چاروں طرف چیخ و پکار بلند ہے کہ مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے۔ آٹا، چینی، سبزیاں، دوائیں اور دیگر اشیا دو برسوں میں بہت مہنگی ہوگئی ہیں۔ غریب تو غریب متوسط طبقہ کے لیے بھی گھر کے اخراجات پورے کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ دو برسوں میں ہر گھر کا خرچ اوسطاً پینتیس سے چالیس فیصد بڑھ گیا ہے گو سرکاری افراطِ زرکی شرح اتنی زیادہ نہیں ہے لیکن حکومت مہنگائی کا حساب کتاب کرتے ہوئے جن چیزوں کو زیادہ وزن دیتی ہے عام آدمی اپنی جمع تفریق میں انکو مختلف انداز سے دیکھتا ہے۔
مہنگائی کی بنیاد تو اس وقت پڑ گئی تھی جب تحریک انصاف کی حکومت نے آتے ہی روپے کی قدر کم کرنا شروع کردی تھی۔ تین برس پہلے ایک ڈالر ایک سوتین روپے کے برابر تھا۔ اب تقریبا ایک سو پینسٹھ کے برابر ہے۔ جب ڈالر مہنگا ہوتا ہے تو ہر چیز کی گرانی بڑھ جاتی ہے۔ وہ چیزیں جو ملک کے اندر پیدا ہوتی ہیں جیسے گندم اور چینی ان پر بھی عالمی منڈی میں اجناس کی قیمتوں کا اثرضرور پڑتا ہے۔ مقامی تھو ک کا تاجر اور مل مالکان عالمی منڈی کی قیمتیں دیکھ کر اپنے مال کا نرخ مقرر کرتے ہیں۔ نوازشریف کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے چار برسوں تک پاکستانی روپے کو مصنوعی طور پر اسکی اصل مارکیٹ ویلیو سے اُوپر رکھا۔ اس مقصد کی خاطر انہوں نے قومی خزانہ سے بائیس ارب ڈالر کھلی منڈی میں فروخت کیے تاکہ ڈالروں کی سپلائی اتنی زیادہ رہے کہ اسکی قیمت روپے کے مقابلہ میں بڑھنے نہ پائے۔ اگر اسحاق ڈار بتدریج روپے کو اسکی اصل مارکیٹ ویلیو کے قریب لاتے رہتے تو بعد میں روپے کی قدر یکدم کم نہ کرنا پڑتی۔ اسحاق ڈار جس پالیسی پر عمل پیرا تھے وہ چار پانچ برس سے زیادہ نہیں چل سکتی تھی اسی لیے ن لیگ کی حکومت کے آخری سال میں مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اس پالیسی کو بدلا۔ تحریک انصاف اور عمران خان کی بدقسمتی یہ ہے کہ انہیں معیشت اس حال میں ملی کہ ان کیلئے کڑوی دوا استعمال کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اب روپے کی قدر میں شدید گراوٹ کے نتیجہ میں جو مہنگائی ہوئی ہے اسکی ساری بدنامی ان کے حصہ میں آرہی ہے۔ عام آدمی معیشت کی پیچیدگیوں کو نہیں سمجھتا۔ اسے تو اپنی دال روٹی سے غرض ہے جو چیز سامنے نظر آرہی ہے اسکے لیے وہ اہم ہے۔
سبزیوں اوردواؤں کے مہنگے ہونے کا ایک اور سبب ہے۔ وہ ہے انڈیا سے تجارت کا بند ہوجانا۔ انڈیا کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور بالاکوٹ حملہ کے بعد پاکستان نے بھارت سے تجارت منقطع کردی۔ نواز شریف نے انڈیا سے زرعی اجناس کی درآمد کھول دی تھی جس سے سبزیوں کی قیمتیں مستحکم ہوگئی تھیں۔ لیکن اُس وقت پاکستان کے کاشتکار چلا رہے تھے کہ ان کو اِس درآمد سے بہت نقصان ہورہا ہے۔ بہت سے کاشتکاروں نے کنٹرول شیڈ بنا کر جدید فارمنگ شروع کی تھی تاکہ ہر موسم میں سبزیاں پیدا کرسکیں۔ اس شعبہ میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی گئی تھی۔ لیکن انڈیا سے زرعی اشیا کی درآمد شروع ہونے سے انہیں نقصان پہنچا۔ انکی سرمایہ کاری ڈوب گئی۔ تحریک انصاف نے بھارت سے زرعی اشیا کی درآمد پر پابندی لگائی جس سے ٹماٹر، آلو اور ایسی دیگر اشیا مہنگی ہوگئیں۔ تاہم مقامی کاشتکار کو فائدہ ہوا۔ دواؤں کا خام مال بھی بھارت سے سستا آتا تھا۔ اب وہ آنا بند ہوگیا۔ کچھ دوائیں منگوائی گئیں تو شور مچ گیا کہ کمیشن کھانے کے لیے ایسا کیا گیا ہے۔ حالانکہ انکی درآمد کا مقصد دوائیوں کی قیمتیں مستحکم رکھنا تھا۔ اس وقت پاکستان میں افراط زرجو بہت زیادہ ہے اسکی ایک بڑی وجہ بھارت سے تجارت کا بند ہونا ہے۔ اگر حکومت بھارت سے تجارت کھولتی ہے تو اس پر کشمیر سے بے وفائی اور غداری کا الزام لگے گا۔ بند رکھتی ہے تو مہنگائی کو کنٹرول کرنا مشکل ہے۔ کورونا وبا نے بھی لوگوں کی معیشت پر بہت منفی اثر ڈالا ہے۔ آمدن کم ہوئی ہے۔ اس وجہ سے بھی مہنگائی کا بوجھ زیادہ محسوس ہورہا ہے۔ ورنہ پیپلز پارٹی کے پہلے تین برسوں ( 2008-11)میں تو موجودہ دور سے بھی زیادہ مہنگائی تھی۔
پاکستان ایسے ملک میں جس کی آمدن کم اور اخراجات زیادہ ہیں مہنگائی ہوتے رہنا ایک فطری بات ہے۔ البتہ اسے ایک حد میں رہنا چاہے۔ اگر حکومت تاجر طبقہ کے خلاف ریاستی طاقت استعمال کرے گی تواشیاء مارکیٹ سے ناپید ہو جائیں گی۔ چیزوں کی قلت ہوجائے گی۔ لوگوں پر یہ بات مہنگائی سے بھی زیادہ گراں گزرے گی۔ حکومت گندم کی سپلائی یقینی بناتی ہے جو اچھی بات ہے کیونکہ ملک میں اسیّ فیصد غریب لوگ ہیں۔ ان کی خوراک کا سب سے بڑا جزو گندم کا آٹا ہے۔ کم آمدن والے طبقہ کو ہونے والی مشکلات کم کرنے کی خاطر حکومت کئی اقدامات کرسکتی ہے۔ ایک توحکومت لاکھوں چھوٹے سرکاری ملازمین کوتنخواہ کے ساتھ تین چار ہزار روپے ماہانہ مہنگائی الاؤنس دے سکتی ہے۔ دوسرے، حکومت کو یوٹیلیٹی اسٹورز کی تعداد بڑھانے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ لوگوں کو رعایتی قیمت پر کھانے پینے کی بنیادی اشیاء جیسے آٹا، چاول، چینی، دالیں فراہم کی جاسکیں۔ ان اسٹورز کی تعداد تین چار گنا بڑھانے کی ضرورت ہے۔ مہنگائی ایک مستقل مسئلہ ہے اور رہے گا۔ غریب لوگوں کوپورے طور پر آزاد منڈی کی معیشت کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ فی الحال حکومت اگر احساس کیش پروگرام کی دوسری قسط ضرورت مندخاندانوں میں تقسیم کردے تو اس سے بھی خاصا فرق پڑے گا۔ حکومت کے کئی ایسے اخراجات ہیں جنہیں کم کرکے عوام کو ریلیف مہیا کرنے کے ہنگامی اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔ یہ سال زیادہ مشکل ہے کیونکہ روپے کی قدر میں کمی اور کورونا وبا کے اثرات جمع ہوگئے ہیں۔ حکومت اپنی ترجیحات میں قدرے تبدیلی لا کر دانش مندی سے صورتحال کو کنٹرول کرلے تویہ وقت سہولت سے گزر جائے گا۔ وزیراعظم عمران خان کو اس معاملہ پر سنجیدگی دکھانا ہوگی۔