دنیا تبدیل ہو رہی ہے۔ طاقت کے نئے مراکز وجود میں آ رہے ہیں، امریکہ سپر پاور کا درجہ کھو رہاہے۔ اور یہ صرف کورونا وائرس آنے کے بعدیا ایک سیاہ فام امریکی جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کے نتیجے میں شروع ہونے والے ہنگاموں کے بعد نہیں ہوا، کورونا سے پہلے بھی تھوڑا تھوڑا کر کے بہت کچھ ہو چکا۔ کئی سال پہلے مشہور صحافی فرید زکریا نے اپنی ایک کتاب "Post AmericanWorld" میں اس جانب توجہ دلاتے ہوئے لکھا تھا کہ دنیا ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے جہاں امریکہ سپر پاور نہیں رہے گا۔ انہوں نے لکھا تھا کہ دنیا میں نئی لگنے والی تمام بڑی فیکٹریاں چین میں لگ رہی ہیں۔ متحدہ ارب امارات سرمایہ کاری فنڈ کا امیر ترین گھر بن چکا ہے۔ دنیا کی سب سے اونچی عمارت جو کبھی نیویارک میں تھی اب دبئی میں ہے۔ دنیا کا ضخیم ترین جہاز روس اور یوکرائین میں بنایا گیا ہے۔ دنیا میں اول نمبر پر قرار دیا جانے والا کسینو اب لاس ویگاس میں نہیں بلکہ مکائو میں ہے۔ جس نے لاس ویگاس کی سالانہ آمدنی کومات دے دی ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ فلم بنانے اور سب سے زیادہ ٹکٹ بیچنے والی انڈسٹری اب امریکہ کی نہیں رہی بلکہ اس کی جگہ بالی وڈ نے لے لی ہے۔ کھیل کے میدان میں اب صرف امریکہ کا ڈنکا نہیں بجتا بلکہ چین، آسٹریلیا اور دوسرے کئی ممالک میڈل چھین کر لے جاتے ہیں۔ دنیا کے دس بڑے شاپنگ مالز میں سے اب صرف ایک امریکہ میں ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی شاپنگ مارکیٹ بیجنگ میں ہے۔ دنیا کی جدید ترین گاڑیاں اور موبائل اب جاپان میں بنتے ہیں۔ دنیا کا امیر ترین باشندہ اب ایک امریکی نہیں بلکہ میکسیکن ہے۔ امریکہ کے مقابلے میں چین، روس، بھارت، برازیل، جنوبی افریقہ حتی کے کینیا جیسے ممالک کی معیشتیں ترقی کر رہی ہیں۔ یوں پاور کے نئے مراکز بن رہے ہیں۔ یہ سب لکھنے والا شاید توقع کر رہا ہوگاکہ ان واقعات کے منفی نتائج برآمد ہونے میں کئی سال لگ جائیں گے اسے شاید اندازہ نہیں تھا کہ وہ وقت جلد آنے والا ہے جب امریکہ پر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت ہو گی۔
امریکہ کی جو شکل ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دور میں بنا دی ہے ماضی قریب میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ضد، انا، غصہ، حماقت اور غیر سنجیدگی پہلے ڈونلڈ ٹرمپ کی پہچان بنی اورپھر ان کی پالیسیوں میں نظر آنے لگی۔ اگر کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آج سارے امریکی ایک سیاہ فام شخص جارج فلوئیڈ کی ہلاکت پر باہر آ گئے ہیں تو ان کے لیے عرض ہے کہ پیمانہ قطرہ قطرہ بھرتا ہے ایک دم نہیں بھرتا۔ وہ الگ بات کہ اکثرپیمانہ چھلکنے کی ذمہ داری آخری قطرے پر ڈال کر حقیقت سے منہ موڑ لیا جاتا ہے۔ آج امریکی اپنے غصے کا اظہارکر رہے ہیں تو اس کے پیچھے ٹرمپ کی بہت سی پالیسیاں ہیں جس سے وہ خفا ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے 2016 کے انتخابات میں "Make America Great Again" کا نعرہ لگایا۔ اس نعرے میں یوں تو کوئی خرابی نہ تھی لیکن ٹرمپ نے اس نعرے کے ذریعے نفرت کی بنیاد رکھی، امریکیوں کو احساس دلایا کہ ان کی پسماندگی کی وجہ میکسیکو سے آئے مہاجرین ہیں جن کیلئے وہ دیوار کھڑی کر دیں گے۔ انہوں نے مسلمان ملکوں پر پابندی کا عندیہ دیا تو نفرت کی بنیاد پر کھینچی گئی لکیروں میں ایک اور کا اضافہ ہو گیا۔ صرف میکسیکن اور مسلمان مہاجرین کے خلاف ہی نہیں بلکہ ٹرمپ نے امریکی عوام میں افریقن امریکنز کے لیے بھی نفرت کے جذبے کو ابھارا۔ اس نفرت کا نشانہ بننے والے تب تو خاموش رہے لیکن جب ایک افریقی امریکی سفید پولیس والے کے ہاتھوں دم گھٹنے سے مارا گیا تو نفرت اور غصہ چیخ بن کرظاہر ہواجو قابو میں نہیں آ رہا۔
ٹرمپ نے نفرت بڑھانے اور امریکہ کو تنہا کرنے کے لیے صرف نعرے نہیں لگائے، عملی اقدامات بھی کیے۔ انہوں نے آتے ہی امریکہ کو دنیا سے الگ کرنے اور چین جیسے بڑے ٹریڈ پارٹنر کے ساتھ معاہدے معطل کر دیے۔ ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ جو چین اور امریکہ کے درمیان اوباما کے دورمیں کی گئی تھی، ٹرمپ نے اس معاہدے کو بھی ختم کر دیا۔ وجہ یہ بیان کی کہ امریکہ کو اب ساری دنیا کو چھوڑ کر اپنے ملک پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ٹرمپ نے امریکہ کو Paris Climate Agreementسے بھی نکال لیا۔ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد کینیڈا، افریقہ اور میکسیکو کے ساتھ بھی ٹریڈمتاثر ہوئی جس سے امریکہ مزید تنہائی کا شکار ہو گیا۔
ٹرمپ کی سب سے بڑی غلطی نسل پرستی کو فروغ دینا تھا۔ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد سے ہی بیشتر مواقع پر ٹرمپ وائٹ امریکیوں کو بڑھاوا دیتے رہے۔ ان کی نسل پرستانہ ٹویٹس کو تنقید کا سامنا بھی رہا۔ ٹرمپ نے ڈیموکریٹ پارٹی کی منتخب خواتین رشیدہ طلیب الہان عمر اور عیانہ پرسلے کو بارڈرپالیسی پر تنقید کے بعد اپنے ملک واپس جانے کا مشورہ بھی دے ڈالا۔ ٹرمپ کے نسل پرستی کو بڑھاوا دینے کے بعد ملک بھر میں نفرت کے جرائم میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ جب صدر ٹرمپ نے ایگزیکٹو آرڈر13760 پر بھی دستخط کیے تو بیشتر مسلم ممالک سے مسلمانوں کے امریکہ آنے پر پابندی لگ گئی۔ یہ تاثر عام ہوا کہ مسلمان امریکہ سے نفرت کرتے ہیں اور دنیا میں انتشار پھیلا رہے ہیں۔ اس طرح سالوں سے بنا امیگریشن سسٹم تباہ ہو گیا۔ ٹریول بین کی وجہ سے حالات اور بگڑتے چلے گئے۔ نسل پرستی کے اس جذبے نے سب سے زیادہ افریقی امریکن افرادکو متاثر کیا۔ اب تک 31 سے زیادہ افریقی امریکن پولیس کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔ ان واقعات کے رد عمل میں "Black Lives Matter" کے نام سے امریکہ میں ایک تحریک بھی شروع ہوئی جو حالیہ دنوں میں اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔
امریکہ بد امنی کی زد میں ہے۔ سڑکوں پر مظاہرین، آنسو گیس، ربڑ کی گولیوں اور لوٹ مار کا راج ہے۔ بڑے بڑے سٹور لوٹے جا رہے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے بیشتر افراد خود مظاہرین کے ساتھ جا کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ سب ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب کورونا وائرس کے باعث امریکہ میں ایک لاکھ سے زائد افراد جان سے جا چکے ہیں۔ کارخانے بند ہو رہے ہیں، روزگار ناپید ہے، کمپنیاں دیوالیہ ہو رہی ہیں اور معیشت کو سنجیدہ نوعیت کے خطرات لاحق ہیں۔ ایسے میں ٹرمپ امریکہ کو کہاں لے جائیں گے، اس پر امریکہ ہی نہیں امریکہ سے باہر بھی شدید تشویش پائی جاتی ہے۔