Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Yajooj Majooj Ka Dastoor

Yajooj Majooj Ka Dastoor

سیاست کے نام پر جو کھینچا تانی اس وقت ملک میں ہورہی ہے یہ کوئی نئی بات نہیں۔ ہماری تہتر سال کی تاریخ میں یہی کچھ ہوتا آیا ہے۔ جوپارٹیاں اور سیاستدان حکومت میں نہیں ہوتے اُن سے صبر نہیں ہوتا، وہ حکومت کے خلاف مسلسل سازشوں اور احتجاج میں مصروف رہتے ہیں۔ سوِل، ملٹری بیوروکریسی کے ساتھ ملکر حکومت کو گرانے اور اسکی جگہ خود لینے کی سر توڑ کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ انیس سو پچاس کی دہائی میں لیاقت علی خان کی زندگی میں ہی یہ کھیل شروع ہوگیا تھا۔ ممتاز دولتانہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے، اعلی تعلیم یافتہ، بڑے جاگیر دار سیاستدان تھے۔

پنجاب میں مسلم لیگ کے ایک اور بڑے رہنماافتخار ممدوٹ وزیراعلیٰ تھے۔ ممتاز دولتانہ کوافتخار ممدوٹ کی وزارت برداشت نہیں ہوئی، وہ مسلسل انکے خلاف سازشوں میں مصروف رہے۔ اخبارات میں افتخار ممدوٹ کے خلاف مسلسل مہم چلائی گئی۔ حالانکہ ملک نیا نیا بنا تھا۔ چاروں طرف مسائل ہی مسائل تھے۔ معاشی وسائل نہ ہونے کے برابر تھے۔ لیکن سیاستدانوں کو اقتدار کی ہوَس نے اندھا کیا ہوا تھا۔ سیاستدانوں کی مسلسل لڑائی، بے صبری کے نتیجہ میں سول بیوروکریسی نے پَر پُرزے نکال لیے۔ سازشوں کا بازار گرم ہوگیا۔ خواجہ ناظم الدین بنگال سے تعلق رکھنے والے شریف النفس، ایماندار سیاستدان تھے۔ لیاقت علی خان کے بعد وزیراعظم بنے تو انکے خلاف مہم چلائی گئی۔ بالآخر اُنکو اقتدار سے ہٹا کر دَم لیا گیا۔ دو بیوروکریٹس غلام محمدا ور اسکندر مرزا نے یکے بعد دیگرے کئی وزیراعظم ہٹا ئے اور بنائے۔

حتی کہ آئین ساز اسمبلی کو ہی رخصت کردیا۔ کوئی سیاستدان کسی دوسرے کی حکومت برداشت کرنے کو تیار نہ تھا۔ خود حکومت میں آنے کے لیے اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ یعنی سول بیوروکریسی سے جوڑ توڑ، سازشوں میں مصروف رہتا تھا۔ بالآخر جنرل ایوب خان نے آئین کو منسوخ کیا، مارشل لگادیا۔ سیاستدانوں کی ایک بڑی تعداد ایوب خان کی سرکاری پارٹی کنوینشن مسلم لیگ میں شامل ہوگئی۔ ذوالفقار علی بھٹو اس پارٹی کے سیکرٹری جنرل تھے۔

سیاستدانوں کی ناعاقبت اندیشی اور اقتدار کے لالچ میں کسی حد تک بھی گر جانے کا سب سے افسوس ناک مظاہرہ جنرل یحییٰ خان کے دور ِ حکومت میں دیکھنے میں آیاجنہوں نے جنرل ایوب خان کے مستعفی ہونے پر مارشل لاء لگا کرحکومت سنبھالی تھی۔ جنرل یحییٰ خان نے ملک میں پہلی بار بالغ رائے دہی کی بنیاد پر صاف ستھرے منصفانہ الیکشن کرائے۔ مشرقی پاکستان(اب بنگلہ دیش) کی آبادی مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) سے زیادہ تھی۔ اسلیے قومی اسمبلی میں اسکی نشستیں بھی زیادہ تھی۔ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان سے ایک دو کے سواسب نستیں جیت لیں۔ پنجاب اور سندھ میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی نے بھاری اکثریت حاصل کی۔ شیخ مجیب الرحمان کو واضح اکثریتی پارٹی کا قائد ہونے کے بنیاد پر حکومت بنانے کا حق حاصل تھا لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے سخت مخالفت کی۔ قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں ہونا تھا۔ بھٹو نے اعلان کیا کہ جو نئی منتخب اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے ڈھاکہ گیا وہ اسکی ٹانگیں توڑ دیں گے۔ بھٹو مجیب الرحمن سے اقتدار میں حصہ مانگ رہے تھے۔ بھٹو ایک فوجی آمر کی حکومت میں شامل ہوگئے۔ انہوں نے مجیب الرحمن سے سمجھوتہ کرنا پسند نہیں کیا، اپوزیشن میں بیٹھنا پسند نہیں کیا حالانکہ انہیں معلوم تھا کہ مشرقی پاکستان میں جذبات بھڑکے ہوئے ہیں جنہیں ٹھنڈا کرنے کے لیے لچکدار روّیہ اپنانے کی ضرورت تھی۔

جب مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی شروع کی گئی تو بھٹو نے کہا کہ پاکستان کو بچا لیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بڑے ذہین آدمی تھے لیکن یہ بات نہیں سمجھ سکے کہ جہاں آبادی کی غالب اکثریت مجیب الرحمن کے ساتھ ہے وہاں پندرہ بیس ہزار فوجی عوام کی احتجاجی تحریک کو کیسے دباسکتے ہیں جبکہ بغاوت کو بھارت کی حمایت بھی حاصل ہے۔ پاکستان کی ائیر فورس بھی وہاں موجود نہیں۔ وہ سب کچھ سمجھ رہے تھے لیکن جان بوجھ کرصورتحال کو خراب ہونے دینا چاہتے تھے تاکہ مشرقی پاکستان الگ ہوجائے اور وہ مغربی پاکستان میں اقتدار حاصل کرسکیں۔

مجیب الرحمن وزیراعظم بن جاتے تو بھٹو کو اپوزیشن میں بیٹھنا پڑتا۔ جب بھٹو وزیراعظم بن گئے تو ساری اپوزیشن اور اپنے قریب ترین ساتھیوں کو جیلوں میں ڈالا، ظلم وستم کا نشانہ بنایا۔ جب اُنیس سو ستتر میں عام انتخابات کرائے تو دھاندلی کروائی۔ حزب اختلاف نے احتجاجی تحریک چلائی۔ بالآخر جنرل ضیاء الحق کا مارشل لا نافذ ہوگیا۔ اپوزیشن جماعتوں نے ضیاء الحق کو ویلکم کیا۔ انکی کابینہ میں شامل ہوگئے۔

ماضی سے ہمارے لیڈروں نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ بے نظیر بھٹو کو موقع ملا تو وہ منتخب وزیراعظم محمد خان جونیجو کی حکومت کو گرانے کے لیے تحریکیں چلاتی رہیں۔ جلسے جلوس کرتی رہیں۔ انیس سو اٹھاسی میں بے نظیر کی حکومت بنی تو جمہوریت کے سارے علمبردار ان کو ہٹانے کے لیے جمع ہوگئے، صدر غلام اسحاق خان سے ساز باز کرکے انکی منتخب حکومت کو دو سال میں گرا کر دم لیا۔ اسی غلام اسحاق خان سے ملکر بے نظیر بھٹو نے وزیراعظم نواز شریف کو اڑھائی سال سے زیادہ حکومت نہیں کرنے دی۔

بے نظیر دوسری بار وزیراعظم منتخب ہوئیں تو نواز شریف انکے خلاف اسٹیبلشمنٹ سے ملکر سازشیں کرتے رہے اور صدر فاروق لغاری کی مدد سے انہیں تین سال میں گھر بھیج کردوبارہ وزیراعظم بن گئے۔ بے نظیر ایک بار پھر نواز شریف کے خلاف سرگرم ہوگئیں۔ فوج کے سپہ سالار جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو بے نظیر نے انہیں خوش آمدید کہا۔ دو ہزار تیرہ میں نواز شریف تیسری بار وزیراعظم منتخب ہوئے تو عمران خان نے انہیں سکون سے حکومت نہیں کرنے دی۔ ایک کے بعد دوسرا دھرنا۔ اب اپوزیشن پارٹیاں یہی سلوک وزیراعظم عمران خان کے ساتھ کررہی ہیں۔

سیاستدانوں نے قسم کھائی ہوئی ہے کہ کہ کسی دوسری پارٹی کی حکومت برداشت نہیں کرنی۔ اسکو غیرآئینی طریقہ سے گرا کر دَم لینا ہے، خواہ مارشل لاء لگ جائے، فوج مداخلت کرے لیکن کسی مخالف سیاستدان کی حکومت کو چلنے نہیں دینا۔ ملک کا جو تحریری آئین ہے وہ کتاب میں ہے۔

اصل دستور یہ ہے جس پر عمل کیا جاتا ہے۔ ہمارے سیاستدان یاجوج ماجوج کی طرح ہیں۔ جو دیوار بناتے ہیں پھر اسی کو چاٹ کر ختم کردیتے ہیں۔ اور پھر نئے سرے سے بناتے ہیں تاکہ پھر اسے چاٹ کر ختم کرسکیں۔ جمہوری نظام مضبوط کیسے ہو؟ جیسے ہی کوئی منتخب حکومت بنتی ہے اسکے خلاف پراپیگنڈہ شروع کردیا جاتا ہے۔ اسے گرانے کی سازشیں شروع کردی جاتی ہیں۔ اس افراتفری کے ماحول میں ملک ترقی کرے تو معجزہ ہی ہوگا۔