برصغیر کی تقسیم اب اپنے پچھترویں برس میں داخل ہوچکی ہے لیکن اثرات کی تلخی گھٹنے کے بجائے مزید بڑھتی جارہی ہے کچھ عرصہ قبل تک عام طور پر اس کا اظہار صرف دونوں ملکوں کے بعض سیاستدان ہی کیا کرتے تھے مگر اب یہ زہر میڈیا سے ہوتا ہوا عوام کے کچھ گروہوں میں بھی سرایت کرنا شروع ہوگیا ہے جو بلاشبہ بہت تکلیف دہ اور فوری اور سنجیدہ عملی توجہ کا متقاضی ہے۔
دنیا کے اور بھی بہت سے ممالک میں مختلف حوالوں سے ہماری اور ہندوستان کی طرح ایک مقابلے اور مسابقت کی فضا پائی جاتی ہے سو کبھی بھی ان کے آمنے سامنے آنے پر مخالفت کے جذبات کو ہَوا ملنا ایک عام اور قدرتی سی بات ہے لیکن اگر یہ وقتی مخالفت مستقل دشمنی کی شکل اختیار کرجائے اور متعلقہ ملک ایک دوسرے کے ہمسائے بھی ہوں تو بعض اوقات بنیادی اخلاقیات بھی اس کی زد میں آجاتی ہیں۔
24اکتوبر کی شام کو دبئی کرکٹ اسٹیڈیم میں گزرنے والے چند گھنٹے بھی ایک ایسے ہی منظر نامے کا حصہ ہیں جس میں کھیل کے میدان میں ہونے والی فتح اور شکست کو دونوں ملکوں میں ایک نفسیاتی آشوب کا درجہ دے دیا گیا ہے، عمومی تجزیوں، آن پیپر اور تاریخی تجزیوں کے حوالے سے پاکستان کے جیتنے کے چانسز نسبتاً کم تھے اور ماہرین کے اندازوں کے مطابق اگر ایسا ہو بھی جاتا تب بھی فتح کا مارجن انتہائی کم ہونے کی توقع تھی مگر ہُوا یوں کہ کُل اڑتیس اوورز کے کھیل میں زیادہ سے زیادہ تین یا چار اوورز ایسے تھے جن میں بھارت برابر کی سطح پر محسوس ہوا ورنہ پورے میچ میں ٹاس کے بعد ہمہ وقت پاکستان کی برتری ہر شعبے میں قائم رہی۔
اتنے بڑے مارجن سے اتنی upset کردینے والی شکست اور بھارتی ٹیم کے حامیوں کا پہلے سکتے اور پھر غم و غصے میں مبتلا ہوجانا بالکل سمجھ میں آتا ہے، دوسری طرف پاکستانی ٹیم کے بیشتر ڈھلمل یقین حامیوں کا ایسی یک طرفہ اور تاریخ ساز فتح پر مارے خوشی کے آپے سے باہر ہوجانا بھی کوئی تعجب کی بات نہیں کہ کووڈ اور مہنگائی کی پیدا کردہ فرسٹریشن اور ڈپریشن میں قومی ٹیم کی یہ شاندارکارکردگی یقیناً اجتماعی مورال کے لیے ایک بے حد زبردست بُوسٹر سے کم نہیں تھی۔
فتح کی خوشی اور شکست کے غم کا یہ hangover کتنی دیر قائم رہتا ہے اس کے بارے میں فی الوقت وثوق سے کچھ کہنا ممکن نہیں مگر میچ کے بعد دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں نے جس تمیز، اخلاق، اسپورٹس مین اسپرٹ اور بُرد باری کا مظاہرہ کیا ہے میرے نزدیک اس کا مزہ اگر اس جیت سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہے کہ یہ ہمارے سیاستدانوں کے لیے ایک سبق اور عوام کے لیے کسی خوش خبری سے کم نہیں کہ کسی بھی مسئلے میں ہار یا جیت کو زندگی موت کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔
کھیل ہو یا کسی معاملے میں ہمارا موقف دونوں میں کامیابی یا ناکامی کی صُورت میں ایک دوسرے کے کندھے پر ہاتھ رکھ یا ملا کر نتیجے کو تسلیم یا انجوائے کرنا ایک ایسا ردّعمل ہے جس سے باہمی محبت اور احترام کو حوصلہ اور فروغ ملتا ہے۔ جس طرح سے بابر اعظم اور ورات کوہلی دونوں نے اس شریفانہ کھیل کی اُس اسپرٹ کو قائم رکھا جس کو اب اس کے مُوجد بھی فراموش کرتے جارہے ہیں ایک بہت ہی خوش کُن نظارا تھا۔
ظاہر ہے ایک پاکستانی ہونے کے ناتے میرے لیے بھی یہ جیت بہت خوشی اور افتخار کا باعث تھی اور ہے لیکن 74برسوں سے سیاسی اختلافات کے باعث جو آمیزش کی فضا اب عوام کے دِلوں میں بھی جگہ بنا رہی تھی اس کا سدِ باب اوّل الذکر سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ بصورت دیگر کھیل سمیت زندگی کے ہر شعبے میں ایک ایسی بے معنی جنگ چھڑجاتی ہے جس سے افہام وتفہیم کے رستے مزید کم اورتنگ ہوتے چلے جاتے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ کھلاڑیوں کو اس طرح آپس میں گلے ملتے دیکھ کر گرائونڈ کے اندر چند ہزار تماشائیوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں ٹی وی کی معرفت اس تجربے میں شامل ہونے والے کروڑوں لوگ بھی بہت کچھ سیکھیں گے۔
دلوں میں موجود عقیدوں اور پاسپورٹوں پر لگی ہوئی مہروں کا فرق تسلیم اور برحق مگر اس تفریق اور تقسیم سے بہت پہلے انسان ہونے کے ناتے ہم سب ایک ہی تسبیح کے دانوں کی طرح ہیں اب بھی بہت کچھ ٹھیک ہوسکتا ہے ضرورت صرف انصاف قائم کرنے اور ایک دوسرے کو اُس کی جائز space دینے کی ہے سو اِس خوشی اور مایوسی کی ہنگامی فضا سے اُوپر اُٹھ کر میں ایک بار پھر اُس پیغامِ محبت کو دہراتا ہوں جو میرے نزدیک ہر مسئلے کا حل ہے۔
………
ہم پُھول تمہیں بھیجیں تم پُھول ہمیں بھیجو
خوشبو سے مہکتا ہو رنگوں سے لہکتا ہو
یہ باغ تمہارا بھی یہ باغ ہمارا بھی
………
یہ رات جو چھائی ہے
اس رات کے دامن میں
اک صبح نے ہونا تھا
یہ رات نہیں گزری وہ صبح نہیں آئی
………
اے دوست چلو آئو
اُس صبح کے رستوں کے آثار ذرا دیکھیں
جو بیچ میں حائل ہے دیوار ذرا دیکھیں
خدشوں کی فصیلوں کے اُس پار ذرا دیکھیں
………
اب امن کا رستہ لیں اب پیار کا موسم ہو
آنکھوں میں شفق جُھومے، گفتار میں ریشم ہو
آباد رہو تم بھی آباد رہیں ہم بھی
دلشاد رہو تم بھی دلشاد رہیں ہم بھی
………
ہم پھول تمہیں بھیجیں
تم پھول ہمیں بھیجو