ میڈیا میں معیشت کی یکطرفہ تصویر پیش کرنے والوں کی بہتا ت ہے۔
کورونا وبا کے دنوں میں دنیا کی اکثر معیشتیں مندی کا شکار ہیں۔ ان حالات میں پاکستان میں اقتصادی سرگرمیوں کا تخمینوں سے زیادہ ترقی کرلینا اس لئے ممکن ہوا کہ حکومت نے کچھ خاص اقدامات کیے تھے۔ ایک تو اسٹیٹ بینک نے قرضوں پر شرح سود خاصی کم کردی جس سے سرمایہ کاروں کو کاروبار کرنے میں آسانی ہوئی۔ کاروباری لوگوں کے لیے تو حکومت نے خاص طور سے کم شرحِ سود پر قرضے مہیاکیے۔ احساس کیش پروگرام کے تحت مستحق خاندانوں میں اربوں روپے کی امداد تقسیم کی گئی جس سے انکی قوّتِ خریدمیں اضافہ ہوا۔ تجارت کو فروغ ملا۔ یہ سارے اقدامات کم و بیش اب بھی جاری ہیں۔ اسٹیٹ بینک نے اگلے روز قرض کی شرح سود میں بہت معمولی سا اضافہ کیا ہے۔ اس لیے امید یہی ہے کہ رواں سال بھی معاشی ترقی کی شرح چار فیصد سے زیادہ رہے گی جو موجودہ حالات میں اچھی پیش رفت ہے۔ حکومتی پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ ملک میں تعمیرات کے شعبہ میں تیزی آئی ہے۔ سیمنٹ کی کھپت، پراپرٹی کی قیمتیں زیادہ ہوگئی ہیں۔ کاروں اور موٹر سائیکلوں کی ملکی پیداوار اور فروخت میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ اندرون ملک سیاحت پھل پھول رہی ہے۔ یہ متوسط طبقہ کی خوشحالی کے اشاریے ہیں۔ برآمدات کی اشیا بنانے والی صنعتوں کی پیداوار کا گراف اُوپر گیا ہے۔ اس سال چاول اور کپاس کی پیداوار گزشتہ برس کی نسبت اچھی ہوئی ہے۔
معیشت کا ایک روشن پہلو یہ ہے کہ ملک میں زرِ مبادلہ کے ذخائر کی صورتحال اچھی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے پاس اپنے خزانہ میں بیس ارب ڈالر موجود ہیں۔ نجی بینکوں کے ذخائر ملا کر مجموعی رقم تقریباًاٹھائیس ارب ڈالر ہوجاتی ہے۔ حکومت نے یورو بانڈز اور روشن ڈیجیٹل اکائونٹ کے ذریعے بھی اڑھائی ارب ڈالر سے زیادہ جمع کیے ہیں۔ مطلب، ملک کے پاس اتنا زرِمبادلہ ہے کہ تین ماہ کی درآمدات کی رقم آسانی سے ادا کی جاسکتی ہے۔ ہماری ایک بڑی خوش نصیبی یہ ہے کہ بیرون ملک محنت کش پاکستانیوں نے کورونا وبا کے دوران میں بھی زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ وطن بھیجا۔ گزشتہ مالی سال میں ساڑھے 29 ارب ڈالر کی ترسیلات زر ملک میں آئیں۔ درحقیقت پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بیرون ملک سے آنے والا سرمایہ ہے۔ اسی کے نتیجہ میں ملک میں ایک بڑا متوسط طبقہ وجود میں آچکا ہے۔ تجارت پھیلی ہے۔ پراپرٹی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ کورونا وبا کے باعث ہنڈی کا کاروبار معطل ہوگیا تھا ا س لئے بھی گزشتہ برس ترسیلات ِزر بڑھ گئی تھیں۔ ہوسکتا ہے اس سال وبا کا زورٹوٹنے پر ہنڈی دوبارہ شروع ہوجائے تو سرکاری چینل کے ذریعے آنے والی رقوم میں کچھ کمی ہوجائے۔ تاہم سرکاری تخمینہ یہی ہے کہ بیرون ممالک سے آنے والی رقوم میں کمی نہیں ہوگی بلکہ کچھ اضافہ ہوگا۔
معیشت کا دوسرا رُخ دیکھیے۔ معاشی ترقی اور ترسیلات ِزر بڑھنے کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ لوگوں کی آمدن بڑھی ہے۔ ہوسکتا ہے مزدور، تنخواہ دار طبقہ کی آمدن نہ بڑھی ہو لیکن زراعت کے شعبہ میں گندم اور گنے کی قیمتیں خاصی زیادہ ہوجانے سے کاشتکاروں کی قوتِ خرید میں اضافہ ہوا ہے۔ جن خاندانوں کے افراد ملک سے باہر ہیں اور غیرملکی کرنسی میں رقوم بھیج رہے ہیں انکی خریداری کی استعداد بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ چونکہ لوگ زیادہ خریداری کررہے ہیں ا س لئے اشیا کی مجموعی طلب کا گراف اُوپر چلا گیا ہے۔ مثلاً موبائل فون کی درآمد اور فروخت فراٹے بھر رہی ہے۔ ہم کھانے کا تیل، دالیں اور کچھ حد تک گندم اور چینی بھی بیرون ملک سے منگواتے ہیں۔ نئی صنعتوں کے قیام کے لئے بیرون ممالک سے مشینری منگوائی جارہی ہے۔ یوں گزشتہ تین ماہ سے درآمدات کا حجم بہت بڑھ گیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ تجارتی خسارہ بڑھنے لگا ہے۔ امریکی ڈالر کی طلب آسمان کو چھو رہی ہے۔ افغانستان کی غیر یقینی صورتحال کے باعث بھی پاکستان میں امریکی ڈالر کی مانگ میں اضافہ ہُوا ہے کیونکہ افغان باشندے پاکستانی منڈی سے ڈالر خرید رہے ہیں۔ مرکزی بینک نے سوا ارب ڈالر اپنے ذخائر سے مارکیٹ میں ڈالے تاکہ کچھ استحکام آجائے لیکن ڈالر کی قیمت رُکنے کا نام نہیں لے رہی۔ پاکستانی روپیہ چند ما ہ میں سترہ اٹھارہ روپے نیچے چلا گیا ہے۔ جب روپیہ کی قدر کم ہوتی ہے تو ہر چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ مہنگائی ہوتی ہے۔ یہ بات عوام الناس کے لئے پریشان کُن ہے۔ تجارتی خسارہ کو کم کرنے اور روپیہ کی قدر کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ حکومت فوری طور پر چند ماہ کے لئے غیر ضروری اشیا کی درآمد پر پابندی لگائے تاکہ درآمدی بل کم ہوسکے۔
تجارتی خسارہ ایک حد سے آگے نہ بڑھے۔ اگر یہ کام نہ کیا گیا تو معیشت واپس اُسی جگہ پر چلی جائے گی جہاں مسلم لیگ(ن) کی حکومت چھوڑ کر گئی تھی کہ ملک زرِمبادلہ کے شدید بحران کا شکار اور نادہندگی کے دہانے پر تھا۔ پاکستان کو ایک بار پھر دوست ملکوں کے سامنے زرِمبادلہ کے لئے جھولی پھیلانا پڑے گی۔ اگر چند ماہ تک اسمارٹ فون، میک اپ کا سامان، غیر ملکی دودھ، مکھن، پنیر نہیں آئے گا تو کوئی قیامت نہیں آجائے گی۔ ہمیں اپنی چادر کے مطابق پاؤں پھیلانے چاہئیں۔ مہنگائی کے خلاف بھی حکومت کو ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے جن کا اثر لوگ محسوس کریں۔ تین برسوں میں محنت کش طبقہ کی قوّت ِخرید نصف رہ گئی ہے۔ اسکا مداوا کرنا بہت ضروری ہے۔ وفاقی حکومت بجٹ کی دیگر مدوں سے رقوم کاٹ کر احساس کیش پروگرام کی امدادی رقم اتنی بڑھائے کہ غریب لوگ زندہ رہنے کے لئے کم سے کم آٹا، چینی، گھی تو خرید سکیں۔ سولہ گریڈ تک کے سرکاری ملازموں اور پنشنروں کو مہنگائی الاؤنس ملنا چاہیے۔ اگر کم آمدن والوں کو مہنگائی سے ریلیف نہ دیا گیا تو سماجی بے چینی پیدا ہوگی جسکے سیاسی نتائج ہوں گے۔