Monday, 23 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Sadarti Nizam Ki Behas (2)

Sadarti Nizam Ki Behas (2)

پاکستان میں وقفہ وقفہ سے پارلیمانی نظام کی بجائے صدارتی نظام حکومت لانے کی بحث چھڑ تی رہتی ہے۔ لوگ نظامِ حکمرانی سے نامطمئن ہیں اس لئے متبادل طریقے سوچتے رہتے ہیں۔ آجکل پھر صدارتی نظام کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت بنے تین سال ہونے کو آئے۔ وہ لوگ انکی حکومت سے ملکی نظام میں بڑے پیمانے پر تبدیلی لانے کی اُمید لگائے بیٹھے تھے خوش نہیں۔ اب تک تحریک انصاف کی حکومت وفاق اورپنجاب کی سطح پر کوئی ادارہ جاتی اصلاحات نہیں کرسکی۔ سول سروس ہو یا پولیس کا محکمہ سب پرانی ڈگر پر کام کررہے ہیں۔ ان میں کسی قسم کی ایسی تبدیلی نہیں آسکی جس سے عام آدمی کی مشکلات کم ہوسکیں۔ سرکاری اہلکاروں کی رشوت خوری پہلے کی طرح عام ہے۔ اہم عہدوں پر اب بھی افسر سفارش اور پسند و ناپسند پر تعینات ہورہے ہیں۔ عدلیہ میں مقدمات کی تاخیر پہلے کی طرح قائم ہے۔ اختیارات و اقتدار کی مقامی سطحوں پر منتقلی شروع نہیں ہوسکی۔ البتہ ماضی کے برعکس موجودہ حکومت میں ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وزیراعظم اپنے عہدہ کا فائدہ اٹھا کر مال نہیں بنا رہا۔ ہمارے ایسے ملک میں یہ بڑی بات ہے۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وزیراعظم عمران خان اس لئے تبدیلی لانے میں کامیاب نہیں ہوسکے کیونکہ انہوں نے الیکشن جیتنے کی خاطر بہت سمجھوتے کیے اور بااثر مقامی سیاستدانوں المعروف الیکٹ ایبلز کو دھڑا دھڑ پارٹی میں شامل کیا۔ الیکشن میں انہیں اُپنا امیدوار بنایا۔ تحریک انصاف الیکشن تو جیت گئی لیکن ان روایتی سیاستدانوں کے ہتھے چڑھ گئی۔ یہ الیکٹ ایبلز نظام میں کوئی تبدیلی نہیں لانے دیتے۔ اگر وزیراعظم ارکانِ اسمبلی کی مرضی کے خلاف کوئی تبدیلی لانے کی کوشش کریں گے تو یہ اُنکا ساتھ چھوڑ دیں گے۔ انکی حکومت قائم نہیں رہ سکے گی۔ مثلاًاگر پنجاب میں پولیس کو سیاسی اثر و رسوخ سے پاک کرنے کے لئے نیا قانون بنایا جائے اور اصلاحات متعارف کرائی جائیں تو ارکان ِ صوبائی اسمبلی بغاوت کردیں گے۔ پولیس کے نظام کو سیاسی مداخلت سے پاک کرنے کا مطلب ہے کہ ارکان ِاسمبلی کا سارا رعب و دبدبہ ختم ہوجائے اور وہ اپنے حلقہ کے عوام کے سامنے بے اختیار اور لاچار نظر آنے لگیں۔ ا س لئے عمران خان شروع شروع میں پولیس اصلاحات کا جوش دکھانے کے بعد ٹھنڈے ہوکر بیٹھ گئے۔ معاملہ صرف پولیس کا نہیں بلکہ پوری سول سروس کا ہے۔ ارکانِ اسمبلی ایسے افسروں کا تقرر چاہتے ہیں جو انکے ساتھ مل بانٹ کر کھائیں۔ جب تک کسی محکمہ کے اعلیٰ افسر اور وزیر کو یہ یقین نہ ہوجائے کہ کسی منصوبہ میں انکا حصہ کتنا ہے اور وہ انہیں کیسے ملے گا وہ اسکو شروع نہیں ہونے دیتے۔ موجودہ سول سروس کانظام ایسا ہے جس میں ارکان ِاسمبلی، وزراء اور اعلیٰ سرکاری افسر کروڑوں، اربوں بنا رہے ہیں۔ وہ ایسے نظام کو جس میں انکا فائدہ ہی فائدہ ہے کیوں بدلنے دیں گے؟ اسی لیے کوئی حکومت اصلاحات لانے میں کامیاب نہیں ہوتی۔

ایک طبقہ فکر یہ سمجھتا ہے کہ ملک میں حکمرانی کے نظام میں خرابی کی بڑی وجہ پارلیمانی طرزِ جمہوریت ہے۔ ا س لئے صدارتی نظام کا تجربہ کیا جائے جس میں انتظامیہ کا سربراہ صدر ہو اور عوام اُسے براہ راست اپنے ووٹوں سے منتخب کریں۔ یہ صدارتی نظام ایوب خان والے آئین کی طرح نہ ہو جس میں صدر کا الیکشن عوام کی بجائے بلدیاتی کونسلر کرتے تھے۔ خیال ہے کہ اسطرح الیکٹ ایبلز سے جان چھوٹ جائے گی اور جو خرابیاں انکی سیاسی مجبوریوں اور ذاتی مفادات کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں وہ دُور ہو جائیں گی۔ صدر ارکانِ پارلیمان کے دباؤ میں نہیں ہوگا اس لئے اجتماعی مفاد میں کام کرسکے گا۔ وہ پارلیمان کے ارکان کو وزیر بنانے کا پابند نہیں ہوگا۔ اعلیٰ مہارت رکھنے والے افراد کو اپنی کابینہ کا رکن بناسکے گا۔ افسروں کی پوسٹنگ، ٹرانسفر میں بھی ارکان اسمبلی دخل اندازی نہیں کرسکیں گے۔ کسی حد تک اس دلیل میں وزن ہے۔ لیکن ہمیں یہ بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ صدر کو منتخب ہونے کے لیے ملک کے کونے کونے سے ووٹ درکار ہوں گے جس کے لیے اسے مقامی، بااثر افراد کا تعاون درکار ہوگا۔ یہ لوگ کسی امیدوار کی مدد اسی صورت میں کریں گے جب انہیں اس سے کوئی فائدہ پہنچنے کی امید ہوگی۔ نظریاتی وابستگیاں تو بہت کمزور پڑ چکی ہیں۔ ا س لئے مقامی سیاستدانوں کی اہمیت کچھ کم ہوجائے گی لیکن ختم نہیں ہوگی۔ مزیدصدارتی الیکشن میں پورا ملک ایک حلقہ ہوگا۔ اس میں انتخابی مہم چلانے کیلیے دولت کا استعمال بڑھ جائے گا۔ خطرہ یہ ہے کہ اگر چند بڑے سرمایہ دارکسی سیاستدان کی انتخابی مہم اسپانسر کردیں تو اسکا مقابلہ کم وسائل والا امیدوار نہیں کرسکے گا۔ سرمایہ داروں کی مدد سے جیتنے والا صدر عوام سے زیادہ ان دولتمندوں کے مفادات کا خیال رکھے گا۔ اگر ہم یہ فرض کریں کہ صدارتی نظام آنے کے بعد نظریاتی سیاست اہم ہوجائے گی، روپے پیسے کا کردار کم ہوجائے گا تو یہ کام پارلیمانی نظام میں بھی ہوسکتا ہے۔ اگر ملک کی سیاست میں نظریاتی وابستگیاں زیادہ غالب ہوجائیں، دولت کا استعمال کم ہوجائے تو پارلیمان میں زیادہ صاحب ِکردار اور قابل ارکان منتخب ہوسکتے ہیں جس سے حکمرانی کے نظام میں بہتری آسکتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ معاشرہ میں نظریات اور اقدارکی بجائے دولت زیادہ اہمیت اختیار کرگئی ہے۔ جو پارٹیاں نظریات کی بنیاد پر قائم ہیں وہ چند سیٹیں بھی نہیں جیت پاتیں، پورے ملک سے صدر کا الیکشن کیا جیتیں گی۔

مزید، صدارتی نظام میں انتظامی امور وہ لوگ ہی چلائیں گے جو موجودہ نظام کو چلا رہے ہیں۔ سرکاری مشینری کو چلانے کی غرض سے کوئی فرشتے نازل نہیں ہونگے۔ یہی سول سروس ہوگی جس کی اکثریت جائز ناجائز طریقوں سے راتوں رات امیر بننا چاہتی ہے۔ یہ سوال بھی ہے کہ کیا صدارتی نظام آنے سے سیاسی جماعتوں کے اندر خود بخود جمہوریت آجائے گی؟ خدشہ ہے کہ صدارتی سسٹم میں چند افراد اورخاندانوں کی پارٹیوں پر اُجارہ داری اور گرفت زیادہ سخت ہوجائے گی۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کے روّیے جمہوری ہوں، پارٹی اُمور مشاورت سے چلائے جائیں۔ کارکنوں کی مرضی سے پارٹی سربراہ کا الیکشن ہو جیسا ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں ہوتا ہے۔ امریکہ میں پارٹی کا لیڈر اُمیدواروں کا چناؤ بھی نہیں کرتا۔ اُمیدواروں کا انتخاب اس پارٹی کے رجسٹرڈ ووٹرز پرائمری الیکشن میں کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں کوئی چھوٹا لیڈر اس ڈر سے پارٹی سربراہ کی رائے سے اختلاف نہیں کرتا کہ وہ ناراض نہ ہوجائے، اسے کھڈے لائن نہ لگا دیا جائے۔ ہمارے سیاسی لیڈرز جاگیرداروں اور قبائلی سرداروں کی طرح ہیں۔ انکے جاگیردارانہ، قبائلی روّیے جدیدزمانہ کے معاشرہ اور گورننس کی ضروریات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ لوگوں کی اکثریت اپنے قبیلہ، برادری یا خاندان کی وفادار ہے۔ ریاست اسکے لیے اہم نہیں۔ قبائلی، رشتے داری بندھن زیادہ اہم ہیں۔ قانون کی حکمرانی ثانوی چیزہے۔ جان پہچان کو برتری حاصل ہے۔ نظام پارلیمانی ہو یا صدارتی جب تک لوگوں کی اکثریت کے روّیے، اقدار، طرزِ فکر میں تبدیلی نہیں آئے گی، نظامِ حکومت بہتر نہیں ہوسکتا۔ گورننس کی خرابی صرف نظام کی وجہ سے نہیں، ہماراکلچربھی اسکا ایک بڑا سبب ہے۔