Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Siyasi Afsar Shahi

Siyasi Afsar Shahi

شریف خاندان کی وفادار افسر شاہی پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ تحریک انصاف کی اصل اپوزیشن ن لیگ نہیں بلکہ شریف خاندان کی وفادار افسروں کی ایک فوج ہے جو پنجاب میں حکومت کے ہر محکمہ پر بدستور قابض ہے۔ اس نے حکومت کو مفلوج بنایا ہوا ہے۔ صوبہ میں اصل اقتدار وفاقی سول سروس (پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس) سے تعلق رکھنے والے افسروں کا ہے جنہیں عرف عام میں سی ایس پی افسر کہا جاتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت برائے نام ہے۔

پی ٹی آئی کے صوبائی وزراء بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں جنہیں منہ زوربیوروکریسی اپنی انگلیوں پرنچا رہی ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ وزراء اپنے افسروں سے ڈرتے ہیں۔ نہ مہنگائی کنٹرول کرسکتے ہیں نہ کسی محکمہ کی کارکردگی بہتر بناسکتے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر ارکان ِصوبائی و قومی اسمبلی کی بات سننا تک گوارا نہیں کرتے۔ سرکاری افسروں اور اہلکاروں کی رشوت خوری عروج پر ہے۔ سیاسی حکومت بیان بازی کرنے کے سوا کچھ کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ وفاقی سول سروس سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ افسران اتنے طاقتور ہیں کہ انہوں نے پنجاب حکومت کو مجبور کردیا کہ انہیں تنخواہ کے ساتھ ساتھ تنخواہ کے برابر اور بعض صورتوں میں اس سے بھی زیادہ اضافی ماہانہ الاؤنس دیا جائے۔ حالانکہ حکومت کے مالی حالات اتنے خراب ہیں کہ اس سال حکومت نے باقی تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں معمولی سا اضافہ بھی نہیں کیا۔

سیاسی طور پر غیرجانبدار بیوروکریسی کا تصور ایک افسانہ بن چکاہے۔ سرکاری ملازمین ظاہر کچھ بھی کریں لیکن وہ پوری طرح سیاسی وابستگیاں اختیار کرچکے ہیں۔ پنجاب حکومت میں بڑے بڑے عہدوں پر ایسے سی ایس پی اور پولیس افسران تعینات ہیں جنہوں نے ن لیگ کے دور حکومت میں شریف خاندان کی آشیرباد سے خوب مال بنایا۔ ان کو مختلف کمپنیوں میں سربراہ تعینات کرکے انکی اصل تنخواہ کے ساتھ ساتھ پندرہ بیس لاکھ ماہانہ اضافی تنخواہ دی جاتی تھی۔ ان میں سے کئی افسروں کی کروڑوں، اربوں روپے کی بے نامی پراپرٹیاں ہیں۔

حال ہی میں ایک بڑے افسر جب نیب کی حراست میں تھے تو انکی بیوی بی ایم ڈبلیو کار میں ان سے ملنے آتی تھیں۔ بڑی تعداد میں اعلیٰ سرکاری افسروں کے بچے غیر ملکی یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں جنکا سالانہ خرچ پچاس لاکھ سے ایک کروڑ ہوتا ہے۔

ظاہر ہے کہ ا نکی محدود تنخواہ سے یہ رقم نہیں آسکتی۔ یہ کرپشن اور کک بیکس کی کمائی ہے۔ سی ایس پی افسروں کو کوئی پوچھنے والا نہیں، کوئی انکا احتساب کرنے والا نہیں۔ یہ اتنے خود سر ہوچکے ہیں کہ جب پی ٹی آئی کی حکومت آئی اور احتساب کے عمل نے زور پکڑا تو انہوں نے فائلوں پر دستخط کرنے چھوڑ دیے تاکہ حکومت کوئی کام نہ کرسکے اور ناکام ہوجائے۔ حکومت کو مجبورہونا پڑا اور نیب کے قانون میں ترمیم کرنا پڑی کہ سرکاری افسروں کے خلاف کارروائی براہ راست نہیں کی جائے گی بلکہ پہلے چیف سیکرٹری انکا معاملہ دیکھے گا۔

پنجاب میں موجودہ حکومت نے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ماری ہے اور چُن چُن کر شریف خاندان کے وفاداروں کو اعلیٰ عہدوں جیسا کہ محکموں کے سیکرٹریوں کے طور پر پر تعینات کیا ہوا ہے۔ ایک سی ایس پی افسر سنہ دو ہزار چودہ میں سانحہ ماڈل ٹاون کے وقت ڈپٹی کمشنر تھے۔ اس سانحہ میں لاہور پولیس نے عوامی تحریک کے چودہ افراد کو دن دیہاڑے قتل کردیا تھا۔ ان کو وزیراعلیٰ شہباز شریف کی حکومت نے ایک کمپنی کا سربراہ بنا کر پندرہ لاکھ روپے ماہانہ مشاہرہ پر تعینات کردیا۔ موجودہ حکومت نے انہیں ایک بہت اہم صوبائی محکمہ کا سیکرٹری مقرر کیا ہوا ہے۔ ان سے خاک توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ موجودہ حکومت کے منشور پر عمل درآمد کروائیں گے۔ اسی شعبہ سے متعلق دوسرے سیکرٹری شہباز شریف خاندان کے خاص کارندہ تھے۔ اہم عہدوں پر شریف خاندان کے وفادار افسروں کے ہوتے ہوئے نواز شریف اگرجعلی میڈیکل رپورٹس بنوانے میں کامیاب ہوگئے تو تعجب کی کوئی بات نہیں۔

پنجاب پولیس میں ن لیگ سے وابستہ ہزاروں افراد کوسیاسی بنیادوں پر میرٹ کے خلاف، وفادار پولیس افسروں کی مدد سے بھرتی کیا گیا۔ شریف خاندان کے چہیتے پولیس افسر اربوں روپے کی پراپرٹی کے مالک ہیں۔

لاہور میں مریم نواز کی نیب دفتر میں پیشی پر پتھراو ٔ کا واقعہ ایسے پولیس افسروں کی ملی بھگت سے پیش آیا۔ شریف خاندان کے وفادار اہلکار حکومت کے خلاف میڈیا کو ایسی خبریں افشا کرتے ہیں جس سے حکومت کو پریشانی اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔ حتی کہ صوبائی کابینہ میں ہونے والی بحثیں اور وزیراعلیٰ دفتر کے اندر ہونے والا بحث و مباحثہ اور واقعات بھی بیوروکریسی کے ذریعے میڈیا کو پتہ چل جاتے ہیں۔

اگر پی ٹی آئی واقعی اپنے منشور پر عمل درآمد کرانا چاہتی ہے اور عمران خان عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں پنجاب کی اعلیٰ انتظامیہ میں جھاڑو پھیرنا ہوگی۔ سب سے پہلے تو پنجاب میں حکومت کی رٹ قائم کرنے کے لیے ایک مضبوط وزیراعلیٰ کی ضرورت ہے جو افسر شاہی کے بے لگام گھوڑے کو لگام ڈال سکے۔

پی ٹی آئی کے ایجنڈے پر عمل کرواسکے۔ مہنگائی اور کرپشن پر کنٹرول کرسکے، ترقیاتی کاموں کی رفتار تیز کرواسکے۔ دوسرے، شریف خاندان کے وفادار افسروں کو اہم عہدوں سے ہٹاکر انکی جگہ ایسے افسروں کو لگایا جائے جن کی سیاسی وابستگی نہ ہو اور وہ اچھی شہرت کے حامل ہوں۔ ایک طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ لیٹرل اینٹری اسکیم کے تحت حکومت بیس اکیس گریڈ میں ٹیکنو کریٹ بھرتی کرے اور انہیں اہم عہدوں پر تعینات کرے۔ تاہم اس میں خرابی یہ ہے کہ ٹیکنوکریٹ ا پنے اپنے علوم کے ماہر تو ہوتے ہیں لیکن وہ افسر شاہی کے طور طریقوں، قواعد و ضوابط اور چالاکیوں کو سمجھ نہیں پاتے۔

ماتحت افسر اور کلرک بادشاہ انکو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ٹیکس امور کے ماہر شبر زیدی ایف بی آر کے چئیرمین کے طور پر اسی وجہ سے کامیاب نہیں ہوسکے اور جلد استعفیٰ دیکر چلے گئے۔ بہترراستہ یہ ہے کہ عرصہ دراز سے پنجاب میں تعینات سی ایس پی افسروں کا وفاق میں تبادلہ کرکے اُنہیں سائڈ لائن کردیا جائے۔ انکی جگہ صوبائی سول سروس(پنجاب مینجمینٹ سروس ) کے قابل افسروں کو بڑے عہدوں پرمقررکیا جائے۔

ڈپٹی کمشنر، کمشنر اور سیکرٹری صوبائی سروس سے ہوں تاکہ ان پر صوبائی حکومت کا کنٹرول ہو۔ جب تک پنجاب پر شریف خاندان کے وفادار افسران کی حکومت پرجکڑ بندی ختم نہیں کی جائے گی وزیراعظم عمران خان اور انکی صوبائی حکومت عوام کے لیے کچھ نہیں کرپائیں گے۔ ہر کام سست رفتاری سے آگے بڑھے گا۔ بار بار نت نئے بحران جنم لیں گے۔