Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Ukraine, Roos Kasheedgi

Ukraine, Roos Kasheedgi

مسلمانوں کے لیے یوکرائن نامانوس نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اسکے ایک حصہ پر کئی سو سال تک مسلمانوں کی حکومت رہی ہے۔ ترکی کے شمال میں بحیرہ ٔاسود (بلیک سی)ہے اور اس کالے سمندرکے شمال میں پونے چار کروڑ آبادی پر مشتمل یوکرائن کا ملک واقع ہے۔ گزشتہ سات برسوں سے اس یورپی ملک کی ہمسایہ ملک رُوس سے کشیدگی چل رہی ہے۔

رُوس رقبہ کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے لیکن اسکی کمزوری یہ ہے کہ اسے بحیرۂ اسود کے سوا کوئی سمندر نہیں لگتا جو گرم پانیوں پر مشتمل ہو۔ صرف بحیرہ ٔاسود سردی کے موسم میں بحری تجارت کے لیے کُھلا رہتا ہے، برف سے جمتا نہیں۔ بحیرہ ٔاسودرُوس کی معاشی زندگی ہے۔ اس سمندر کے جنوب میں ترکی کے شہر استنبول کے قریب ایک تنگ آبنائے باسفورس ہے جو کالے سمندر کو بحیرۂ مرمر سے ملاتی ہے جو آگے جا کراہم ترین تجارتی گزرگاہ یعنی بحیرۂ رُوم سے مل جاتا ہے۔ آبنائے باسفورس صرف پونا کلومیٹر چوڑا اور اکتیس کلومیٹر لمبا ہے۔ بحیرۂ اسود میں ہی کریمیا کا جزیرہ نما واقع ہے۔ کریمیا کی رُوس کے لیے از حد تزویراتی اہمیت ہے۔ کریمیا کی بندرگاہ سیوستا پول، روس کا بحری فوجی اڈہ بھی ہے۔ یہاں روس کا بحری بیڑہ مقیم ہے۔ جب سات سال پہلے رُوس نے کریمیا پر قبضہ کیا تو امریکہ اور یورپی ممالک نے اس پر متعدد معاشی پابندیاں لگادیں۔ لیکن رُوس پیچھے نہیں ہٹا۔ اسوقت روسی قیادت نے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ کریمیا کے تحفظ کے لیے ایٹمی ہتھیار بھی استعمال کرسکتا ہے۔ کریمیا تو تین سو سال سے زیادہ تک رُوس کا حصہ رہا۔ صدیوں تک اس اہم جزیرہ نما پر مسلمانوں کی حکومت رہی۔ یہ ایک طویل عرصہ تک سلطنت عثمانیہ کی ایک باج گزار ریاست رہا۔ اٹھارویں صدی تک کریمیا کا علاقہ روسی سلطنت کا نیم خود مختار علاقہ بن چکا تھا۔

1922سے 1991تک یوکرائن بھی کمیونسٹ رُوس یعنی سوویت یونین کا ہی ایک صوبہ تھا۔ جب سوویت یونین ٹوٹاتو اسکے چودہ صوبے الگ ہو کر آزاد ملک بن گئے۔ ان میں یوکرائن بھی شامل تھا۔ سات برس پہلے تک اس ملک میں بیشتر اوقات رُوس نواز حکومتیں رہیں۔ وہ رُوس سے قریبی دوستانہ تعلقات رکھتی تھیں۔ رُوس نے بھی یوکرائن کو بہت سی رعائیتیں دی ہوئی تھیں جن میں سستے نرخوں پر قدرتی گیس کی فراہمی شامل تھی۔ یوکرائن میں 2003 سے2005 تک روس کی بجائے امریکہ اور یورپ کی دوست حکومت بن گئی تو رُوس کو اپنی سلامتی اور مفادات کی بابت پہلی بار تشویش ہوئی۔ سب سے اہم، امریکہ کی سربراہی میں قائم یورپی ممالک کے دفاعی اتحاد نیٹو نے رُوس کے ہمسایہ ممالک کو اپنا رُکن بنانا شروع کردیا۔ ان میں بحر اسود سے متصل بلغاریہ اور رُومانیہ شامل تھے۔ یورپ اور امریکہ نے جارجیا میں بھی رُوس مخالف حکومت قائم کروائی۔ امریکہ نے یوکرائن کی حکومت کوحالیہ برسوں میں جدید ترین جنگی ہتھیار فراہم کیے ہیں اور اسکے فوجیوں کو بڑے پیمانے پر تربیت دی ہے۔ ماسکو کے حکمرانوں کو اندازہ ہوگیا کہ امریکہ اور یورپ اسکے گرد گھیرا ڈال رہے ہیں۔ اس نے سب سے پہلے جارجیا میں اپنی حامی حکومت بنوائی۔ 2014 میں یوکرائن میں امریکی انٹیلی جنس(سی آئی اے) کی کوششوں سے رُوس مخالف حکومت آگئی توماسکو نے ان انتخابات کو جائز تسلیم کرنے سے انکا رکردیا۔ فوری طور پر عسکری طاقت استعمال کرتے ہوئے جزیرہ نما کریمیاپر قبضہ کرلیا اورریفرنڈم کروادیا۔ وہاں کے عوام کی اکثریت نے رُوس میں شامل ہونے کی حمایت کردی۔ یوکرائن کے مشرقی علاقہ میں اکثریت روسی نسل کے لوگوں پر مشتمل ہے جبکہ اسکے مغربی علاقہ میں پولش نسل(پولینڈ کی آبادی) کی اکثریت ہے۔ مشرقی یوکرائن کے لوگ رُوس سے قریبی تعلقات چاہتے ہیں جبکہ مغربی یوکرائن کے لوگ یورپی یونین کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ ماسکو ہرگز یہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں کہ اس کی سرحد سے متصل ملک یورپی یونین میں شامل ہو۔ امریکہ اور یورپ اسکی سرحد پر آجائیں۔ اگر ایسا ہوا تو رُوس کی سلامتی خطرہ میں پڑ جائے گی۔ رُوس یہ بھی چاہتا ہے کہ نیٹو اسکے ہمسایہ ممالک جیسے بلغاریہ میں اپنی سرگرمیاں محدود کرے۔ ماسکو یوکرائن کو تو ہمیشہ اپنا حصہ تصور کرتا رہا ہے۔ صدر پیوٹن نے اپنی پارلیمان (ڈُوما) سے خطاب میں کہا تھا کہ عوام کے دل و دماغ میں یوکرائن ہمیشہ رُوس کااٹوٹ اَنگ رہا ہے۔

اس وقت مشرقی یوکرائن میں دو بڑے علاقوں میں روس نواز مسلح گروہ حکومت کررہے ہیں اور نیم خود مختار علاقے بن چکے ہیں۔ ماسکو نے وہاں کے پانچ لاکھ شہریوں کو رُوس کے پاسپورٹ جاری کردیے ہیں۔ مشرقی یوکرائن ایک طرح سے رُوس اور یورپ کے زیر اثر مغربی یوکرائن کے درمیان بفر زون ہے۔ گزشتہ ہفتہ امریکہ نے یوکرائن سے اظہار یکجہتی کے لیے آبنائے باسفورس سے اپنے جنگی جہاز گزارنے کا اعلان کیا تھا۔ اسکے ردّعمل میں رُوس کے بحری بیڑہ نے بحیرہ ٔکیسپئن سے بحیرۂ اسود کی طرف حرکت کرنا شروع کردی۔ تب امریکہ نے اپنے جنگی جہازوں کو باسفورس میں بھیجنے کا ارادہ ترک کردیا۔ تاہم چند روز پہلے امریکہ نے رُوس پر اپنے صدارتی الیکشن میں سائبر حملے کرنے کا الزام لگا کر نئی پابندیاں لگادی ہیں۔ جواب میں ماسکو حکومت نے بھی امریکی سفارتکاروں، افسروں کو اپنے ملک سے نکال دیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ امریکی صدر جو بائیڈن نے رُوسی صدر ولادی میر پیوٹن کو ٹیلی فون کرکے انہیں ملاقات کرنے کی پیش کش بھی کردی ہے۔ جوبائیڈن نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ اب رُوس سے تعلقات مزید خراب نہیں کرنا چاہتا۔ مطلب، کشیدگی رہے لیکن جنگ نہ ہو۔ یہ امریکی سامراج کا پرانا طریقہ ہے۔ تناؤ پیدا کرکے اسلحہ، ہتھیار بیچتے رہو، مال بناتے رہو۔ چین سے تائیوان اور رُوس سے یوکرائن کے معاملہ پر کشیدگی امریکی سامراج کے مفاد میں ہے۔