عوام حکومت سے مہنگائی کے باعث نالاں ہیں اور حکومت کو اسکا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ عام آدمی معاشی باریکیوں میں پڑنا نہیں چاہتا۔ وہ موٹی بات دیکھتا ہے۔ آپ لاکھ سمجھائیں کہ بین الاقوامی منڈی میں تیل اور اجناس کی قیمتیں زیادہ ہونے سے ہمارے ملک میں چیزوں کے دام بڑھ گئے ہیں۔ ہم افغانستان کے حالات سے متاثر ہورہے ہیں لیکن عام شہری کی تان اسی بات پر ٹوٹتی ہے کہ حکومت کس مرض کی دوا ہے؟ حکومت اُسکے لیے آسانی پیدا کرے۔ لوگ حکومت کو جادوگر سمجھتے ہیں جو ہر کام کرسکتی ہے۔ مہنگائی کے معاملہ کا کسی حد تک سیاسی پہلو بھی ہے۔ موجودہ حکومت کے مخالفین اپنے سیاسی بیانیہ کو تقویت دینے کیلیے مہنگائی کو ایسے بیان کرتے ہیں جیسے آج سے پہلے چیزوں کی قیمتوں میں کبھی کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ حالانکہ پیپلزپارٹی کے گزشتہ دور میں مہنگائی کی شرح موجودہ دور سے زیادہ تھی۔ مسلم لیگ(ن) نے پچھلی حکومت سنبھالتے ہی بجلی کے نرخ پچاس فیصد تک بڑھا دیے تھے۔ ہر سیاسی پارٹی اپوزیشن میں آکر مہنگائی کا شور کرتی ہے لیکن حکومت میں ہو تو اسکا جواز پیش کرتی رہتی ہے۔
ہم مسئلہ کا پائیدار حل چاہتے ہیں تو ٹھوس معاشی حقائق پر ٹھنڈے دل و دماغ سے نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ عالمی منڈی میں پیٹرولیم کی قیمتیں بڑھتی چلی جارہی ہیں۔ ایک سال میں دوگنا سے زیادہ ہوچکی ہیں۔ پاکستان اپنی ضرورت کا بیشتر تیل باہر سے درآمد کرتا ہے۔ فطری بات ہے کہ ملک کے اندر بھی پیٹرول، ڈیزل وغیرہ کی قیمتیں بڑھنی تھیں۔ جب ایندھن مہنگا ہوتا ہے، ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھ جاتے ہیں جسکا اثر تمام اشیاکی قیمتوں پرپڑتا ہے۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں اجناس کے دام بھی بڑھ گئے ہیں۔ ہمارا ملک دالیں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے خریدتا ہے۔ کھانے کا تیل ملائشیا اور انڈونیشیا سے آتا ہے۔ چائے کینیا سے۔ چینی اور گندم کی کچھ مقدار بھی دُور دراز کے ملکوں سے درآمد کی گئی ہے تاکہ انکی قلت نہ ہو۔ گزشتہ تیس برسوں میں زراعت کی ترقی پر توجہ دی ہوتی تو یہ اشیاء ملک میں وافر مقدار میں پیدا ہوتیں۔ باہر سے درآمد نہ کروانا پڑتیں۔ کورونا وبا نے دیگرممالک کی طرح پاکستان کے معاشی بحران کو مزید بڑھا دیا۔ اگست میں افغانستان میں طالبان کا راج قائم ہوگیا۔ امریکہ نے انکے زر مبادلہ کے ذخائر منجمد کردیے۔ افغان معیشت کا بوجھ بھی خاصی حد تک پاکستان پر منتقل ہوگیا۔ جب تک امریکہ اور عالمی برادری طالبان حکومت کا معاشی بائیکاٹ ختم نہیں کرتے، پاکستانی معیشت دباؤ میں رہے گی۔ افغانستان کی تجارت بالکل بند کریں گے تو وہاں بھوک ہوگی اور لوگ مہاجر بن کر پاکستان کی طرف آئیں گے۔ وہ زیادہ سنگین مسئلہ ہوگا۔
ملک میں آج جو کچھ ہورہا ہے وہ دہائیوں کی غلط ترجیحات اور ناقص پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ مثلاً جنرل پرویز مشرف اور مسلم لیگ(ن) کی گزشتہ حکومت نے چار برس تک پاکستانی روپے کی قدر کوڈالر کے مقابلہ میں مصنوعی طور پر اسکی اصل قیمت سے زیادہ رکھا۔ اسٹیٹ بینک قومی خزانہ سے ڈالر نکال نکال کر کھلی منڈی میں بیچتا رہا۔ زرمبادلہ کا بحران پیدا ہوگیا۔ اس بحران کو حل کرنے کی خاطر روپے کی قدر کم کی گئی تو مہنگائی کا طوفان آگیا۔ یہ حادثہ یکدم نہیں ہوا۔ وقت نے برسوں اسکی پرورش کی ہے۔ ملکی معیشت کو کئی دہائیوں سے ایڈہاک ازم پر چلایا گیا ہے۔ صنعتی بنیاد کو مضبوط نہیں بنایا گیا بلکہ درآمدات بڑھا کر جعلی، عارضی خوشحالی کا ماحول بنایا گیا۔ اگر روپے کی قدر وقت کے ساتھ ساتھ بتدریج کم ہوتی رہتی تو اب اسے گرانے کی ضرورت نہ ہوتی۔ ہمیں بار بار عالمی مالیاتی فنڈ کے پاس زر مبادلہ لینے کیلیے نہ جانا پڑتا۔ نہ ہم اسکی سخت شرائط پر عمل کرنے کیلیے مجبور ہوتے۔ اسوقت پاکستانی روپیہ کی قدر میں انتظامی اقدامات سے معمولی سا فرق پڑ سکتا ہے لیکن یہ واپس تین، چار سال پہلے کی سطح پر نہیں جاسکتا۔ اسی طرح کسی بھی پارٹی کی حکومت آئے چیزوں کی قیمتیں واپس پرانی سطح پر لانا ممکن نہیں۔ اگر روپیہ کی قدر کو مصنوعی طور پر گرنے سے روکیں گے توزرِمبادلہ کی قلت ہوجائے گی اور درآمدات کا پھاٹک مزید کھل جائے گا۔ ایسے عارضی اقدامات معیشت کیلیے ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر ملک کی درآمدات کا حجم برآمدات سے زیادہ ہوگا اور ملک میں افراطِ زر ہوگا تو کرنسی کی قدر کم ہونا لازمی امر ہے۔
اسوقت حکومت مہنگائی ختم نہیں کرسکتی کیونکہ اسکے اسباب اسکے دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔ عالمی منڈی میں پیٹرولیم اور اجناس کی قیمتوں کو سنبھلنے میں وقت لگے گا۔ افغانستان کی صورتحال بھی جلد ٹھیک ہونے کے آثار نہیں۔ انتظامی اقدامات سے صرف اُنیس بیس کا فرق پڑتا ہے۔ یوں بھی ترقی پذیر معیشت میں مہنگائی رہتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ساتھ ساتھ لوگوں کی آمدن بڑھتی رہے۔ عوام کو سہولت دینے کی خاطر حکومت یہ کرسکتی ہے کہ مہنگائی سے متاثرہ کم آمدن طبقہ کو مالی مدد فراہم کردے۔ ملک میں تقریبا تین کروڑ چالیس لاکھ خاندان ہیں۔ ان میں سے ایک تہائی خاندان تنخواہ، پنشن اور احساس کیش پروگرام کی صورت میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے براہ راست کیش رقم وصول کرتے ہیں۔ مہنگائی سے بچانے کیلیے حکومت ان کی آمدن قدرے بڑھا دے تو آبادی کے ایک بڑے حصّہ کو کچھ ریلیف مل جائے گا۔ وفاقی حکومت نے راشن خریدنے کیلیے ایک نئے پروگرام کا اعلان کیا ہوا ہے لیکن اس پر ابھی عمل درآمد شروع نہیں ہوا۔ اس کام کی رفتار کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کو ضروری اشیاء کے نرخ مستحکم کرنے کی خاطر بعض درمیانی مدت کے اقدامات بھی کرنے چاہئیں۔ جب قیمتیں مصنوعی طور پر بڑھتی ہیں تو پرچون کے دکاندار الزام تھوک کے بیوپاریوں پر ڈالتے ہیں۔
حکومت کارخانوں، ملوں پر سختی کرتی ہے تو وہ ہڑتالوں پر چلے جاتے ہیں یا اشیا کی قلت پیدا کردیتے ہیں۔ بحران مزید سنگین ہو جاتا ہے۔ پاکستان ایسے ملک میں جہاں غریب لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، عوام کو مکمل طور پر نجی شعبہ کے حوالے کردینا مفید حکمت عملی نہیں۔ ایک منتخب حکومت دو طرف سے دباؤ میں رہتی ہے۔ عوام سستی اشیا کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جبکہ نجی شعبہ منافع کمانا چاہتا ہے اور سرکاری مداخلت کی مزاحمت کرتا ہے۔ ان دونوں میں توازن پیدا کرنے کی خاطر ملی جلی معیشت کا قیام بہترراستہ ہے۔ یعنی ضروری اشیا تیار کرنے کیلیے سرکاری شعبہ محدود پیمانے پر نجی شعبہ کے ساتھ ساتھ کام کرتا رہے جیسے تعلیم اور صحت کے میدانوں میں ہے۔ اگر کچھ کارخانے(آٹا، گھی وغیرہ) سرکاری ملکیت میں ہوں تو حکومت ان کی مدد سے چیزوں کی قیمتیں مستحکم رکھ سکتی ہے۔ مثلاًاگر نجی ملیں ہڑتال کریں تو سرکاری ملوں کے ذریعے آٹے، گھی کی رسد جاری رکھی جاسکتی ہے۔ یوٹیلیٹی اسٹورز پرائیویٹ دکانوں کا متبادل ہیں۔ خواہ یہاں کرپشن بھی ہے لیکن اسکے باوجود عوام کو ان سے فائدہ پہنچ رہا ہے۔ ان اسٹورز کی تعداد زیادہ ہونی چاہیے۔ جہاں تک کرپشن کا تعلق ہے تو اگر اسے دیکھا جائے تو پاکستان میں ہر ادارہ بند کرنا پڑے گا۔ اور کیا نجی شعبہ میں بدعنوانی نہیں ہے؟ ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری، ملاوٹ، وسیع پیمانے پر ٹیکس چوری بھی تو کرپشن ہیں۔