Monday, 23 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Tamashbeeni Kab Tak?

Tamashbeeni Kab Tak?

سیاست کے بکھیڑوں سے جان چھڑوائیں تو ہم قومی تعمیر کے معاملات پر بات چیت کریں، ملک کو درپیش چیلنجوں کے بارے میں سوچیں اور انکے حل پر گفتگو کریں کہ ہمیں بحیثیت قوم کس طرح آگے بڑھنا ہے، ہماری ترجیحات کیا ہونی چاہئیں، طریقہ کار کیا ہونا چاہیے۔ ماضی میں ملک کو صرف حکومت میں شامل لوگوں کی کرپشن سے ہی نقصان نہیں پہنچا بلکہ غلط ترجیحات نے بھی شدید بحران پیدا کیے۔

پاکستان اسوقت جن معاشی، سماجی مسائل کا شکار ہے وہ راتوں رات پیدا نہیں ہوئے۔ دہائیوں کی غفلت، غلط ترجیحات اور پا لیسیوں کے باعث ہم اس مقام پر پہنچے ہیں۔ غربت، بے روزگاری بڑھ گئی ہے۔ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے۔ معاشی ترقی کی رفتار بہت سست ہے۔ پاکستانی روپیہ کی قدر بہت کم رہ گئی ہے۔ غیرملکی اور ملکی قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ لگتا ہے ہم کسی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں جس سے نکلنے کی کوئی اُمید نظر نہیں آتی۔ موجودہ صورتحال کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری حکومتوں نے بے تحاشا قرضے لیے لیکن انکا استعمال غیرپیداواری کاموں کی خاطر کیا حالانکہ قرض کی رقم کو سوچ سمجھ کر ایسے منصوبوں پر استعمال کرنا چاہیے تھا جن سے ہماری آمدن میں اضافہ ہوتا۔ لاہور کی اورنج ٹرین کو دیکھ لیجیے کہ چین سے ڈیڑھ سو ارب روپے قرض لیکر بنائی ہے لیکن اس سے آمدن تو کیا ہوگی اُلٹا حکومت کو اسے چلانے کے لیے سالانہ اربوں روپے کی سبسڈی دینا پڑے گی۔ یہی حال موٹرویز اور ائیرپورٹس کا ہے۔ بھارت نے کوئی موٹروے نہیں بنائی لیکن اسکی معیشت ہم سے کہیں زیادہ مستحکم ہے، اسے بھاگ بھاگ کر آئی ایم ایف اور سعودی عرب سے قرضے لینے نہیں جانا پڑتا۔ وجہ یہ ہے کہ بھارت نے پہلے اپنی جڑیں مضبوط کیں، ملک کی صنعتی ترقی پر توجہ دی، جدید تعلیم کے بڑے بڑے ادارے بنائے۔ بھارت کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ امریکہ اور جاپان میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔ ان ملکوں کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

ملک کے اندر بھی یہ لوگ معاشی ترقی کے قیادت کررہے ہیں۔ جب دنیا کمپیوٹر انقلاب کے دور میں داخل ہورہی تھی تو بھارت نے الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم اور صنعتکاری میں کثیر سرمایہ کاری کی۔ آج بھارت آئی ٹی کی برآمدات سے سوا سو ارب ڈالر سے زیادہ زرمبادلہ کما رہا ہے۔ جبکہ ہم صرف سواارب ڈالر کیونکہ ہماری حکومت کو بڑی بڑی سڑکیں بنانے کا خبط سوار تھا، تعلیم میں سرمایہ کاری ہماری ترجیح نہیں تھی۔ یہ جھوٹی شان و شوکت کے منصوبے ہیں جن کے باعث ہماری معیشت بحران کا شکار ہے۔ حتی کہ بنگلہ دیش ہم سے بہتر حالت میں ہے۔ بنگلہ دیش نے کوئی بڑا ائیر پورٹ نہیں بنایا نہ کوئی موٹروے۔ اسکی برآمدات پینتالیس ارب ڈالر سالانہ سے زیادہ ہیں اور ہماری تئیس ارب ڈالر۔ اسی بنگلہ دیش کا کچھ عرصہ پہلے تک ہمارے لوگ مذاق اُڑایا کرتے تھے۔ صحیح ترجیحات اور پالیسیوں کی بدولت بنگلہ دیش کی کرنسی ٹکا ہمارے روپے سے زیادہ مضبوط ہے۔ ایک بنگلہ دیشی ٹکا تقریبا دوپاکستانی روپے کے برابر ہے۔ 1971 میں جب مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوکر بنگلہ دیش بنا تو اسکی آبادی ہمارے ملک سے تقریباً ایک کروڑ زیادہ تھی۔ آج ہم سے پانچ کروڑ کم ہے۔ ہم نمائشی کاموں میں پھنس کر رہ گئے یانام نہاد جہادی، مسلح فرقہ وارانہ گروپوں کے نرغے میں گھرے رہے جنہوں نے ملک کے امن و امان کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا۔ ان حالات میں کوئی ملک خاک ترقی کرسکتا ہے۔

کوئی مسیحا نہیں ہوتا جو کسی ملک کو راتوں رات مسائل سے با ہر نکال دے۔ چٹکی بجاتے تمام مسائل حل کردے۔ مہنگائی ختم کردے اور سب کو روزگار مہیا کردے۔ ہتھیلی پر سرسوں نہیں جما کرتی۔ جو لوگ سال دو سال میں دکھاوے کے پراجیکٹ کھڑے کرتے ہیں وہ شعبدہ باز، مداری ہوتے ہیں۔ اُلجھی ہوئی گتھیاں سلجھانے کی خاطر غور و فکر کے بعد پالیسیاں تشکیل دینا پڑتی ہیں اوربرسوں مستقل مزاجی سے ان پر عمل کرنا پڑتا ہے تب دس پندرہ سال بعد مثبت نتائج سامنے آتے ہیں۔ ایسے منصوبے جو قرضے لیکر ایک دو سال میں مکمل کرلیے جائیں سادہ لوح عوام کواچھے لگتے ہیں لیکن ملک کے لیے تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً ملک کو پانی کے بڑے ذخائر کی ضرورت ہے، آبپاشی کے نئے ترقی یا فتہ نظام کی تاکہ بڑھتی ہوئی آبادی کی زرعی اور گھریلو استعمال کی ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔ جب دریاؤں میں پانی زیادہ آتا ہے اسے ضائع ہونے سے بچایا جائے۔ ایک بڑا ڈیم بنانے کے لیے دس بارہ برس درکار ہوتے ہیں۔ لیکن جب یہ مکمل ہوجاتا ہے تو اسکے ملکی معیشت کو بے بہا فوائد پہنچتے ہیں۔ ملکی آمدن میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر ہم بیس پچیس سال پہلے بڑے ڈیمز پر کام شروع کردیتے تو آج زیادہ خوشحال ہوتے۔ زیادہ رقبہ زیرکاشت ہوتا۔ زرعی پیداوار میں اضافہ ہوچکا ہوتا۔ ہمیں آج گندم باہر سے درآمد نہ کرنا پڑتی۔ کراچی کو دریائے سندھ سے اضافی پانی سپلائی کرنے میں آسانی ہوتی۔ بجلی زیادہ اور سستی دستیاب ہوتی۔ اسی طرح ہمیں قدامت پسند طبقات کی بلیک میلنگ سے نجات حاصل کرنا ہوگی اور آبادی میں اضافہ کو کنٹرول کرنا ہوگا جس طرح ایران اور بنگلہ دیش نے بہبود آبادی کے پروگرام کامیابی سے چلا کر کیا ہے۔ پاکستان دنیا کے ان چند ملکوں میں شامل ہے جہاں آبادی میں اضافہ کی رفتار بہت زیادہ ہے۔ خاص طور سے ہمارے دیہات میں اور قبائلی معاشرت کے علاقوں میں۔ حکومت اگر اس معاملہ پر مستحکم اور طویل المعیاد منصوبہ بندی نہیں کرے گی توملک میں جتنی بھی معاشی ترقی ہوجائے عوام کی غربت کم نہیں ہوگی۔ بیروزگار نوجوانوں کے جتھے کے جتھے ہوں گے جو بدامنی اور لاقانونیت کا باعث بنیں گے۔

اب بھی وقت ہے کہ ہم سنبھل جائیں اور اپنی ترجیحات کو درست کریں۔ تعصبات، توہم پرستی اور احمقانہ بیانیہ پھیلانے والوں سے نجات پائیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت، روبوٹکس، بائیوٹیکنالوجی میں بھاری سرمایہ کاری کریں تاکہ اگلے دس پندرہ سال بعد ہماری معیشت مضبوط بنیادوں پر استوار ہو۔ جدید تعلیم میں سرمایہ کاری، صنعتی کارخانوں کا قیام، پانی کے وسائل کی ترقی، آبادی میں کمی کے لیے پروگرام، نظام عدل و انصاف کی اصلاح، اقتدار و اختیار کی نچلی سطح پر منتقلی ایسے اقدامات ہیں جو پاکستان کی بقا، سلامتی اور خوشحالی کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ہمیں کم سے کم ان موضوعات پر سیر حاصل بحث مباحثہ تو کرنا چاہیے۔ کب تک ہم بے معنی سیاست کی تماش بینی میں مصروف رہیں گے؟