اگلے روز وزیراعظم عمران خان نے عوام کے سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے قدرے اپنی بے بسی کا اظہار کیا۔ کرپشن کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ اکیلے کرپشن ختم نہیں کرسکتے۔ قوم اور عدلیہ کو بھی اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کی خواہش کے برعکس سیاسی لیڈروں کو کرپشن اور منی لانڈرنگ کے مقدمات میں خاصی حد تک رعایت مل چکی ہے۔ ڈھائی برس ہوگئے کسی ایک سیاسی لیڈر کو بدعنوانی کے کسی مقدمہ میں سزا نہیں سنائی گئی۔ مقدمات التوا کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ اکثر ملزمان ضمانت پر رہا ہوچکے ہیں اور سیاسی طور پر سرگرم ہیں۔
ہمارا قانونی نظام ایسا ہے کہ دولت مند اور بااثر لوگوں کو عدالتوں سے سزا ہونا تقریباً ناممکن ہے۔ جن لوگوں نے کروڑوں، اربوں روپے ناجائز طریقے سے بنائے، وہ تفتیشی افسران خرید سکتے ہیں جو استغاثہ میں جھول رکھ دیتے ہیں۔ اصل دستاویزی ثبوت غائب کردیتے ہیں۔ یہ ملزمان اچھے سے اچھے، مہنگے ترین وکیلوں کی خدمات حاصل کرلیتے ہیں جو تکنیکی بنیادوں پر مقدمے کو طول دے سکتے ہیں۔ اچھا وکیل ملزموں کی ضمانت کروالیتا ہے یا اسے بری کرواسکتا ہے۔ مقدمہ لمبا ہوجائے تو اس دوران میں گواہ کو ڈرا دھمکا کر یا رشوت دیکر منحرف کروالیا جاتا ہے۔ یا قتل کروادیا جاتا ہے۔ یہ انگریزی نظام عدل و انصاف برطانیہ کے اینگلو سیکسن معاشرہ کی روایات پر مبنی ہے۔ ہمارے قبائلی اور جاگیردارانہ معاشرہ میں اسکا موثر ہونامحال ہے۔ خاص طور سے ایسے ماحول میں جب لوگوں کی اکثریت بدعنوانی پر مائل ہے۔ بڑے سیاستدانوں کو اپنی پارٹی کی منظم حمایت بھی حاصل ہوتی ہے۔ وہ عوام میں نسلی، لسانی بنیادوں پر جذبات کو بھڑکا سکتے ہیں۔ سیاستدان اپنے کرپشن مقدمات کو سیاسی رنگ دیتے ہیں۔ خواہ انکے خلاف کتنے ہی ثبوت کیوں نہ ہوں وہ ان مقدموں کو اپنے خلاف انتقامی سیاسی کاروائی قرار دیتے ہیں۔ کرپشن مقدموں میں دھنسی ہوئی ہماری اپوزیشن جماعتیں لانگ مارچ اور دھرنے کی تیاریوں میں مصروف تھیں۔ جب بھی یہ سڑکوں پر نکلیں گی حکومت کے لیے اچھا خاصا امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوگا۔ بلیک میلنگ کی یہ وہ طاقت ہے جس کے بل پر سیاستدان احتساب کی کارروائیوں کو غیر موثر بناسکتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی یہ طاقت ہے جس کے جرائم پیشہ افراد ان سے تعلق رکھتے ہیں۔ جتنے زمینوں پر قبضہ کرنے والے گروہ ہیں یا منشیات فروش ہیں یا بدعنوان ٹھیکیدار ہیں وہ سیاسی جماعتوں میں شامل ہیں یا انہیں دل کھول کر اپنی حرام کی کمائی سے چندہ دیتے ہیں۔ سرکاری کام کرنے والے ٹھیکیدار ہر پارٹی کی سرپرستی کرتے ہیں تاکہ کوئی بھی جماعت حکومت بنائے ان کا کاروبار چلتا رہے۔ انہی کے مہیا کردہ مال سے ارکان اسمبلی الیکشن مہم چلاتے ہیں۔ حکومت ترقیاتی کاموں پر ہر برس جتنے فنڈز خرچ کرتی ہے انکا کم از کم نصف حصّہ ٹھیکیداروں، بددیانت افسروں اور سیاستدانوں کی جیب میں چلا جاتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے یہ بات ذرا تاخیر سے مانی کہ وہ اکیلے کرپشن کو ختم نہیں کرسکتے۔ اُنکی حکومت کو ڈھائی برس گزر گئے۔ اربوں روپے کے کرپشن مقدمات میں ملزم پیپلزپارٹی کے رہنما جیلوں سے باہر آچکے ہیں۔ صرف ایک خورشید شاہ ابھی مقید ہیں۔ ن لیگ کے رہنماؤں کا بھی یہی حال ہے۔ صرف شہباز شریف جیل میں ہیں لیکن کسی وقت انکی ضمانت بھی ہوسکتی ہے۔ اپوزیشن نے وزیراعظم عمران خان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ نیب کا ادارہ ختم کردیں یا اسکا قانون اسطرح بدل دیں کہ انکے خلاف مقدمات غیر موثر ہوجائیں۔ وہ نہیں مانے۔ کہتے رہے کہ این آر او نہیں دیں گے۔ لیکن ہمارے قانونی نظام نے تو عملی طور پر این آر او دے دیا۔ ایک ہفتہ پہلے پنجاب میں ن لیگ کے بڑے رہنماؤں کے مقدمات سننے والے احتساب ججوں کا تبادلہ ہو گیا۔ ماتحت عدلیہ میں تبادلے معمول کی بات ہیں۔ اب نئے ججوں کو ان مقدمات کو سمجھنے میں طویل وقت لگے گا۔ اسی دوران میں الیکشن کا وقت آجائے گا۔ ہوسکتا ہے کہ سیاسی نقشہ بدل جائے، قانون ہی تبدیل کردیا جائے اور مقدمے ختم ہوجائیں۔
عمران خان کے پاس اس دستور، نظام کو بدلنے کے لیے پارلیمان میں دو تہائی اکثریت نہیں ہے۔ انکے پاس تو سادہ اکثریت بھی نہیں ہے۔ وہ بڑی مشکل سے اپنی حکومت سنبھالے بیٹھے ہیں۔ ایم کیو ایم اور ق لیگ اُنکا ساتھ چھوڑ دیں تو حکومت فوراً ختم ہوجائے۔ صرف یہی نہیں انکی پارٹی کے اندر تیس پینتیس لوگ ایسے ہیں جو کسی کے ایک اشارے پر اُنہیں چھوڑ سکتے ہیں۔ اس طاقت کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے سینٹ الیکشن میں یوسف رضا گیلانی کو جتوایا۔ سب سے اہم، ریاستی نظام اور ادارے اشرافیہ کی سرپرستی اور تحفظ کرتے ہیں۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ کرپشن کا خاتمہ اور احتساب ایسے کام ہیں جو عمران خان موجودہ نظام کے اندر ہوتے ہوئے انجام نہیں دے سکتے اور نظام کو تبدیل کرنے کی طاقت اُن کے پاس نہیں ہے۔ وہ تو اتنے بے بس ہیں کہ ایک بڑے سز ایافتہ لیڈر جھوٹی میڈیکل رپورٹیں بنوا کر ملک سے نکل گئے۔ اس کرپٹ نظام نے اپنے وزیراعظم تک کو مامُوں بنا دیا۔ اب عمران خان ضد پر اڑے ہوئے ہیں کہ مریم نواز کو ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اگر مریم کو عدالت سے اجازت مل جائے تو وزیراعظم اسکی حکم عدولی تو نہیں کرسکتے۔ البتہ انکے موقف کا ایک فائدہ ہے کہ عوامی سطح پر الزام اُن پر نہیں آئے گا۔
موجودہ حالات میں وزیراعظم عمران خان کے پاس تین آپشن ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ سمجھوتہ کرلیں اور کرپشن کی بجائے اپنی زیادہ توجہ عوام کے فلاح و بہبود کے اُن کاموں پر مرکوز کرلیں جو وہ کرسکتے ہیں جیسے صنعتی ترقی، زراعت کی بحالی، صحت، تعلیم، ماحولیات کے شعبے۔ دوسرراستہ یہ ہے کہ وہ استعفیٰ دیکر پارٹی کے کسی اور شخص کو زیراعظم بنوادیں جو یہ کام کرسکے۔ تیسرا انتہا پسندانہ راستہ ہے کہ وہ قومی اسمبلی توڑ دیں تاکہ قوم نئے انتخابات کے ذریعے جسے چاہے منتخب کرلے۔ کورونا وبا کے موجودہ حالات میں نئے الیکشن کی طرف جانا دانشمندی نہیں ہوگا۔ علاقائی صورتحال بھی ایسی ہے کہ ملک سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ عملی سیاست سمجھوتوں سے عبارت ہوتی ہے۔ اپنی حدود کو سمجھنا پڑتا ہے۔ عمران خان کی پارٹی انقلابی پارٹی نہیں ہے۔ انکے پاس انقلابی نظریہ کی بنیاد پر منظم جماعت نہیں ہے۔ ایک فین کلب ہے جو چاہتا ہے کہ عمران خان مسیحا کے طور پر سب کچھ ٹھیک کردیں۔ حالانکہ ایسا ممکن نہیں۔ جمہوری پارلیمانی نظام کو اپوزیشن کی مدد سے ہی چلایا جاتا ہے۔ کچھ لو، کچھ دو کے اصول پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے بھی کچھ بڑے، اہم کام کرسکتے ہیں۔ وہ حکومت سنبھالنے کے فوراًبعد اپنے کیے گئے وعدوں پر نظر ڈالیں تو انہیں ایک لمبی فہرست نظر آئے گی جو اُن کی توجہ کی منتظر ہے۔ ان میں سے کئی کام ایسے ہیں جن پر ڈھائی برس گزرنے کے باوجود ابھی کام شروع بھی نہیں ہوسکا۔