ابھی دنیا میں فائیو جی ٹیلی کمیونی کیشن ٹیکنالوجی پوری طرح نہیں پھیلی لیکن چین کی کمپنی ایشیا پاورنے چند روز پہلے سکس جنریشن نیٹ ورک کا حامل سیٹلائیٹ کامیابی سے فضا میں بھیج دیاہے۔ یہ سیٹلائیٹ خلا میں سکس۔ جی فریکونسی بینڈکی کارکردگی کو جانچنے کی غرض سے استعمال کیا جائے گا۔ سکس جنریشن ٹیکنالوجی فائیو۔ جی ٹیکنالوجی سے ایک سو گنا زیادہ تیز ہوگی۔ تاہم ابھی یہ ابتدائی مرحلہ میں ہے۔ اس سیٹلائیٹ میں ایسے ر یموٹ سینسنگ نظام بھی لگائے گئے ہیں جن سے فصلوں کو پہنچنے والے ممکنہ نقصانات، سیلاب اور جنگلات کی آگ کے بارے میں پیشگی یا بروقت اطلاع مل سکے گی۔
امریکہ کو دنیا میں ایک ہی برتری حاصل تھی کہ جدید ترین ٹیکنالوجی میں اسکا کوئی ہمسر نہیں تھا کیونکہ صنعتی مصنوعات کی تیاری کے میدان میں تو امریکہ بہت پہلے چین سے پیچھے رہ گیا ہے۔ اسوقت سب سے بہترین ٹیکنالوجی امریکہ کے پاس ہے جسے فروخت کرکے یہ خوب مال کماتا ہے۔ لیکن چین نے اس میدان میں بھی اسکی برتری کو جھٹکا لگادیا ہے۔ گو متعدد میدانوں میں اب بھی امریکہ ٹیکنالوجی میں سب سے آگے ہے لیکن فائیو جی مواصلاتی ٹیکنالوجی میں چینی کمپنی ہوآوے آگے نکل گئی۔ امریکہ چین کی مواصلاتی شعبہ میں تیزی سے اُبھرتی ہوئی اس کمپنی سے اتنا خوفزدہ ہوگیا کہ اس نے چند برس پہلے اس پر متعدد پابندیاں عائد کردیں۔ امریکی کمپنیاں اس کمپنی کو کئی پرزے فروخت نہیں کرسکتیں۔ گوگل والے ہوآوے کو اپنا اینڈرائیڈ سافٹ وئیر فراہم نہیں کرسکتے۔ اس کمپنی کا قصوریہ تھا کہ مواصلات کی فایئو جنریشن (جی) ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے استعمال میں یہ امریکی کمپنیوں سے آگے بڑھ گئی تھی۔ اس چینی کمپنی کانیٹ ورک دنیا کے 170 ملکوں میں پھیلا ہوا ہے۔ اسکے دو لاکھ ملازمین ہیں۔ یہ کمپنی گزشتہ گیارہ سال سے فائیو جی ٹیکنالوجی پر تحقیقی کام کررہی ہے۔ اسکی ترقی اتنی تیز رفتار ہے کہ اس نے اسمارٹ فون کی فروخت میں بین الاقوامی منڈی میں جنوبی کوریا کی سام سنگ کمپنی کو پیچھے چھوڑ دیا۔ یہ کمپنی اپنی فون چپ چین میں بناتی ہے۔ اس کے فون میں مصنوعی ذہانت (آرٹی فیشل انٹیلی جنس) کی استعداد دیگر تمام دیگر برانڈز کے فونز سے زیادہ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہوآوے اپنے سالانہ منافع کا دس فیصد حصہ تحقیق و تجدید(آر اینڈ ڈی) پر خرچ کرتی ہے۔ مثلا ًگزشتہ برس اس نے تحقیق پر دس ارب ڈالر خرچ کیے اور اس سال اس مد میں اسکا بجٹ بیس ارب ڈالر ہے یعنی پاکستان حکومت کے سالانہ بجٹ سے تین گنا زیادہ۔ یہ بجٹ امریکی کمپنیوں ایپل اور مائیکروسافٹ کے تحقیقی بجٹ سے زیادہ ہے۔ اب ہوآوے اینڈرائیڈ کی جگہ اپنا آپریٹنگ سافٹ وئیر بنارہی ہے۔
درحقیقت، چین کی ترقی کاایک بڑا راز یہ ہے کہ اسکے ہاں بچتوں کی شرح چالیس فیصد ہے۔ یعنی جو آمدن لوگوں کو ہوتی ہے اسکا چالیس فیصد خرچ نہیں کیا جاتا بلکہ بچت کرکے سرمایہ کاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔ چین کی بے مثال ترقی کے پیچھے دوسرا بڑا عامل یہ ہے کہ اس نے تعلیمی شعبہ کی تعداد اور معیار پر بہت زیادہ توجہ دی اور سرمایہ کاری کی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چین تعلیم اور تحقیق و تجدید میں سرمایہ کاری کے میدان میں یورپ اور امریکہ سے آگے بڑھ گیا ہے۔ چین ہر سال اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد، ماہرین ٹیکنالوجی، سائنس دانوں اور تحقیقی مقالوں کی اتنی بڑی تعداد پیدا کرتا ہے جو امریکہ میں پیدا ہونے والوں کے مقابلہ میں دوگنا ہیں۔ ٹیکنالوجی کے شعبہ میں چین کی بڑھتی ہوئی خود کفالت کے بعد اب یورپ اور امریکہ کے پاس اسکے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ چین سے اچھے تعلقات بنائے رکھیں۔ ہوآوے ایسی چینی کمپنیوں پر امریکی ٹیکنالوجی کے استعمال کی پابندیاں لگا کر وقتی طور پر امریکہ چین کے لیے کچھ مشکلات پیدا کرسکتا ہے لیکن چند برسوں میں چین اس ضرورت سے آزاد ہوجائے گا۔ وہ خود اپنی متبادل ٹیکنالوجی تیار کرلے گا۔ اسکی ایک مثال ٹیلی کمیونی کیشن ٹیکنالوجی میں چین کی واضح برتری ہے۔ امریکی حکومت نے ہوآوے کو نقصان پہنچانے کے لیے جو اقدامات کیے ہیں ان سے صرف چین ہی نہیں بلکہ روس اور دیگر تیزی سے ترقی کرنے والے بڑے ممالک کو یہ واضح پیغام مل گیا ہے کہ اپنی خوود مختاری اور حاکمیت اعلی قائم رکھنے کی خاطر ٹیکنالوجی میں مکمل خود مختاری، خود انحصاری ناگزیر ہے۔
خود مختاری اور حاکمیت اعلیٰ کے تصورات کا عام طور سے یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ کوئی قوم اپنے معاملات کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہے اور حتمی فیصلہ لینے کا مکمل اختیار رکھتی ہے۔ لیکن قوموں کی آزادی، خود مختاری اور حاکمیت ِاعلیٰ (ساورینٹی) کا انحصار بہت حد تک اس قوم کی معاشی مضبوطی سے بھی جڑا ہوا ہے۔ ایک قوم جو ہر وقت عالمی برادری کی امداد کے سہارے زندہ ہو وہ آزاد اور خود مختار نہیں ہوسکتی جیسا کہ افغانستان ہے جسکے بجٹ کا نوّے فیصد حصّہ بیرونی امداد سے آتا ہے۔ اسی لیے کابل انتظامیہ بین الاقوامی برادری کے دباؤ کو ماننے پر مجبور ہے۔ جزوی حد تک پاکستان کا بھی یہی حال ہے جسے چند عرب ممالک، چین اور عالمی اداروں سے قرض لیکراپنی معیشت چلانا پڑ رہی ہے۔ جن ملکوں سے مال لیا جاتا ہے انکی بات بھی ماننا پڑتی ہے۔ جب تک کوئی ملک معاشی طور پرمستحکم اور خود کفیل نہ ہو وہ مکمل طور پر آزاد نہیں ہوسکتا۔ دنیا اتنی تیزی سے تبدیل ہورہی ہے کہ یہی اہمیت اب ٹیکنالوجی کا شعبہ بھی اختیار کرگیا ہے۔ اگر کسی ملک کے پاس ٹیکنالوجی میں خود انحصاری، خود کفالت نہیں بلکہ وہ دوسری قوموں کا محتاج ہے توصحیح معنوں میں آزاد ملک نہیں۔ اسکی حاکمیت محدود ہے۔ مثال کے طور پر ہماری فضائی افواج کے پاس امریکہ کے فراہم کردہ جدید ترین ایف سولہ طیارے تھے جو ملک کی فضائی حدود کا دفاع میں کلیدی کردار کے حامل تھے لیکن کئی برس پہلے امریکہ نے مختلف حیلے بہانوں سے ہمیں ان طیاروں کی فروخت اور پرزوں کی فراہمی بندکردی۔ تب پاکستان کی ریاست نے ایک بڑا فیصلہ کیا کہ امریکہ پر انحصار ختم کیا جائے اور ملک کے اندرجدید جنگی طیارے بنائے جائیں۔ اس طرح ایف سیون تھنڈر بنانے شروع کیے گئے۔ ہم نے بتدریج ان طیاروں کا معیار بھی بہتر بنا لیا۔ تاہم ہم اِن جنگی طیاروں کے انجن روس سے خریدتے ہیں۔ اس شعبہ میں مکمل خود کفالت ہم اسوقت حاصل کریں گے جب جنگی طیاروں کے انجن ملک کے اندر بنائیں گے۔ پاکستان کی بقا اور آزادی کے لیے ضروری ہے کہ ہم اعلیٰ تعلیم اور تحقیق و تجدید کے میدان کو نظر اندازنہ کریں اوراپنا پیٹ کاٹ کر ان شعبوں پر بھاری سرمایہ کاری کریں۔ ( ختم شد )