اِن دنوں بعض با اثر اور دانشوارانہ حلقوں میں یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ پاکستان کا موجودہ پارلیمانی نظام کام نہیں کررہا، ملکی مسائل حل کرنے اور اچھی حکمرانی دینے میں ناکام ہوچکا ہے اسلیے اِسے ترک کرکے ملک میں صدارتی نظام لایا جائے۔ وزیر اعظم کا عہدہ ختم کردیا جائے۔ پارلیمان کا اختیار صرف قانون سازی تک محدود ہوجائے۔ ارکانِ قومی اسمبلی کے پاس ملک کاانتظامی سربراہ یعنی چیف ایگزیکٹو منتخب کرنے کا اختیار نہ ہو۔ صدر انتظامی سربراہ ہوجسکا انتخاب براہِ راست عوام کریں۔ بعض لوگ یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ ریاستی ادارے ملک میں صدارتی نظام لانے میں سنجیدہ ہیں، ہوسکتا ہے کہ موجودہ پارلیمان کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی پارلیمانی نظام کا بوریا بستر لپیٹ دیا جائے، صدارتی نظام نافذ کردیا جائے۔ افواہوں کے کارخانے خاصے سرگرم ہیں۔ پاکستان میں صدارتی نظام نافذ کرنے کی خواہش خاصی پرانی ہے۔ جنرل ایوب خان نے انیس سو چھپن کے پارلیمانی طرز حکومت پر مبنی ملک کے پہلے آئین کو منسوخ کیا، مارشل لاء نافذ کیا جسے جلد ہی صدارتی نظام کی شکل دے دی گئی۔ انہوں نے سیاسی جماعتوں کی خواہش کے برعکس انیس سو باسٹھ کا دستور نافذ کیا جس میں صدر اختیارات کا منبع تھا۔ صدر کا الیکشن عوام براہِ راست نہیں کرتے تھے، بلدیاتی کونسلرز کرتے تھے۔ ریاستی اداروں کے لیے ان بلدیاتی کونسلروں پر دباؤ ڈالنا اور اُنکی خرید و فروخت کرکے ایوب خان کو جتوانا آسان تھا۔ اس آئین کے تحت جب صدارتی الیکشن ہوئے تو محترمہ فاطمہ جناح کو دھونس دھاندلی کے ذریعے شکست دی گئی، ایوب خان کو کامیاب کروایا گیا۔ ایوب خان نے ملک کی معاشی ترقی کیلئے بے مثال کام کیا تھا، انتظامی ادارے بنائے تھے، بڑے بڑے ترقیاتی کام کروائے لیکن چونکہ سیاسی طور پر فعال طبقات نے انکے صدارتی نظام کو قبول نہیں کیا تھا وہ اسکے خلاف تحریکیں چلاتے رہے۔ ایوب خان جب مستعفی ہوئے تو آئین بھی ختم ہوگیا۔ جنرل یحییٰ خان نے مارشل لأ لگادیا۔ سبق یہ ہے کہ جو دستور سیاسی حلقوں کی قبولیت کے بغیر نافذ کیا جائے وہ پائیدار نہیں ہوتا۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ذوالفقار علی بھٹو بھی صدارتی طرزپر مبنی دستور بناناچاہتے تھے لیکن حزب اختلاف کی جماعتیں راضی نہیں ہوئیں۔ بھٹو نے اتفاق رائے پیدا کرنے کی خاطر سمجھوتہ کیا، پارلیمانی نظام پر مبنی آئین منظور کرکے نافذ کردیا گیا۔ انیس سو تہتر کا یہ بنیادی آئین کسی نہ کسی شکل میں آج تک چل رہا ہے۔ اسکے بعد دو بار فوجی مداخلت ہوئی۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پر ویز مشرف نے آئین کو معطل کیا، اس میں متعدد ترامیم کیں لیکن اسے منسوخ نہیں کیا۔ وجہ یہ ہے کہ اس آئین کو بنانے میں ملک کے تمام سیاسی حلقوں، وفاقی اکائیوں، مختلف طبقہ ہائے فکر کی مشاورت شامل تھی۔ اس کے ذریعے بااثر مذہبی حلقوں کے بہت سے مطالبات بھی تسلیم کیے گئے۔ چھوٹے صوبوں کی خود مختاری کو ملحوظ رکھا گیا۔ یہ دونوں معاملات قیامِ پاکستان کے بعد شروع دن سے تنازع کا باعث رہے تھے۔ ان متنازعہ معاملات کو موجودہ آئین میں کسی حد تک حل کرلیا گیا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی خود مختاری میں مزید اضافہ ہوچکا ہے۔
دیکھا جائے تو فوجی حکومت بھی صدارتی نظام کی ایک شکل ہے گواس کا سربراہ غیرمنتخب ہوتا ہے اور اسکے پاس انتظامی اختیارات کے ساتھ ساتھ قانون سازی کا اختیار بھی ہوتا ہے۔ جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اورجنرل پرویز مشرف کے ادوار عملی طور پر صدارتی نظام ہی تھے۔ یہ بات درست ہے کہ ان کی حکومتوں میں ملک کا انتظامی نظم و نسق جمہوری ادوار کی نسبت بہتر تھا۔ معاشی ترقی کی شرح تیز تھی۔ لیکن بڑا نقصان یہ ہُوا کہ قومی اتحاد قائم نہیں رہ سکا۔ جنرل ضیاء کے پاس بھٹو کی سزا کو معاف کرنے کا اختیار تھالیکن انہوں نے اِسے استعمال نہیں کیا۔ سندھ میں وفاق سے بیگانگی اور احساس محرومی نے جنم لیا۔ چند سال بعد انیس سو تراسی میں سندھ میں زوردار احتجاجی تحریک چلی جسے طاقت کے بل پر دبایاگیا۔ ضیاء الحق کے زمانہ میں سندھ میں وفاق اور پنجاب کے بارے میں جو بداعتمادی پیدا ہوئی وہ آج تک قائم ہے۔ کچھ یہی کہانی جنرل پرویز مشرف کے فوجی اقتدار کی ہے۔ یہ بھی معاشی ترقی، نسبتاًخوشحالی کا دور تھا لیکن اس دور میں بلوچستان میں حالات خراب ہوگئے۔ یہ معاملہ سیاسی افہام و تفہیم سے بھی حل ہوسکتا تھا۔ جنرل مشرف نے بلوچ قوم پرستوں کے خلاف طاقت استعمال کرنے کی کوشش کی، بزرگ بلوچ رہنما اکبر بگتی ایک آپریشن کے دوران میں مارے گئے جس سے حالات زیادہ بگڑ گئے۔ بھارت کو موقع مل گیا کہ وہ ناراض بلوچوں کی مدد کرے اورپاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دے۔ یہ صوبہ آج تک دہشت گردی کی زد میں ہے۔ ہماری تاریخ کاسبق یہ ہے کہ جب سیاسی اتفاق رائے کو نظر انداز کرکے طاقت کے بل پر کوئی سیاسی، حکومتی نظام بنایا جاتا ہے، وہ پائیدار نہیں ہوتا، اپنے خالق کے ساتھ رخصت ہوجاتا ہے جیسے جنرل ایوب خان کاصدارتی نظام یا جنر ل ضیاء الحق کی آئینی ترامیم اورجنرل پرویز مشرف کا مقامی حکومتوں کا سسٹم۔ یہ سب انکے ساتھ ختم ہوگئے۔
ریاستی طاقت کے زور پر نیا دستور لانے سے قومی یکجہتی کو نقصان پہنچتا ہے۔ چھوٹے صوبوں میں وفاق سے بیگانگت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔ موجودہ پارلیمانی نظام میں بہت نقائص ہیں۔ اسکی وجہ سے انتظامیہ میں سیاسی مداخلت بہت بڑھ چکی ہے۔ سیاسی عدم استحکام ہے۔ معاشی ترقی کا عمل سست پڑ گیا ہے۔ سویلین ادارے عوام کو خدمات مہیا نہیں کرپارہے۔ ان نقائص کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ صدارتی نظام ایک متبادل ہوسکتا ہے جسکی اپنی خوبیاں اورخامیاں ہیں۔ ان پر سیرحاصل بحث ہونی چاہیے۔ اگرسیاسی نظام بدلنا ہے تو پہلے رائے عامہ کو ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔ چھوٹے صوبوں کے خدشات دور کرکے انہیں اعتماد میں لینا چاہیے۔ ایسی مقبول سیاسی جماعت ہو جو کھل کر صدارتی نظام کی حمایت کرے۔ جمہوری تائید کے بغیر صرف ریاستی طاقت کے زور پر کوئی نیا سیاسی ڈھانچہ کھڑا کیا گیا تو اس سے ملکی یکجہتی کو نقصان پہنچے گا۔