Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Uftaadgan e Khaak Ka Ehtijaj

Uftaadgan e Khaak Ka Ehtijaj

گزشتہ دنوں پنجاب میں ہونے والا احتجا ج تو ختم ہوگیا لیکن اسکے گہرے اثرات تادیر قائم رہیں گے۔ ایک بات تو واضح ہوگئی کہ ملک میں مؤثر ایجی ٹیشن کرنے، معمولاتِ زندگی مفلوج کرنے کی طاقت کس قسم کے گروہوں کے پاس ہے اور انہیں کنٹرول کرنے اور سڑکوں سے ہٹانے کی صلاحیت کا حامل کونسا ادارہ ہے۔ بلند بانگ دعوے کرنے والے سیاستدانوں تک پیغام پہنچ گیا ہے کہ مقتدرہ، ریاستی اداروں کی بیساکھیوں کے بغیر وہ حکومت نہیں چلاسکتے۔ خواہ وہ لوگ جواسوقت حکومت میں ہیں یا وہ سیاستدان جو اپوزیشن میں ہیں۔ سیاسی جماعتیں عوام سے اکثریتی ووٹ لے سکتی ہیں لیکن ان میں ایجی ٹیشن کی استعداد نہیں ہے۔ ملک میں کچھ تنظیمیں اسٹریٹ پاور کی حامل ہیں جو کسی حکومت کو گھٹنوں پر جھکاسکتی ہیں اور صرف سلامتی کے اعلیٰ ترین ادارے ہی ان تنظیموں کو ہینڈل کرسکتے ہیں۔

ہماری سیاسی جماعتیں فین کلب کی طرح ہیں جنکے کارکن نظم و ضبط سے ماوراء ہیں۔ ان جماعتوں کا کوئی نظریہ ہے نہ اصول نہ تنظیمی نظم و نسق۔ کارکن لیڈروں کی خوشنودی کیلیے کام کرتے ہیں۔ چند بڑے سیاسی خاندان منظر سے ہٹ جائیں تو یہ نام نہاد جماعتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائیں۔ بھٹو زرداری، نواز شریف اور عمران خان کے گرد گھومتی جماعتیں مقامی بااثر سیاستدانوں کے ایک ڈھیلے ڈھالے وفاق کی طرح ہیں۔ جو لیڈر عوام میں جتنا مقبول ہوتا ہے مقامی الیکٹ ایبلز اتنی زیادہ تعداد میں اسکے گرد جمع ہوجاتے ہیں۔ کبھی ایک پارٹی میں کبھی دوسری جماعت میں۔ ان پارٹیوں کے پیروکار جلسوں میں جمع ہوسکتے ہیں، نعرے لگاسکتے ہیں میڈیا میں پارٹی کے حق میں اول فول بولنے کی قدرت رکھتے ہیں، الیکشن مہم میں شریک ہوجاتے ہیں لیکن اپنے لیڈر کی خاطر ڈنڈے نہیں کھاسکتے، سڑکوں پر ایجی ٹیشن نہیں کر سکتے، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔

سیاستدانوں میں کوئی اتنا محترم نہیں ہے جسکی خاطر اسکی پارٹی کے حامی اپنی جان کو خطرہ میں ڈالیں۔ یہ طاقت مذہبی بنیاد پر منظم چند جماعتوں اور مدرسوں کے پاس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف کو مولانا فضل الرحمن سے اتحاد کی ضرورت ہے جن کے پاس مدرسوں کا بڑا نیٹ ورک ہے۔ نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کو عمران خان سے زیادہ مولانا طاہر القادری کے جلسوں اور دھرنوں سے خطرہ لاحق رہا جن میں وحدت المسلمین تنظیم کے کارکن بھی شریک رہے۔ پچیس تیس سال پہلے تک جماعت اسلامی کے پاس اسٹریٹ پاور تھی جو اب خاصی حد تک کمزور ہوچکی ہے۔

گزشتہ پانچ، چھ برسوں میں تحریکِ لبیک پاکستان کا اُبھار مذہبی سیاست کے منظر نامہ پر ایک اہم واقعہ ہے۔ اس تنظیم نے پہلی بار ملک کے اکثریتی مسلک کی طاقت کا بھرپور اظہارکیا ہے۔ ایک ایسا مسلک جس کے پیروکار بہت طویل عرصہ سے پُر امن طور پرخاموش تماشائی بنے ہوئے اپنی مذہبی سرگرمیوں میں مصروف تھے جبکہ دیگر مسالک کے علما اور کارکن کہیں زیادہ سرگرمی سے سیاست میں مصروف تھے۔ انیس سو اسّی کی دہائی میں جب کابل میں کمیونسٹ بغا وت کے خلاف افغان جہاد شروع ہوا تو پاکستان میں ایک مخصوص اقلیتی مسلک کا فروغ ہونے لگا۔ عرب ملکوں کاہمارے ہاں اثر و رسوخ بڑھنے لگا۔

عرب ملکوں کے مسلک سے وابستہ علمائے کرام اور مدارس کی تعداد بڑھ گئی۔ انکی سیاسی تنظیمیں ملکی منظر نامہ پر غالب آگئیں۔ ان تنظیموں کا افغان جہاد سے قریبی تعلق رہا جو ان کی ریاستی اداروں سے قربت کا بھی باعث بنا۔ تاریخی طور پر بعض مسالک کے ہاں مذہب اور سیاست کی آمیزش زیادہ رہی ہے۔ اکثریتی مسلک کے علماء نے اپنے کام سے کام رکھا۔ وہ مذہبی عبادات اور رسومات کی ادائیگی کے کاموں میں مشغول رہے۔ دیگرمسالک کی فعالیت کو دیکھتے ہوئے انہوں نے پہلے اپنی تبلیغی سرگرمیوں کو فروغ دیا۔ انیس سو نوّے کی دہائی میں دعوتِ اسلامی کی تحریک مقبول ہونا شروع ہوئی۔ جمعیت العلمائے پاکستان سوادِ اعظم کے علماء کا سیاسی پلیٹ فارم تھی جسکا کراچی اور جنوبی پنجاب کے کچھ علاقوں میں خاصا ووٹ بینک تھا لیکن یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی۔

مولانا طاہر القادری نے اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کراچی میں اپنی جگہ نہ بناسکے۔ پنجاب میں انکی جماعت کو نظریاتی کارکن میسر آگئے۔ انہوں نے آصف زرداری اور نواز شریف کی گزشتہ حکومتوں کو ناکوں چنے چبوائے لیکن اپنی پارٹی کے ولولے اور تحرک کو قائم نہ رکھ سکے۔ تین برس پہلے عام انتخابات میں مولانا طاہر القادری کی جماعت کی جگہ شمالی اور وسطی پنجاب میں تحریک لبیک ایک سیاسی طاقت کے طور پر نمودار ہوگئی۔

ووٹوں کے حساب سے یہ پنجاب کی تیسری بڑی جماعت اور ملکی سطح پر پانچویں بڑی جماعت ہے۔ اس نے بائیس لاکھ ووٹ حاصل کیے۔ اگلے جنرل الیکشن میں جو بڑی سیاسی جماعت اس سے اتحاد کرے گی وہ قومی اسمبلی میں اسکے تعاون سے چالیس پچاس سیٹیں زیادہ حاصل کرے گی۔ ملک کے اکثریتی مسلک سے تعلق رکھنے والے مذہبی سوچ کے حامل طبقہ نے اس جماعت کے ذریعے اپنا بھرپور سیاسی اظہار کیا ہے۔ اپنی ایجی ٹیشن کی طاقت منوائی ہے۔

کسی بھی مسلمان معاشرہ میں مذہب اور سیاست کا اجتماع تعجب کی بات نہیں۔ ایران اور ترکی میں سیکولرازم کو ریاستی قوت کے زور پرپچاس سے ستّر سال تک نافذ کیا گیا لیکن بالآخر مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتیں اور علماء غالب آگئے۔ پاکستان کا معاملہ ترکی اور ایران سے قدرے مختلف ہے۔ ان دو ملکوں میں ایک مسلک کی غالب اکثریت ہے۔ ہمارے ہاں تین، چار مسالک اچھی خاصی تعداد میں ہیں۔ اسلیے ایک مسلک کے علما یا نظریاتی اسکالرز کا مکمل غالب آنا ممکن نہیں۔ جب انکا اتحاد ہوگا جیسا متحدہ مجلس عمل کی صورت میں ہوا تھا تو انکا ووٹ بینک جمع ہوجائے گا اور انکے حکومت میں آنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ مذہبی سیاسی جماعتوں کے کچھ قائدین دولتمند ہوسکتے ہیں لیکن انکے کارکن اور زیادہ تر رہنما غریب اور نچلے متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔

یہ جماعتیں خاص طور سے تحریک لبیک ایک طرح سے طبقاتی کردار کی حامل ہیں۔ حالیہ ایجی ٹیشن میں کوئی امیر، اعلیٰ متوسط طبقہ کا فرد شریک نہیں تھا۔ پاکستان کے غریب، لوئر مڈل کلاس کیلیے مذہبی سیاسی جماعتیں ہی وہ پلیٹ فارم ہیں جن کے ذریعے وہ اُوپر اٹھ سکتا ہے۔ ریاستی طاقت کو کامیابی سے چیلنج کرسکتا ہے۔ تمام بڑی سیاسی جماعتیں امیر، اعلیٰ متوسط طبقہ کی آہنی گرفت میں ہیں۔ ان جماعتوں پر بڑے بڑے بزنس مین، پراپرٹی ڈیلرز، بڑے زمیندارچھائے ہوئے ہیں جو کسی غریب کو آگے آنے کا موقع نہیں دیتے۔ حالیہ ایجی ٹیشن افتادگانِ خاک کی طاقت کا ایک ابتدائی مظاہرہ تھا۔