Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Sudan Mein Fauji Iqtidar

Sudan Mein Fauji Iqtidar

پچیس اکتوبر کو سوڈان کے فوجی سربراہ جنرل عبدالفتح البرہان نے ملک کی سویلین کابینہ کو توڑ دیا اور وزیراعظم عبداللہ حمدوک سمیت تمام سرکردہ سویلین شخصیات کو گرفتار کرلیا گیا۔ سوڈان میں عبوری خودمختار کونسل کے نام سے سول ملٹری اشتراک پر مبنی نظام حکومت قائم تھا۔ اب فوج نے براہ راست اقتدار سنبھال لیا ہے۔ چند ماہ سے سوڈان کے دارلحکومت خرطوم میں عوام معاشی بدحالی اور شدید مہنگائی کے خلاف مظاہرے کررہے تھے۔ جنرل برہان نے کہا ہے کہ ملک میں خانہ جنگی روکنے کیلیے انکا حکومت سنبھالنا ضروری ہوگیا تھا اور وعدہ کیا ہے کہ وہ دو سال میں انتخابات کروادیں گے۔ سویلین حکومت اور فوجی قیادت کے درمیان ہم آہنگی ختم ہوچکی تھی۔

امریکی سفارتکار خرطوم گئے اور انہوں نے فوجی قیادت اور سویلین حکومت کے درمیان معاہدہ کروانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔ فوج کے اقتدار سنبھالنے پر امریکہ نے ناراض ہو کرسوڈان کی معاشی امداد روک لی ہے۔ عالمی بینک نے بھی سوڈان میں تمام سرگرمیاں بند کردی ہیں۔ افریقی یونین، اقوام متحدہ اور مشرقی افریقی ممالک کی تنظیم اور دیگر یورپی ممالک نے فوج کے اقتدار سنبھالنے کی مذمت کی ہے اور سویلین حکومت بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ مصر کے زیر اثر عرب لیگ نے مطالبہ کیا ہے کہ سوڈان میں آئینی فارمولہ کی پاسداری کی جائے۔ تاہم سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات خاموش ہیں۔ عمومی تاثر ہے کہ ان دونوں ممالک کے خرطوم کی فوجی قیادت سے قریبی تعلقات ہیں۔

تقریبا ساڑھے چار کروڑ آبادی پر مشتمل سوڈان شمالی افریقہ میں بحیرہ احمر کے مغرب میں اور مصر کے جنوب میں واقع ہے۔ یہ 1955 میں برطانیہ اور مصر کے مشترکہ کنٹرول (کنڈومینیم) سے نکل کرالگ آزاد ملک بنا۔ سوڈان کو تین مرتبہ بڑی خانہ جنگی کا سامنا رہا جن میں لاکھوں لوگ جان سے گئے۔ جنوبی اور شمالی سوڈان میں تفریق اور تصادم رہا۔ جنوبی سوڈان میں مسیحی آبادی کی غالب اکثریت ہے جبکہ شمالی سوڈان میں عرب تشخص کے حامل مسلمانوں کی۔ شمالی سوڈان میں واقع خرطوم کی حکومت کو عرب ممالک اور کمیونسٹ روس کی مدد حاصل رہی۔ جنوبی حصّہ میں علیحدگی پسندوں کو اسرائیل، ایتھوپیا اور یوگنڈا کی حمایت حاصل رہی ہے۔

اسرائیل نے جنوبی سوڈان کی علیحدگی کی تحریک کو بھرپور مدد فراہم کی۔ باغیوں کو اسلحہ سے لیس کیا اور اُنکا انتظامی ڈھانچہ تشکیل دیا۔ امریکہ اور یورپ نے بھی علیحدگی کی تحریک کی حمایت کی۔ ریفرنڈم میں جنوبی سوڈان کی اکثریت نے آزادی کے حق میں ووٹ دیا۔ جولائی 2011 میں جنوبی سوڈان علیحدہ ہوکر ایک الگ ملک بن گیا۔ تاہم جنوبی سوڈان کے الگ ملک بننے کے بعد بھی مغربی سامراج نے مسلم سوڈان کے خلاف سازشیں ختم نہیں کیں کیونکہ سوڈان کا حکمران طبقہ اپنے مسلم تشخص پر اصرار کرتا ہے پاکستان، ایران، سوڈان، افغانستان سمیت جو بھی ملک اپنے اسلامی تشخص پر قائم رہنا چاہتا ہے وہ مغربی سامراج کیلیے قابل قبول نہیں۔ خاص طور سے وہ مسلمان ممالک جو معاشی طور پر کمزور بھی ہوں۔

سوڈان میں اسلام پسند عمر البشیر کی حکومت تھی جو مغربی سامراج کو گوارا نہیں تھی۔ اس حکومت کے خلاف سوڈان میں عالمی تنظیموں اور بیرونی امداد سے چلنے والی این جی اوز(غیر سرکاری تنظیموں) نے عوام میں حکومت کے خلاف کام جاری رکھا۔ مغربی ممالک نے عمرالبشیر کے دورمیں خرطوم پر سخت معاشی پابندیاں عائد کی ہوئی تھیں، جس سے ملک کے معاشی حالات خراب ہوتے گئے اور لوگوں کی تکالیف میں اضافہ ہوتا گیا۔ مختلف تنظیمیں بنائی گئیں جنہوں نے دو برس پہلے عمر البشیر کی حکومت کے خلاف سڑکوں پر احتجاج شروع کردیا اور ان سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کیا۔ عمر البشیرپر الزام تھا کہ وہ غازہ میں فلسطینیوں کو ایران کے فراہم کردہ اسلحہ اور ہتھیار ترسیل کرنے میں مدد گار تھے۔

دوسری طرف عمر البشیر اور فوجی قیادت نے سعودی عرب کو یمن میں بغاوت کچلنے میں افرادی قوت فراہم کی۔ اس کے بدلہ میں تین برس پہلے سعودی عرب اور قطر نے سوڈان کو دو ارب ڈالر کا زرمبادلہ فراہم کیا۔ عمر البشیر پر دباؤڈالا جاتا رہا کہ وہ اسرائیل سے تعلقات قائم کریں لیکن وہ نہیں مانے۔ بالآخر مغربی سامراج کے ایجنٹوں کی مدد سے انکے خلاف مہنگائی کے بہانہ احتجاجی تحریک چلائی گئی۔

اپریل 2019 میں فوجی سربراہ عود ابن عوف نے عمر البشیر کی بیس سالہ حکومت کا تختہ الٹ کر حکومت سنبھالی لیکن ایک ہی دن بعد مستعفی ہوگئے تھے۔ اسکے دو ماہ بعد خرطوم میں خاصی قتل وخون ریزی ہوئی۔ فوجی قیادت نے ملٹری سویلین اشتراک پر مبنی ایک فارمولا تشکیل دیا جسکے تحت ایک ماہر معیشت ٹیکنوکریٹ عبداللہ حمدوک نے حکومت سنبھالی۔ اسکے تحت اگلے سال عام انتخابات منعقد کروائے جانے تھے۔

حمدوک امریکہ کے فرماں بردارتھے۔ مختلف عالمی معاشی اداروں میں کام کرچکے تھے۔ انہوں نے اسرائیل سے تعلقات بہتر بنانے میں دیر نہیں لگائی اور سوڈان بھی ان مسلم ممالک میں شامل ہوگیا جنہوں نے اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے اس سے سفارتی تعلقات قائم کرلیے۔ سوڈان نے اسرائیل کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ یہ کام ہوتے ہی امریکہ نے سوڈان کو اپنی سیاہ فہرست سے نکال دیا جس میں اسے دہشت گردی کے مددگار کے طور پر رکھا گیا تھا۔

امریکہ نے سوڈان کو ایک ارب ڈالر امداد دینے کا اعلان کردیا۔ سویلین حکومت سابق حکمران عمر البشیرکو جرائم کی بین الاقوامی عدالت کے حوالہ کرنا چاہتی تھی جہاں پر انکے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور دارفور علاقہ میں جنگی جرائم کے الزامات پر مقدمہ چلایا جاتا۔ فوجی قیادت کا اصرار تھا کہ سابق صدر پر سوڈان کے اندر ہی مقدمہ چلایا جائے۔ حمدوک کے بیشتر اقدامات سے فوجی قیاد ت خوش نہیں تھی۔ اس نے سویلین حکومت کو برطرف کرکے اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا۔

سوڈان کے معاشی حالات خاصے مخدوش ہیں۔ گزشتہ جولائی میں اسکی کرنسی کی قدر میں کمی کی گئی اور افراط زر چار سو فیصد ہوگیا۔ اس ملک پر حکمرانی کرنا اور عوام کو مطمئن کرنا دشوار کام ہے۔ مستقبل کے سیاسی نظام کے استحکام کا انحصار اس بات پر ہے کہ عرب ممالک خرطوم کی کس حد تک مالی مدد کرسکتے ہیں۔