شہزاد اکبر کے خلاف مبینہ طور پر ایک طویل چارج شیٹ تیار ہو چکی تھی۔ ناکامیوں کی ایک لمبی فہرست تھی جو ان کی پشت پر چسپاں تھی۔ اس حکومت میں شہزاد اکبر پہلے نہیں ہیں جنہیں کمزور کارکردگی پر فارغ کیا گیا لیکن فرق یہ ہے کہ شہزاد اکبر کی ذمہ داریاں اور وزیر اعظم سے قربت دیگر سے جدا تھی۔ دوسرا انہوں نے وزیر اعظم کو سہانے خواب دکھا کر ان کی توقعات بہت بڑھا دی تھیں، نتیجہ صفر نکلنے پرکپتان کا غصہ فطری تھا۔ صرف یہی نہیں اُن شخصیات کا سیاسی خون بھی شہزاد اکبر کی گردن پر ہے جو ایک وقت میں وزیر اعظم کے کافی قریب ہوا کرتے تھے۔ اگر اُن سب کی قربانی سے بھی نتائج نکل آئے ہوتے تو غنیمت تھی مگر اب وزیر اعظم کے ذہن میں یہ خیال آنا لازم تھا کہ شہزاد اکبر کو فوقیت دے کر اتنے لوگوں کی قربانی سے کیا حاصل ہوا۔
گذشتہ ماہ بھی ایک اہم اجلاس میں جب وزیر اعظم نے شہزاد اکبر سے اپوزیشن کی اہم شخصیات کے کرپشن کیسز میں پیش رفت کی تفصیلات طلب کیں تو انہوں نے طویل کاغذی کارروائی اور دائر کیے گئے ریفرنسز سے اخذکی گئی تفصیلات وزیر اعظم کے سامنے رکھ دیں، جب ان سے نتائج سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے سارا ملبہ اٹھا کر دوسری شخصیات پر ڈال دیا جن میں اُس وقت کے ڈی جی نیب لاہور شہزاد سلیم بھی شامل تھے۔
میرے ذرائع کے مطابق شہزاد سلیم اپنی صفائی میں چلاتے رہے کہ انہوں نے اپنی حد تک بہترین ریفرنس تیار کر کے بھیجے ہیں اہم ترین شخصیات کو گرفتار کر کے جیلوں میں بھی ڈالا ہے، باقی کام تو پراسیکیوشن کا ہے۔ شہزاد سلیم کی کسی نے نہ سنی اور انہیں اس پوزیشن سے ہٹا کر راولپنڈی میں ایک کمزور سی ذمہ داری پر لگا کر کھڈے لائن کر دیا گیا۔ شہزاد اکبر ایک اور قربانی دے کر اپنی گردن بچانے میں کامیاب رہے تھے لیکن کب تک؟ پیمانہ قطرہ قطرہ بھر رہا تھا۔
کچھ عرصہ پہلے ایف آئی اے کی جانب سے وزیر اعظم کو بریفنگ دی گئی کہ شہباز اور حمزہ پر 27 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا کیس تیار ہو رہا ہے، پھر جب کیس تیار ہوا تو وہ 27 نہیں 16 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا تھا۔ اس میں بھی چھ مہینے تک چالان جمع نہیں ہوا، جب دسمبر میں چالان جمع ہوا تو وہ نا مکمل تھا۔ عدالت نے چالان مکمل کرنے کے لیے سخت رویہ اختیار کیا تو ایف آئی نے بینکوں کے کردار کو ہی چالان سے خارج کر دیا یوں بینکنگ کورٹ نے یہ کیس واپس ایف آئی کو بھجوا دیا۔
آج آٹھ ماہ گزرنے کے بعد شہباز شریف کا منی لانڈرنگ کیس وہیں کھڑا ہے جہاں جون میں کھڑا تھا۔ عدالت خود بھی ایف آئی اے حکام کی بار بار سرزنش کرتی اور انہیں جلد تفتیشی کام نمٹانے کی ہدایت کرتی رہی لیکن اس کام میں آٹھ ماہ لگ گئے۔ اب اس تاخیر اور نتیجے کے صفر نکلنے کی ذمہ داری شہزاد اکبر پہ ڈلنا لازمی سی بات تھی۔ وزیر اعظم اس بات پر بھی ناراض ہوئے کہ اس کیس میں سو سے زیادہ گواہ شامل کر دیے گئے ہیں یوں یہ کیس تو سالہا سال چلتا رہے گاجیسا کہ نیب عدالت میں ٹی ٹیز والے ایک دوسرے ریفرنس میں ہو رہا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے وزیر اعظم عمران خان کے قریبی ساتھی جہانگیر ترین پر مختلف طرح کے الزامات عائد ہوئے اور انہیں اپنے بیٹے کے ہمراہ عدالتوں کے بار بار چکر لگا کر ضمانتیں حاصل کرنا پڑیں۔ ایک نیا سیاسی گروپ وجود میں آیا جسے جہانگیر ترین گروپ کہا جاتا ہے، اس گروپ کی وجہ سے تحریک انصاف کی سیاست کو کافی دھچکہ لگا۔ پھر وزیر اعظم کو اندازہ ہوا کہ جہانگیر ترین کے خلاف تو کچھ ثابت ہی نہیں کیا جا سکا یعنی ان پر نہایت کمزور قسم کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ آج وزیر اعظم کو ضرور لگا ہو گا کہ اس "سازش" کے ذمہ دار شہزاد اکبر تھے۔
یہ شہزاد اکبر ہی تھے جنہوں نے کچھ سال پہلے بتایا تھا کہ غیر ملکی بینکوں میں پاکستانیوں کے سات سو ارب روپے غیر قانونی طور پر موجود ہیں اور وہ جلد یہ رقم واپس پاکستان لیکر آئیں گے۔ اس سلسلے میں وہ ٹاک شوز اور پریس کانفرنسز میں یہ بھی بتاتے رہے کہ ان کی مختلف ممالک سے بات چیت چل رہی ہے، ایم او یوز سائن ہو رہے ہیں اور اس معاملے میں جلد پیش رفت ہو گئی، لیکن درحقیت اس ضمن میں ایک روپے کی واپسی ممکن نہ ہو سکی۔ آج شہزاد اکبر کٹہرے میں کھڑے ہیں کہ کہاں ہیں وہ 700 ارب روپے جو مختلف غیر ملکی بینکوں سے واپس پاکستان آنے تھے۔
ذرائع تو یہاں تک کہتے ہیں شہزاد اکبر نے برطانیہ کی کرائم ایجنسی کو کئی کاغذات فراہم کیے تھے لیکن تحقیقات میں شہباز شریف اور سلمان شہباز کو کلیئر کر دیا گیا جس پر وزیر اعظم خاصے نالاں نظر آئے اور انہوں نے شہزاد اکبر سے اس بابت پوچھ گچھ بھی کی لیکن شہزاد اکبر نے وزیر اعظم کو مطمئن کرنے کیلئے ویسی ہی دلیلوں کا استعمال کیا جو انہوں نے پریس کانفرنس اور ٹاک شوز میں کیا۔ وزیر اعظم خاموش تو ہو گئے، مطمئن نہیں ہوئے۔
اس کے علاوہ بھی کئی چیزیں شہزاد اکبر کے کھاتے میں جمع ہو رہی تھیں۔ جیسے مختلف اہم پوسٹوں پر اپنی مرضی کے بندے لگوانااور ان کی کمزور کارکردگی کے باوجود وزیر اعظم کے سامنے ان کا دفاع کرنا۔ مثلا راولپنڈی رنگ روڈ سکینڈل کی تحقیقات کے لیے مبینہ طور پر گلزار شاہ کو کمشنر راولپنڈی لگوایا گیا مگر نتیجہ صفر نکلا اور سابق کمشنر راولپنڈی تھوڑے ہی عرصے میں ضمانت پر رہا ہو گئے۔ ایسے ہی اینٹی کرپشن کے ڈی جی گوہر نفیس سے متعلق بھی کئی شکایات وزیر اعظم کو موصول ہوئیں مگر شہزاد اکبر نے ان کا دفاع کیا لیکن جب وزیر اعظم نے انٹیلی جنس ایجنسی سے رپورٹ منگوائی تو حقائق مختلف نکلے۔
شہزاد اکبر اور ان کے قریبی ہم خیال دوست وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کی مشترکہ کوششوں کے باعث فردوس عاشق اعوان، زلفی بخاری، ندیم بابر اور سب سے بڑھ کر جہانگیر ترین اقتدار کی راہداریوں سے باہر کیے گئے اور آخر میں جب ایک اہم معاملے پر اعظم خان اور شہزاد اکبر کے درمیان جھگڑا ہوا تو حقائق وزیر اعظم عمران خان کے علم میں لائے گئے لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ سمجھ سے باہر ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کب تک اپنے قریبی ساتھیوں کی باتوں میں آ کر دھوکہ کھاتے رہیں گے اب تو چودھری شجاعت نے بھی انہیں مشورہ دے دیا ہے کہ اپنے مشیروں سے ہوشیار رہیں وہ انہیں لے ڈوبیں گے۔