Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Pak Bharat Taluqat

Pak Bharat Taluqat

یہ بات تو واضح ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پس پردہ مذاکرات ہورہے ہیں۔ سفارتی ذرائع کا دعوی ہے کہ گزشتہ سال دسمبر سے دونوں ملکوں کے انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان کے مابین ملاقاتیں ہوئی ہیں جن کے نتیجہ میں لائن آف کنٹرول پر سیز فائر معاہدہ پر عمل درآمد کا سمجھوتا طے پایا۔ انڈس کمیشن کے نمائندوں کا اجلاس ہوا۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ یہ بات چیت دونوں ملکوں کے انٹیلی جنس اداروں کے حکام کے درمیان ہورہی ہے۔ یعنی اس میں باقاعدہ سفارت کاری شامل نہیں۔ تاہم جب دو متحارب ملکوں کے انٹیلی جنس اداروں کے درمیان گفتگو ہورہی ہو تو اس میں دفتر خارجہ براہ راست نہ سہی بالواسطہ طور پر تو شریک ہوتا ہے۔ دفتر خارجہ کے ماہرین انٹیلی جنس حکام کو بریفنگ دیتے ہیں کہ ہمارے کم سے کم کیا مطالبات ہیں اور ہماری سرخ لکیر کہاں ہے جس سے آگے ہم نہیں جاسکتے۔ ایک سازگارفضا بنائی جا رہی ہے تاکہ عوام کے منفی ردعمل سے بچا جاسکے۔ ڈر ہے کہ لوگ کہیں گے کہ آپ تو پہلے کہتے تھے کہ جب تک انڈیاکشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت بحال نہیں کرتا ہم اس سے مذاکرات نہیں کریں گے تو اب اس مطالبہ کے پورا ہوئے بغیر ہی بات چیت کیوں شروع کردی؟ اسلیے فضا سازگار بنانے کی ذمہ داری ادا کرنے والے صحافی حضرات طرح طرح کی لولی لنگڑی تاویلیں پیش کررہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ اس وقت پاکستان، بھارت کے مقابلہ میں بڑی تگڑی پوزیشن میں ہے اسے بات چیت کا فائدہ ہوگا۔ کشمیر پر بات چیت چلتی رہے گی لیکن ہم سیاچن، سرکریک اورباہمی تجارت ایسے دیگر معاملات حل کرسکتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ انتہا پسند نریندرمودی یکا یک پاکستان سے امن کا خواہشمند ہوگیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے میڈیامیں جس جوش و خرو ش سے پاک بھارت امن مذاکرات کی تبلیغ کی جارہی ہے انڈیا میں اسکا کوئی ہلکا سا تذکرہ بھی نہیں کررہا۔

انڈیا کی دیرینہ حکمت عملی رہی ہے کہ پاکستان کا کوئی مطالبہ تسلیم نہ کرو لیکن اسے سفارتی سطح پر مشغول رکھو۔ جواہر لال نہرو بھی یہ کام کیا کرتے تھے۔ اسوقت کے بھارتی وزیر خارجہ سورن سنگھ اور پاکستانی وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان بات چیت کے متعددادوار ہوئے تھے لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ صدر جنرل ایوب خان نے نہرو حکومت سے پانی کی تقسیم کا سندھ طاس معاہدہ کیا تو وہ بھی بھارت کے سامنے جھک کر اپنے تین مشرقی دریا مکمل طور پر بھارت کے حوالے کردیے اور تین مغربی دریاؤں پر بھارت کا جزوی حق تسلیم کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھارت اسی معاہدہ کی شقوں کے تحت جہلم اور چناب پر ڈیم پر ڈیم تعمیر کیے جارہا ہے۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بھارت سے شملہ معاہدہ کیا تو اس میں ایسی شق شامل کی جو سراسر بھارت کے حق میں جاتی تھی کہ دونوں ممالک اپنے تمام تنازعات دوطرفہ طور پر حل کریں گے یعنی بین الاقوامی ثالثی کی نفی کردی۔ اسوقت ہی سفارتی ماہرین نے شملہ معاہدہ پر سخت تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ اس معاہدہ کے بعد اقوام متحدہ کی کشمیر پر قراردادوں کی حیثیت کو نقصان پہنچے گا۔

بھارت اسوقت پاکستان سے پس پردہ بات چیت اس ل لئے بھی کررہا ہے کہ اسے افغانستان کی صورتحال سے پریشانی ہے۔ امریکی فوجیں ستمبر تک افغانستان سے مکمل نکل جائیں گی۔ بھارت کی حمایت یافتہ حکومت کابل پر براجمان نہیں رہ سکے گی۔ نصف سے زیادہ افغانستان پرپہلے سے طالبان کی حکومت ہے۔ جلد ہی بیشتر علاقوں پر انکی عملداری ہوجائے گی۔ بھارت طالبان کے ساتھ تعلقات کار قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس سلسلہ میں اسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مدد درکار ہے۔ ان عرب ملکوں سے اسکے گہرے دوستانہ تعلقات ہیں۔ انہی ملکوں کے کہنے پر اس نے پاکستان سے پس پردہ بات چیت شروع کی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ جب تک طالبان سے تعلقات قائم ہوں پاکستان کو بات چیت میں مشغول رکھو۔ اسی لیے بھارتی حکومت کی طرف سے اس بات چیت پر ایک لفظ نہیں کہا گیا۔ کیونکہ دلی کے حکمران اسکی اونرشپ نہیں لینا چاہتے۔ اگر کشمیر پرکوئی رعایت دیے بغیر بھارت اور پاکستان کے مکمل سفارتی تعلقات قائم ہوجاتے ہیں اور تجارت شروع ہوجاتی ہے تو بھارت کی اس سے بڑی فتح کیا ہوسکتی ہے؟ مقبوضہ جموں کشمیر کواس نے اپنے ملک کا حصہ بھی بنالیا۔ اور پاکستان سے تعلقات بھی پہلے کی طرح معمول پر آگئے۔ کشمیریوں کے ساتھ ہماری طرف سے یہ بڑی بے وفائی ہوگی۔ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقت ہیں۔ بڑی جنگ کی صورت میں ان دونوں کا وجود ہی ختم ہوسکتا ہے۔ اس لئے جنگ خارج از امکان ہے۔ یہ سہی ہے کہ مغربی دنیا مسلمانوں کی جنگ آزادی کو بھی دہشت گردی قرار دیتی ہے۔ کشمیری حریت پسندوں کی جدوجہد کو بھارت نے دنیا بھر میں دہشت گردی بنا کر پیش کیا ہے۔ پاکستان انکی اخلاقی مدد کرے تو اس پر ایف اے ٹی ایف کی اقتصادی پابندیاں لگادی جاتی ہیں۔

کشمیریوں کا ایک بڑا قصور یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ اگر وہ غیر مسلم ہوتے تو مغربی دنیا مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کی طرح انکی آزادی کے حق کو تسلیم کرلیتی۔ ان حالات میں پاکستان کی آپشن محدود ہیں۔ ہم جنگ نہیں کرسکتے۔ ہم حریت پسندوں کی مسلح جدوجہد کی حمایت نہیں کرسکتے۔ لیکن ہم ایک کام تو کرسکتے ہیں کہ خود کو غاصب اور ظالم انڈیا سے دُور رکھیں۔ اس سے دوستی کی پینگیں نہ بڑھائیں۔ اگر انڈیا سے سفارتی تعلقات پوری طرح بحال نہیں ہوں گے تو کونسی قیامت آجائیگی؟ انڈیا سے تجارت بحال نہیں ہوگی تو کیا پاکستانی بھوک سے مرجائیں گے؟ پاکستان کے لیے باعزت راستہ یہی ہے کہ انڈیا سے تعلقات کوموجودہ سطح پر منجمد رکھا جائے۔ کشمیر پر اپنے موقف پر سختی سے قائم رہا جائے۔ اپنے موقف میں تبدیلی نہ لائی جائے۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہ تائیوان کو اپنے ملک کا حصہ سمجھتا ہے لیکن اس پر حملہ کرکے قبضہ نہیں کرتا، نہ اسے الگ ملک تسلیم کرتا ہے۔ مسئلہ کے حل کیلئے مناسب وقت کا منتظر ہے۔ ہمیں بھی کشمیر پر ایسا ہی کرناچاہیے۔