جیسے مسلمان اسلام کی بنیادی تعلیمات پر ایمان رکھتے ہیں۔ قرآن اور سنت کے بتائے ہوئے اصولوں کو عزیزسمجھتے ہیں۔ لبرل جمہوریت پر یقین رکھنے والے کچھ بنیادی اقدار کوآفاقی صداقت مانتے ہیں۔ جمہوریت، انسانی حقوق اور انسانی آزادیاں لبرل تہذیب کے بنیادی عقائد ہیں۔ امریکی اور یورپی ممالک انہی اقدار پر قائم ہیں۔ لبرل جمہوریت ایک طرح کا انسانوں کا بنایا ہوا مذہب ہے۔ یورپ، امریکہ، کینیڈا اور انکے اتحادی ممالک اس مذہب کی ترویج اور عالمگیر نفاذ کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ پاکستانی معاشرہ کی غالب اکثریت راسخ العقیدہ مسلمان ہے اور اسلامی تشخص سے گہری وابستگی رکھتی ہے۔ لیکن آبادی کا ایک مختصر سا تعلیم یافتہ طبقہ مغرب کی لبرل جمہوریت کا فروغ چاہتا ہے۔ آبادی کا ایک تیسرا طبقہ ایسا بھی ہے جو اسلام اور لبرل جمہوری تمدن دونوں کو ساتھ ساتھ لیکر چلنا چاہتا ہے گو فیصلہ کُن مرحلہ پر اسکا جھکاؤ اسلام کی طرف ہوتا ہے۔ ہمارا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آج تک ہم لوگ نہ تو پوری طرح اسلام کو اختیار کرسکے نہ جدید مغربی تہذیب کو۔ ہماری گاڑی کا ایک پہیّہ اسلام کا ہے دوسرامغربی تہذیب کا۔ گاڑی چل نہیں رہی۔ ہچکولے کھا رہی ہے کیونکہ اسلام اور لبرل جمہوری تہذیب میں گہرے تضادات ہیں۔ ہمارے عوام کی جذباتی وابستگی اسلام کے ساتھ ہے لیکن روزمرہ کے اجتماعی، سرکاری معاملات میں انہیں لبرل تہذیب کے بنائے ہوئے نظام سے واسطہ پڑتا ہے۔
1947 تک تقریباًڈیڑھ سو سال انگریزوں نے برصغیر پر حکومت کی۔ یہاں پر اپنی تہذیب رائج کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ ہمارے سیاسی نظام، ریاستی اداروں، نظام تعلیم اور نظام عدل و انصاف کو اپنی اقدار، روایات اور نظریات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی۔ لیکن ہمارے لوگوں کی اکثریت کا دل انگریزی نہیں بن سکا۔ البتہ ہمارا حکومتی نظام آدھا تیتر آدھا بٹیر بن گیا۔ اس پر انگریزی روایات کا غلبہ ہوگیا۔ ہمارا نظام انصاف انگریز معاشرہ کی صدیوں پر پھیلی روایات پر مبنی کامن لا کی بنیاد پر تشکیل دے دیا گیا جو برطانوی معاشرہ کے حقائق کا عکاس تھا اور ہمارے قبائلی، جاگیرداری معاشرہ کے بنیادی معاشرتی حقائق اور اسلامی تشخص سے تال میل نہیں رکھتا تھا۔ آزادی کے ستر سال گزرے کے باوجود کچھ معمولی ردوبدل کے ساتھ ہم اسی قانونی نظام سے چمٹے ہوئے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ دہائیاں گزر جاتی ہیں فوجداری اور دیوانی مقدمات عدالتوں میں زیر التوا رہتے ہیں۔ جزا اور سزا کا تصور بہت کمزور پڑ گیا ہے۔ لاقانونیت کا دور دورہ ہے۔ ہمار ملک ایک نیم ریاست ہے جس کی عملداری بہت ناتواں ہے۔ بدعنوانی سرکاری اداروں کا طرّہ امتیاز ہے۔ کسی سرکاری افسر کو بددیانتی پر سزا ملنے کا ڈر نہیں۔ حکام اورسرکاری اہلکار ہر سال اربوں کھربوں روپے قومی خزانہ اور عوام سے رشوت وصول کرکے ہضم کرجاتے ہیں۔ تمام سرکاری نظام بدیسی زبان انگریزی میں انجام دیا جاتا ہے جسے نناوے فیصد لوگ سمجھنے، بولنے اور لکھنے سے قاصر ہیں۔ جب عام آدمی قانون کو سمجھ نہیں سکتا، سرکاری مراسلوں اور احکامات کی تفہیم نہیں کرسکتا، سرکاری زبان میں اپنا مدّعا بیان نہیں کرسکتا تو اسکا ریاست سے کیا تعلق باقی رہ جاتا ہے؟ مغربی تہذیب سے پیوستہ اشرافیہ نے عوام کی اکثریت کو محض زبان کے ذریعے ریاست سے بیگانگی میں مبتلا کردیا ہے۔ پورے نظام کو مفلوج بنادیا ہے۔ ہمارے بہترین دماغ اور تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال نوجوان صرف ایک بدیسی زبان پر مہارت نہ ہونے کی وجہ سے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ نہیں کرپاتے، زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ جاپان، کوریا، چین سمیت دنیا کا کوئی ایسا ترقی یافتہ ملک نہیں جو اپنی زبان چھوڑ کر بدیسی زبان میں تعلیم دیتا ہو یا حکومتی کاروبار چلاتا ہو۔ اگر حکومت کا ہر قانون، حکم نامہ اردو یا کسی مقامی زبان میں ہو تو کتنے بڑے طبقہ کیلیے سرکاری معاملات کو سمجھنا آسان ہوجائے گا۔ قانون پر عمل کرنا سہل ہوجائے گا۔
یہ ممکن نہیں کہ اسلامی اصول، اقدار، قوانین اور روایات کو لبرل تہذیب کے ساتھ ساتھ چلایا جاسکے۔ لبرل جمہوری تمدن کہتا ہے کہ ہر شخص اپنے رائے اور عقیدہ کے برملا اظہار اور ترویج کرنے میں آزاد ہے۔ انسان کی آزادی اس تمدن کی جان ہے جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لیے یورپ اور امریکہ میں مقدس پیغمبروں کی توہین پر مبنی مضامین، کارٹون، فلموں کی اجازت ہے۔ توہین رسالت کرنے والے مصنف سلمان رشدی کی توقیر کی جاتی ہے۔ اسکو تحفظ فراہم کیاجاتا ہے۔ مقدس آسمانی کتابوں کو جلائے جانے پر کوئی سزا مقرر نہیں۔ کھلے عام شراب پینا نارمل بات ہے۔ پاکستان ایسے اسلامی معاشرہ میں اسکی اجازت نہیں دی جاسکتی کیونکہ یہ حرکتیں مسلمہ اسلامی عقائد کے خلاف ہیں۔ اسلام انسان کی آزادی کو قرآن اور سنت کی حدود میں پابند کرتا ہے۔ امریکہ اور یورپ میں مردوں کی مردوں سے، عورتوں کی عورتوں سے شادی کی قانونی اجازت ہے۔ مغربی تہذیب عریانیت کو جائز اور معمول کی بات سمجھا جاتا ہے۔ شادی کے بغیر بچے پیدا کرنا لبرل تمدن میں عام چلن ہے۔ اسلام میں یہ سب باتیں سخت گناہ ہیں۔ قابلِ سزا جر م ہیں۔ یہ چند مثالیں ہیں۔ لبرل جمہوری ملکوں کی ایسی درجنوں باتیں ہیں جو اسلام کے بنیادی احکام سے متصادم ہیں۔
لبرل جمہوری تہذیب میں نجی جائیداد ایک مقدس شے ہے۔ لبرل جمہوریت اور سرمایہ داری نظام لازم و ملزوم ہیں۔ سود پر مبنی معیشت اسکا لازمی جزو ہے۔ اسلام میں سود سخت گناہ ہے۔ اسلام معیشت میں عدل و احسان کے اصولوں پر زور دیتا ہے۔ انسان کے استحصال کی ہر شکل کے خلاف ہے۔ اسلام اگر سوشلزم کا نام نہیں تو سرمایہ داری کا علمبردار بھی نہیں۔ مسلمان معاشرہ میں مملکت ہر شہری کی بنیادی ضروریات زندگی مہیا کرنے کی پابند ہے۔ اسلام کے اصولوں پر عمل کیا جائے تو ایک طرح سے ملی جلی معیشت کا تصور ابھرتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمران طبقہ نے قیام پاکستان سے لیکر اب تک حکومتی نظام، قانون، تعلیم و تدریس اور معیشت ہر شعبہ زندگی میں مغربی تمدن کی اندھی نقالی کو شعار بنائے رکھا۔ لیکن عوام الناس کی اکثریت اس سارے بدیسی نظام سے غیرمتعلق اور بیزار ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ لوگ ریاست کو اپنا نہیں سمجھتے غیر سمجھتے ہیں۔ مملکت اور عوام میں ایک دوئی پائی جاتی ہے۔ اگر ہمیں آگے بڑھنا ہے تومعاشرہ کو یکسو کرنا پڑے گا۔ تصور کیجیے کہ اگر فوجداری اور دیوانی قوانین کو اسلامی روایات کے مطابق تشکیل دیاجائے جیسا کہ اکثر عرب ملکوں اور ایران میں ہے تونظامِ عدل و انصاف کتنا مؤثر ہوجائے گا۔ جھگڑوں کے تصفیے جلد ہوں گے، لوگوں کاحکومتی اداروں پر اعتماد بڑھے گا، انکی ملک سے وفاداری میں اضافہ ہوگا۔ وہ ریاست کو اپنا سمجھنے لگیں گے۔ ایسا کرنے سے پہلے ہمیں اپنی ذہنی الجھن کو دور کرنا ہوگا۔ ایک فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم اسلام اور اپنی روایات کے ساتھ ہیں یا مغربی تمدن کے ساتھ۔