پاکستان میں جو معاملات پارلیمنٹ اور اداروں کی سطح پر طے ہو جانے چاہییں وہ اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث تنازعات کا شکار ہو کر عدالتوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ عدالت فیصلہ کرتی ہے تو کہیں جا کر بحث تھمتی ہے۔ کئی بار تو عدالتوں پر بوجھ محض اس وجہ سے بڑھ جاتا ہے کہ دو ادارے ایک موضوع پر اتفاق رائے نہیں کر پاتے۔ ایسا ہی کچھ مستقبل قریب میں ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
پاکستان میں سیاسی حوالے سے اہم ترین عدالتی سال کا آغاز ہو رہا ہے۔ عدالتی سال ستمبر میں شروع ہو کر اگست میں اختتام پزیر ہوتا ہے۔ اس سال بہت سے اہم معاملات سپریم کورٹ میں آنے اور اہم ترین فیصلے ہونے کی توقع ہے۔ چند ایک چیزیں مثال کے طور پر آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ اسلام آباد کے بہت ہی قابل رپورٹر عدیل وڑائچ نے خبر بریک کی ہے کہ حکومت نے چئیرمین نیب جسٹس (ر)جاوید اقبال کی مدت ملازمت میں چار سال کی توسیع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں حکومت ابتدائی طور پر ایک آرڈیننس لے کر آئے گی۔ اس فیصلے کو اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں قبول کرتی دکھائی نہیں دیتیں کیونکہ اپوزیشن کا موجودہ چئیرمین نیب کے حوالے سے موقف بہت سخت رہا ہے۔ قوی امکان یہ ہے کہ اپوزیشن اس آرڈیننس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی۔ لہذا لگتا یہی ہے کہ موجودہ چئیرمین نیب کی مدت ملازمت میں توسیع یا نئے چئیرمین کے تقرر کے حوالے سے فیصلہ سپریم کورٹ کو ہی کرنا ہو گا۔
پاکستان کے ایک اور اہم ترین ادارے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور حکومت کے درمیان محاذ آرائی بھی اس وقت عروج پر نظر آتی ہے۔ اگلے انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے کرانے پر حکومت بضد ہے اور الیکشن کمیشن کے اعتراضات برقرار ہیں۔ الیکشن کمیشن سمجھتا ہے اس مشین کے ذریعے انتخابات ممکن ہی نہیں جبکہ بابر اعوان پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر بل کو ہر صورت منظور کرانے کا اعلان کر چکے ہیں۔ اگر اتفاق رائے کرائے بغیر یہ بل پاس کیا گیا تو امکان ہے کہ الیکشن کمیشن یا پھر پی ڈی ایم اسے عدالت میں چیلنج کر دی گی۔ لہذا ایک بار پھرفیصلہ عدالت ہی کو کرنا ہو گا۔
حکومت اور اپوزیشن کے مابین ایسا ہی ایک اختلاف اووسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سے متعلق بھی ہے۔ ظاہر ہے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں میں تحریک انصاف کی سپورٹ باقی سیاسی جماعتوں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ ایسے میں اپوزیشن کی جماعتیں ای ووٹنگ کو دھاندلی کا ذریعہ قرار دے کر مسترد کر رہی ہیں۔ اس معاملے پر بھی سیاسی جماعتوں کے ہاں اتفاق رائے موجود نہیں۔ حکومت نے زبردستی کی تو فیصلہ ا یک بار پھر عدالت کو کرنا ہو گا۔
آجکل ایک اور ممکنہ بل تنازع کی شدید زد میں ہے۔ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی بل۔ سیاسی جماعتیں اور صحافتی تنظیمیں اس پر شدید احتجاج کر رہی ہیں۔ اس میں تو لگتا ہے کہ حکومت صحافیوں کے شدید احتجاج کے بعد شاید ہتھیار ڈال دے یا پھر اس میں تبدیلیاں کر کے اسے قابل قبول بنا دے۔ لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو قوی امکان ہے کہ یہ معاملہ بھی سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا جائے گا۔
اس کے علاوہ سیاست دانوں پر چلنے والے کچھ اہم ترین کرپشن کیسز بھی اسی سال سپریم کورٹ پہنچنے کی توقع ہے۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز کی اپیلیں اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہیں۔ مریم نواز کے تمام تر تاخیری حربوں کے باوجود امکان یہی ہے کہ اگلے چند ماہ میں اس کیس کا فیصلہ سنا دیا جائے گا۔ جو بھی فریق کیس ہارے گا وہ سپریم کورٹ کا رخ کرے گا۔ یہ کیس اس لیے بھی اہم ہے کہ اگر مریم نواز بری ہو جاتی ہیں تو وہ الیکشن لڑنے کی اہل ہوں گی اور اگلے وزیر اعظم کی امیدوار بھی۔ لہذا سپریم کورٹ میں جانے کے بعد سب کے نظریں اس کیس پر لگی رہیں گی کیونکہ فیصلے کی سیاسی اہمیت بھی ہو گی۔
دوسری جانب نواز شریف کی واپسی کی خبریں پارٹی میں سرگرم رہتی ہیں۔ فی الحال نواز شریف واپسی کا فیصلہ کرتے تو دکھائی نہیں دیتے لیکن اگر وہ آتے ہیں تو ظاہر ہے گرفتاری کے بعد جیل جائیں گے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ان کی اپیلوں پر سماعت بھی شروع ہو جائے گی اور ظاہر ہے فیصلے کے بعد یہ معاملہ بھی سپریم کورٹ پہنچ جائے گا۔
اس سال سپریم کورٹ میں پانچ ججز ریٹائر ہونے جا رہے ہیں۔ ایک آسامی پہلے ہی خالی ہے جس کے لیے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جسٹس عائشہ ملک کے نام پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ اسی روز وکلاء نے ہڑتال کی اور ہنگامہ آرائی کی سی کیفیت رہی۔ ایسے میں پانچ ججز کا انتخاب اور تقرر بہت اہمیت کا حامل ہو گا۔ اب دیکھئے یہ مرحلہ ٔ شوق آسانی سے طے پاتا ہے یا نہیں۔
آنے والے دنوں میں سپریم کورٹ میں ایک اور اہم ترین کیس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا بھی ہے جس میں حکومت نظر ثانی کے خلاف نظر ثانی دائر کر چکی ہے۔ اس کیس میں چیمبر اپیل جلد فکس ہو جانے کی توقع ہے۔ لہذا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے متعلق فیصلہ بھی اسی عدالتی سال میں ہونا ہے۔ اس کے علاوہ لاہور کی عدالتوں میں بھی اہم ترین کیسز کی سماعت میں تیزی آنے کا امکان ہے۔ نیب عدالتیں پانچ ماہ سے خالی پڑی تھیں، نئے ججز آ جانے کے بعد شہباز شریف کے منی لانڈرنگ ریفرنس، رمضان شوگر مل اور آشیانہ ریفرنس کی سماعت بھی شروع ہو جائے گی۔ پانچ نئی نیب عدالتوں کے قیام کے بعد امکان یہی ہے کہ یہ کیس جلد از جلد پایہ تکمیل کو پہنچیں گے۔ اس کے علاوہ رانا ثناء اللہ کا منشیات کا کیس اور جاوید لطیف کا آمدن سے زائد اثاثوں کا ممکنہ ریفرنس بھی اس عدالتی سال میں اہمیت کے حامل رہیں گے۔
کچھ کیسز تو ظاہر ہے عدالت میں آنے ہی ہیں مگر الیکٹرانک ووٹنگ مشین، میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی بل اور چئیرمین نیب کی مدت میں توسیع جیسے معاملات پر اگر حکومت اپوزیشن کے ساتھ اتفاق رائے پیدا کر لے تو عدالت پہ پڑنے والا بوجھ کچھ کم کیا جا سکتاہے۔