سوال سادہ ہے کہ اپوزیشن کی تحریک آخرمتحدہ اپوزیشن کا روپ کیوں نہیں دھار سکی۔ ذرا سا غور کرنے پہ پتہ چلتا ہے کہ سبھی جماعتوں کا ہدف الگ ہے اور مجبوریاں الگ۔
مولانا فضل الرحمن کے ہاں اس بات پر کوئی ابہام نہیں کہ عمران خان کو گھر جانا چاہیے۔ تبھی انہوں نے ہمیشہ اس مقصد کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے ہاں بھی اس بات پر کوئی ابہام موجود نہیں کہ حکومت کو گھر نہیں جانا چاہیے۔ پیپلز پارٹی کو اس بات کا اداراک ہے کہ موجودہ حالات میں انتخابات ہوتے ہیں تو اس کی پوزیشن میں کوئی فرق نہیں پڑنے والا، اسے نئے الیکشن کے نتیجے میں بھی زیادہ سے زیادہ سندھ ہی دوبارہ ملے گاجو پہلے ہی اس کے پاس ہے۔ ایسے میں اسے کیا پڑی ہے کہ حکومت کو گھر بھیجنے کر دوبارہ انتخابات میں اترنے کا کوئی رسک لے۔
ن لیگ کے ہاں البتہ دو رائے موجود رہی ہیں جس کا اعتراف شہباز شریف نے حال ہی میں خود بھی کیا ہے۔ ن لیگ کے منتخب لوگ پانچ سال پورے ہونے کے حق میں ہیں جبکہ مریم نواز کے حامی اور غیر منتخب لوگوں کی خواہش تھی کہ حکومت کا بستر فوری سمیٹ دیا جائے۔ اب شہباز شریف کا خیال ہے کہ پارٹی میں دو رائے نہیں اور سب عمران خان حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے شہباز شریف کی آدھی بات سے اتفاق کیا جاسکتا ہے جبکہ آدھی بات درست نہیں ہے۔ یعنی پہلی بات درست ہے کہ اب پارٹی میں دو رائے نہیں رہیں اور سب ایک نکتے پر متفق ہیں مگر سب اس بات پر متفق نہیں ہیں کہ حکومت کو گھر بھیجا جائے بلکہ متفق اس بات پر ہیں کہ اب وقت کم رہ گیا ہے انتخابات وقت پر ہی ہونے چاہیے۔
ماضی میں مریم نواز تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے حق میں رہی ہیں، شہباز شریف سے ان کا یہی اختلاف تھا مگر اب ان کے سامنے امید کی ایک کرن موجود ہے۔ انہیں لگتا ہے اسلام آباد ہائیکورٹ سے ان کی سزائوں کے خاتمے کا فیصلہ ہو گا اور وہ اگلا الیکشن لڑنے کے اہل ہو جائیں گی۔ اس امید کے ساتھ وہ کیوں چاہیں گی کہ عدالتی فیصلہ آنے سے پہلے الیکشن ہوں اور وہ وقتِ عصر روزہ افطار کر لیں۔ لہذا مسلم لیگ ن اب مجموعی طور پر اس بات پر متفق نظر آتی ہے کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے اور انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہوں۔
اس طویل مضمون نما تمہید کے بعد اب آئیے اس سوال پہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے رہنمائوں کی ملاقات آخرکیوں ہوئی؟ ملاقات کے اعلامیے یا پریس کانفرنس کے نتیجے میں دو نکات ہمارے سامنے آئے۔ ایک یہ کہ الگ الگ لانگ مارچ کو ایک ہی دن کرنے یا ایک ہی دن اسلام آباد پہنچنے پر غور کیا گیا ہے۔ دوسرا تحریک عدم اعتماد کے آپشن پر سنجیدگی اور تفصیل سے بات چیت ہوئی ہے۔ میرے نزدیک دونوں ہی کے امکانات نہ ہونے کے برابر دکھائی دیتے ہیں اور اس کی کچھ وجوہات ہیں۔
ایک ہی دن اسلام آباد پہنچنے کے تین ہی راستے ہیں۔ ایک، پی ڈی ایم 27 فروری کو پیپلز پارٹی کے ساتھ لانگ مارچ کرے۔ دو پیپلز پارٹی تاریخ تبدیل کرے اور23 مارچ کو اسلام آباد پہنچے۔ اور تیسرا یہ کہ دونوں اپنی تاریخیں تبدیل کر کے کسی تیسری تاریخ پہ متفق ہو جائیں۔ سیاست میں ہونے کو تو کچھ بھی ممکن ہے مگر آج کی تاریخ تک تو یہ تینوں امکانات ہی دکھائی نہیں دیتے اور لگتا یہ کہ اگر لانگ مارچ ہوئے بھی تو الگ الگ ہوں گے۔
دوسرا معاملہ تحریک عدم اعتماد کا ہے۔ سینٹ میں اپوزیشن اکثریت میں ہے اس کے باوجود حکومت جہاں چاہتی ہے اپنی اکثریت ثابت کر دیتی ہے، سٹیٹ بینک کا سینٹ سے پاس ہونے والاحالیہ بل اس کی تازہ مثال ہے۔ جب ماضی میں چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد اپوزیشن کی اکثریت کے باوجود ناکام ہو گئی تو قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کیسے کامیاب ہو گی جبکہ وہاں اپوزیشن کی اکثریت بھی نہیں۔ دوسری طرف شیخ رشید روز دعوے کرتے رہتے ہیں کہ اپوزیشن کے پندرہ لوگ حکومت کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ لہذا اپوزیشن تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا رسک لیتی دکھائی نہیں دیتی۔
پھر اگلا سوال یہ پیدا ہو گا کہ پیپلز پارٹی کی مسلم لیگ ن کے رہنمائوں سے حالیہ بڑی ملاقات کا مقصد کیا ہے؟ اس کو سمجھنا بھی زیادہ مشکل نہیں۔ پیپلز پارٹی سمیت اپوزیشن کی کوشش یہ ہے کہ حکومت کے خلاف تحریک کا ماحول بنائے رکھے اور اسے کمزور اور غیرمقبول کرنے کے مشن پر گامزن رہے تاکہ جب بھی الیکشن ہوں عمران خان کی غیر مقبولیت کا فائدہ اٹھاکر ووٹ لیے جا سکیں۔ علاوہ ازیں اپوزیشن کا مقابلہ آپس میں بھی ہے۔ پیپلز پارٹی کا خدشہ ہے آٹھ جماعتیں مل کر ان سے زیادہ مقبولیت حاصل نہ کر لیں دوسری طرف ن لیگ کی کوشش ہے عوام میں یہ تاثر نہ جائے کہ پیپلز پارٹی تنہا ہو کر بھی آٹھ جماعتوں جیسا لانگ مارچ کرنے میں کامیاب ہو گئی۔
پیپلز پارٹی کے سامنے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس نے اسلام آباد جانے کے لیے اپنے لانگ مارچ کو پنجاب سے گزارنا ہے۔ اب پنجاب میں اس کے پاس ورکر کہاں سے آئیں گے، یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ ابھی حال ہی میں اس کا ٹریکٹر مارچ بری طرح فلاپ رہا ہے اور کسان پیپلز پارٹی کی کال پر اپنے ٹریکٹر لے کر نہ نکلے۔ پیپلز پارٹی کو خوف ہے اس کے لانگ مارچ کے ساتھ بھی کہیں یہی حال نہ ہو۔ لہذا حالیہ ملاقات پیپلزپارٹی کی بھی ضرورت تھی۔
مولانا فضل الرحمن کیا سوچ رہے ہیں کیا وہ پیپلز پارٹی کو ساتھ ملانے پر رضا مند ہوں گے؟ سوال بہت سے ہیں جن کے جواب وقت دے گا لیکن ہمارے اندازے اکثر درست ثابت ہوتے ہیں کیونکہ اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں کبھی مایوس نہیں کرتیں۔