یوں لگتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں برف پگھل گئی ہے۔ دونوں ممالک نے اپنے اپنے موقف سے پیچھے ہٹ کر امن کی طرف پہلا قدم بڑھالیا ہے۔ کشمیر میں عارضی سرحد یا لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کرلی ہے۔ تاہم معلوم نہیں دونوں ملکوں نے اپنے اپنے داخلی حالات سے مجبور ہو کر یہ اقدام کیا ہے یا بیرونی دباؤ پر یا دونوں وجوہ کی بنا پر۔ ابھی یہ بھی پتہ نہیں کہ امن کیلئے کیا جانیوالا یہ عمل عارضی نوعیت کا ہے یا مستقل پالیسی کا حصّہ۔ دو ہفتے پہلے تک یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کی عارضی سرحد پر سات آٹھ برسوں سے جاری مسلسل کشیدگی اور وقفے وقفے سے ہونے والی فائرنگ کا تبادلہ یکایک ختم ہوجائے گا۔ بندقیں اور توپیں ایک دم خاموش ہوجائیں گی لیکن ایسا واقعہ حقیقت میں ہوگیا۔ دونوں اطراف کی افواج کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز نے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا۔ اس کے تحت دونوں افواج نے سنہ دو ہزارتین میں ہونے والے ایک معاہدہ کی پاسداری کا عہد کیا جسکے مطابق کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی یا سیز فائر پر عمل ہوگا۔ ایک وقت تھا جب دونوں ممالک دو سال پہلے جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔ دونوں نے ایک دوسرے پر فضائی حملے کیے تھے، سفارتی تعلقات کم ترین سطح پر لے آئے تھے، دو طرفہ تجارت اور سفر تقریباً ختم کردیے گئے تھے اور کہاں اچانک دونوں فوجوں کے افسروں نے مشترکہ اعلامیہ کے مطابق خوشگوار، آزادانہ اور بے تکلف ماحول، میں ملاقات کی اور ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا۔ سفارتی طور پر مشترکہ اعلامیہ جاری ہونا باہمی تعلقات میں ایک بڑی پیشرفت سمجھا جاتا ہے۔
کسی اعلان پر دو دشمن ملکوں کا متفق ہوجانا عام بات نہیں۔ اس اتفاق پر پہنچنے کے لیے پس پردہ کئی ماہ کی سفارتی کوششیں درکار ہوتی ہیں۔ بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف اور بھارت میں انکے ہم منصب اجیت دوول چند ماہ سے واشنگٹن میں ملاقاتیں، مذاکرات کررہے تھے تاکہ اتفاق رائے ہوجائے اور یہ اعلامیہ اسی کا نتیجہ ہے۔ تاہم معید یوسف نے فوراً ان خبروں کی تردید کردی۔ بہرحال معید یوسف نہ سہی پاکستان کی کوئی اور اہم شخصیت اس خفیہ سفارت کاری میں مشغول تو تھی۔ اچانک سے ایسے نازک معاملات اور تنازعات پر اعلانات اور عہد نامہ نہیں ہوجایا کرتے۔ دونوں ہی ملکوں نے رازداری سے کام لیا، جب تک وہ کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ گئے تاکہ میڈیا کے پروپیگنڈہ ذریعے بات چیت سبوتاژ نہ کردی جائے۔ دونوں ملکوں کی افواج کے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ دونوں نے چوبیس اور پچیس فروری کی شب سے لائن آف کنٹرول اور دیگر علاقوں میں تمام معاہدوں، مفاہمتوں اور جنگ بندیوں پر سختی سے عمل کرنے پر اتفاق کیا۔ ایسا دوٹوک دفاعی نوعیت کا حامل اعلان اسی صورت میں ممکن ہے، جب اسے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور پاکستانی فوجی قیادت اور دوسری جانب بھارت کے وزیراعظم نریندرا مودی، بھارتی افواج کی مکمل حمایت و تائید حاصل ہو۔ پاکستان میں آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور بھارت میں نریندرا مودی کی منطوری کے بغیر یہ امن معاہدہ نہیں ہوسکتا تھا۔ دونوں ممالک نے جنگ بندی پر اتفاق کرکے اپنے اپنے موقف سے پسپائی اختیار کی ہے، جو امن کی خاطر کوئی بُری بات نہیں۔ پاکستان کا موقف تھا کہ مذاکرات شروع کرنے کیلیے شرط ہے کہ بھارت پہلے مقبوضہ کشمیر کی اپنے آئین کے آرٹیکل 370 والی خصوصی حیثیت بحال کرے جو اس نے گزشتہ برس ختم کردی تھی اورنئی آئینی ترمیم کے ذریعے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھی اپنے ملک کا حصّہ قرار دیدیا تھا۔ بھارت کی شرط یہ تھی کہ پاکستان سے بات چیت اسوقت شروع ہوگی جب اسکے بقول پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کو دہشت گردی قرار دیتا ہے اور اسکا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتا آیا ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت بحال نہیں کی لیکن پاکستان سے معاہدہ کی تجدید کرلی جو ایک طرح سے نئے دو طرفہ امن سمجھوتہ کے مترادف ہے۔ دوسری طرف، پاکستان نے بھی کچھ یقین دہانیاں کرائی ہونگی۔ امریکہ یا کوئی اور طاقت فریقین میں ضامن بنے ہونگے۔
سوال یہ ہے کہ دونوں ممالک کو اچانک امن کی ضرورت کیوں پیش آگئی۔ ایک نظریہ ہے کہ امریکہ کے نئے صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ نے دونوں ممالک پر زور ڈالا کہ وہ کشیدگی کم کریں اور تعلقات بہتر بنائیں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ اگر وہ چاہتا ہے کہ افغانستان اور وسط ایشیا میں پاکستان واشنگٹن کیلئے مددگار ثابت ہو تو وہ بھارت پر دباؤ ڈالے کہ سرحدی کشیدگی کو ختم کرے تاکہ پاکستان اپنی توجہ اور توانائیاں مغربی سرحد کی جانب صرف کرسکے۔ بعض لوگ زیادہ پُرجوش ہیں کہ امریکہ پاکستان اور بھارت میں کشمیر کا تنازع حل کرواکر انہیں اپنے اتحاد میں شامل کرلے گا تاکہ یہ دونوں مل کر چین کی بڑھتی طاقت کے سامنے بند باندھ سکیں۔ ایساممکن نہیں لگتا کیونکہ پاکستان اور چین اس حد تک دفاعی اور معاشی رشتوں میں بندھ چکے ہیں کہ اسلام آباد اپنے ہمسایہ دوست کو چھوڑ کر اسکے خلاف کسی اتحاد میں شامل نہیں ہوسکتا۔ دوسری طرف، بھارت بڑا ملک ہے۔ امریکہ بھارت کو ایک حد سے زیادہ مجبور نہیں کر سکتا۔ چین کی طاقت کو محدود کرنے کی خاطر بھارت کے ساتھ اتحاد قائم رکھنا، امریکہ کی مجبوری ہے۔ اگر نریندرا مودی کشمیر پر قلابازی کھائیں گے اور اسکی خصوصی آئینی حیثیت بحال کریں گے تو انکی اور انکی جماعت بھارتی جنتا پارٹی کی سیاست کو شدید نقصان ہوگا۔ زیادہ قرین قیاس یہی ہے کہ موجودہ امن کااقدام عارضی نوعیت کا ہے۔ دونوں ملکوں کی معیشت کورونا وبا سے نڈھال ہے۔ دونوں ملکوں کے داخلی سیاسی مسائل بھی ابتر ہیں۔ جیسے ہی یہ تازہ دم ہونگے، انکے روّیے بدل جائیں گے۔ بہرحال اگر پاکستان اور بھارت کسی وجہ سے بھی امن قائم کرلیں اور کشمیر کے تنازعہ کو حل کرلیں تو ان دونوں کے معاشی اور سیاسی حالات بھی بہتر ہوسکتے ہیں۔ فی الحال تو ہم زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ دونوں ملکوں نے اپنے تنازع کو وقتی طور پر منجمد کرلیا ہے۔