Sunday, 22 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Real Estate Ki Waba

Real Estate Ki Waba

زمین کی بھوک ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ یوں لگتا ہے کہ پورا ملک ایک ہی مشغلہ میں مصروف ہے، رئیل اسٹیٹ کا لین دین۔ لوگوں نے کھربوں روپے اس شعبہ میں جھونک دیے ہیں تاکہ راتوں رات امیر سے امیر تر ہوجائیں۔ وہ سرمایہ جو صنعتی ترقی اورجدید زراعت کیلیے استعمال ہونا چاہیے وہ رہائشی پلاٹوں کی خرید و فروخت میں لگا ہوا ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں جس نے صنعت و زراعت کے پیداواری شعبہ کو نظر انداز کرکے محض رئیل اسٹیٹ کی بنیاد پر معاشی ترقی کی ہو۔ ہمارے معاشی بحران کے پیچھے کئی عوامل ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی وجہ بے ہنگم ہاؤسنگ سوسائیٹیوں کا کاروبار ہے۔

رئیل اسٹیٹ بزنس کے فروغ کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ یہ ہماری معیشت کا سب سے بڑا غیردستاویزی شعبہ ہے۔ پراپرٹی کا جو بھی لین دین ہوتا ہے وہ کسی ریگولیشن کے ماتحت نہیں۔ اس میں جو سرمایہ لگایا جاتا ہے وہ حلال کی کمائی کی جائز رقم بھی ہوسکتی ہے اورغیر قانونی طریقے سے جمع کی ہوئی دولت بھی۔ کوئی صنعتی کارخانہ لگائے تو ایک درجن سے زیادہ حکومتی محکمے اسکے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ سرمایہ کار کی زندگی اجیرن کردیتے ہیں۔ لیکن رئیل اسٹیٹ میں کھلی چھُٹی ہے۔ گزشتہ برس کورونا وبا کے باعث معاشی ترقی کی رفتار سست تھی تو اسے مہمیز دینے کیلیے حکومت نے رئیل اسٹیٹ کے شعبہ کی حوصلہ افزائی کی۔ ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور تعمیرات کے شعبہ کو ایمنسٹی اور متعدد مراعات دے دیں یعنی اس میں لگائے جانے والے سرمایہ کے بارے میں کوئی تحقیق نہیں کی جائے گی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس عرصہ میں شہری جائیداد کی قیمتیں ایک دم بہت زیادہ بڑھ گئیں۔

ملک میں پانچ لاکھ سے زیادہ بڑے پراپرٹی ڈیلر ہیں۔ ان میں سے بہت معمولی تعداد ایف بی آر کے ساتھ رجسٹرڈ ہے۔ وہ بھی اس لئے کہ حکومت نے فیٹف (ایف اے ٹی ایف)کی شرائط پورا کرتے ہوئے کچھ سختی کی۔ اس عالمی ادارہ کا خیال ہے کہ پاکستان میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کو سرمایہ فراہم کرنے کا عمل روکنے کے لئے رئیل اسٹیٹ کو سرکاری نگرانی، ریگولیشن میں لانا ضروری ہے۔ عالمی ادارہ فیٹف(ایف اے ٹی ایف) کے مطالبات پر حکومت نے حال ہی میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار کرنے والوں، زرعی زمین کو ہاؤسنگ کالونی میں تبدیل کرنے والے ڈویلپروں، مکانات، عمارات کی تعمیر کرنے والے بلڈروں کو کچھ قواعد و ضوابط کا پابند کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اب بھی اس شعبہ کو بڑی حد تک سرکاری نگرانی سے استثنا حاصل ہے۔

پلاٹوں یا پلاٹوں کی فائلوں (غیر ترقی شدہ پلاٹ)کا زیادہ تر کاروبار نقد، کیش کی صورت میں انجام پاتا ہے۔ ملک میں جس کے پاس بھی ٹیکس چوری، رشوت خوری، کمیشن خوری کا مال ہے اسکے لیے پراپرٹی کا کاروبار بہترین سرمایہ کاری ہے جہاں کوئی پوچھ گچھ کرنے والا نہیں کہ یہ رقم کہاں سے آئی۔ نہ اس سرمایہ کاری پر حکومت کو ٹیکس دینا پڑتا ہے۔

رئیل اسٹیٹ میں بے تحاشا سرمایہ کاری کا ایک نقصان یہ ہے کہ سفید پوش طبقہ کے لئے اپنے مکان کا حصول مزید دشوار ہوگیا ہے۔ خدا کی زمین خد اکی مخلوق پر تنگ کردی گئی ہے۔ شریف، ایماندار لوگ اپنے ہی وطن میں مہاجروں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ صرف بڑے شہروں میں نہیں بلکہ چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہات کے رہائشی علاقوں میں بھی رہائشی زمین کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہے۔ حق حلال کی روزی کمانے والوں کے لئیے اپنی چھت حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔

بینک سے قرض مکان خریدنے کے لئے ملتا ہے وہ بھی سخت شرائط پر، اتنا ایڈوانس دینا پڑتا ہے جو غریب یا سفید پوش افراد نہیں دے سکتے۔ ملک میں اتنے تیار مکانات بھی نہیں ہیں کہ لوگ انہیں بینک سے قرض لیکر خرید سکیں۔ ڈولپرز دھڑا دھڑ زرعی زمینوں کو ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں تبدیل کررہے ہیں۔ زرعی رقبہ سکڑتا جارہا ہے جو زرعی پیداوا ر کے لئے سخت نقصان دہ ہے۔ جو سیاستدان حکومت میں آتے ہیں وہ ڈویلپرز کے ساتھ ملکراور اپنے سرکاری اثرو رسوخ کی بنیاد پر زرعی زمین اونے پونے داموں خریدلیتے ہیں۔ اسکے بعد حکومتی سرپرستی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس رقبہ پر قومی خزانہ سے پکی سڑک تعمیر کرواتے ہیں۔ یوں اس زمین کا نرخ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ کچھ لوگ بیٹھے بٹھائے اربوں پتی بن جاتے ہیں۔

راولپنڈی رنگ روڈ کا سکینڈل اسکی تازہ ترین مثال ہے۔ یہی صورتحال لاہور رنگ روڈ کی ہے۔ درمیانے درجہ کے شہروں میں بڑے بڑے ڈویلپرز پہنچ گئے ہیں۔ ہاؤسنگ سوسائیٹیاں کھمبیوں کی طرح اُگ رہی ہیں۔ جب مال بنانے کا یہ آسان نسخہ دستیاب ہو تو کون صنعتی شعبہ کا رخ کرے گا جہاں ترقی کے لئے مسلسل محنت اور ہنردرکار ہے، حکومت کو کئی ٹیکس بھی دینا پڑتے ہیں۔

اگلے روز وفاقی حکومت نے اچھا قدام کیا ہے کہ کوئی سرکاری محکمہ وفاقی دارلحکومت کی حدود میں ہاؤسنگ سوسائٹی کے لئے زمین نہیں خرید سکتا تاکہ چھوٹے زمین مالکان کو انکی چیرہ دستی سے محفوط کیا جاسکے۔ اسلام آباد میں تو ایک بڑے انٹیلی جنس ادارہ نے بھی اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرکے ہاؤسنگ کالونی بنالی ہے اور اتنے پلاٹ بیچ دیے جن کے برابر اسکے پاس زمین نہیں ہے۔ لاہور میں پنجاب کی سب سے بڑی سرکاری یونی ورسٹی کے اساتذہ اس کاروبار میں مشغول ہیں۔ اس سوسائٹی کی بے قاعدگیوں کی شکایت پر ہائی کورٹ کو مداخلت کرنا پڑی۔ سرکاری محکموں پر جو پابندی وفاقی حکومت نے لگائی ہے وہ پنجاب اور دیگر صوبوں میں بھی نافذ کی جانی چاہیے۔

اگر کسی شخص کے پاس ایک سے زیادہ شہری رہائشی پلاٹ ہیں تو حکومت اسکے غیرتعمیر شدہ پلاٹوں پر بھاری ٹیکس لگائے۔ تاکہ لوگ صرف سٹے بازی کے لئے پلاٹوں کی خرید و فروخت نہ کریں بلکہ ان پر مکانات تعمیر کریں جس سے حقیقی معاشی ترقی ہوگی۔ حکومت کو رعایات اور ایمنسٹی (عام معافی) صرف مکانات اور عمارتوں کی تعمیر پر دینی چاہئیں تاکہ اس شعبہ میں سرمایہ کاری ہو نہ کہ پلاٹوں کی خرید و فروخت میں جیسا کہ اسوقت ہورہی ہے۔ رئیل اسٹیٹ وبا کی جلد روک تھام نہ کی گئی تو معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا رہے گا۔